ٹرمپ و مودی ملاقات اور خطے پہ اس کے اثرات

ٹرمپ و مودی ملاقات اور خطے پہ اس کے اثرات
طاہر یاسین طاہر
آدم بیزاری اور انسان کشی دونوں میں قدرِ مشترک ہے۔ کیا یہ وہی مودی نہیں کہ جو وزیر اعظم منتخب ہونے سے پہلے امریکہ کا سفر نہیں کر سکتے تھے؟ کیوں؟ اس لیے کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے فرقہ وارانہ فسادات اور مسلم کشی میں ان صاحب کا کردار مرکزی تھا۔عالمی برادی انھیں دہشت گرد سمجھتی تھی، مگر وزیر اعظم کا پروٹوکول انھیں امریکی صدر سے ملاقات بھی کر وا رہا ہے اور یہ امریکہ سے دفاعی و تجارتی معاہدے بھی کر رہے ہیں ۔یہ بحث اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا دنیا تیزی سے انتہا پسندی کی جانب بڑھ رہی ہے یا واقعی انتہا پسندی کے خلاف یکجان ہو کر میدان میں ہے؟ٹرمپ اور مودی کی ملاقات تو کجا، ان دونوں کا انتخاب ہی یہ سمجھنے کو کافی ہے کہ دنیا نسلی و فرقہ وارانہ رحجان کی طرف بڑھ رہی ہے،اور یہ بڑھوتری انتہا پسندی اور نسلی تعصب کچلنے کے نام پر جاری ہے۔کون نہیں جانتا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کے خلاف شدید منفی جذبات رکھتے ہیں۔یہ وہی مودی ہیں جنھوں نے بنگلہ دیش میں تقریر کے دوران سرکاری سطح پہ اعتراف کیا کہ بھارت کا پاکستان کو دو لخت کرنےمیں مرکزی کردار تھا۔انھوں نے ڈھاکہ تقریر میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کا بھی اعتراف کیا اور گلگت بلتستان کو بھی نہیں بھولے۔ ہمسایہ ممالک میں بد امنی پھیلانا ، مداخلت کرنا اورکس شے کا نام ہے؟
بے شک بھارت خطے میں بالادستی چاہتا ہے۔ سی پیک سے اسے جو تکلیف ہے اس بارے بھارتی بر ملا اظہار کرتے ہیں، کلبھوشن یادیو علیحدہ سے ایک ثبوت ہے جبکہ افغانستان میں بھارتی قونصل خانے اور پھر را و افغان انٹیلی جنس ایجنسی کا باہمی اشتراک، پاکستان میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فسادات کا سبب بنتا ہے۔یہ اشتراک پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادت کی اگرچہ کلی وجہ نہیں مگر پہلے سے موجود آگ کو پیٹرول یہی سے ملتا ہے۔کشمیر میں بھارتی مظالم پر، پردہ داری کے لیے بھارت کبھی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کبھی کسی اور طریقے سے دنیا کی توجہ اپنے ان مظالم سے ہٹانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔بھارت چاہتا کیا ہے؟ وہی جو امریکہ چاہتا ہے۔
خطے میں امریکی مفادات کا ایسا نگہبان جو اسرائیلی اشتراک سے خطے کو کنٹرول کرے۔سی پیک اور خطے میں جاری دہشت گردانہ سرگرمیوں نے البتہ نئے اتحاد و بلاک تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ دہشت گردوں اور ان کی سب سے درندہ صفت تنظیم داعش کے خلاف ہر عدل پسند اورانسان دوست سینہ سپر ہے۔داعش کی خلافت کا تصور چور چور ہو رہا ہے اور وہ بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے رہی ہے۔اس پہ کسی اور نشست میں بات کریں گے کہ اگر افغانستان میں داعش جڑیں پکڑتی ہے تو خطے کی ہیئت اور سماجی رویوں پر اس کےکیا اثرات ہوں گے اور بالخصوص پاکستانی معاشرہ اس سے کتنا اور کس قدر متاثر ہو گا۔
ہم جب خطے میں آنے والی عسکری و معاشی تبدیلیوں پر بات کرتے ہیں تو ہمیں ٹرمپ کے دورہ ریاض و اسرائیل اور مودی کے دورہ امریکہ کو بھی ملا کر دیکھنا چاہیے، تب جا کر تصویر کسی قدر واضح ہو پاتی ہے۔ٹرمپ نے ریاض آ کر اسلحہ بیچا،سعودی عرب کی سربراہی میں قطر کاسفارتی محاصرہ کرا کے قطر کو علیحدہ سے اسلحہ بیچنے کی ڈیل کر لی ،جبکہ مودی نے امریکہ جا کر اسلحہ خریدا۔سوال یہ ہے کہ جب یہ اسلحہ فروخت ہو جائے گا ،تو کیا اسلحے کےخریدار اس کا اچار ڈالیں گے؟بلین ڈالرز کے اسلحے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کیا اسلحہ اور باہمی تجارت سے حاصل ہونے والے نفع کا کچھ حصہ خطے میں سر گرم دہشت گرد تنظیم میں تو تقسیم نہیں کیا جائے گا؟خیال رہے کہ خبروں کے مطابق “بھارت نے امریکا سے اپنی سمندری حدود کی نگرانی کے لیے MQ-9B نامی 22 ڈرون طیارے خریدنے کی درخواست کی تھی جس کی لاگت 2 ارب ڈالر ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے ڈرون بنانے والی کمپنی کو بھارت کے ساتھ جاسوسی کے لیے بغیر پائلٹ چلنے والے طیاروں کی فروخت کے معاہدے کی اجازت دے دی۔ڈرون بنانے والی کمپنی جنرل اٹامکس ایئروناٹیکل سسٹم کے سی ای او لنڈن بلیو نے ایک بیان میں بھارت کو ڈرون طیاروں کی فروخت کی امریکی حکومت کی منظوری کو خوش آئند قرار دیا۔”
ٹرمپ مودی ملاقات میں خرید و فروخت کے معاہدوں کے بعد دونوں ممالک نے مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے دے۔پاکستان نے بے شک اس بیان کو مسترد کر دیا اور ایسا کرنا بھی چاہیے۔کیا پاکستان وہ ملک نہیں جو عشروں سے خود دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے۔کیا پاکستان کے خلاف افغانستان کی سر زمین بھارتی مدد سے استعمال نہیں ہو رہی؟کیا بھارت اپنی پوری ریاستی طاقت نہتے کشمیریوں کے خلاف استعمال نہیں کر رہا۔ٹرمپ بھی اپنی طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے بے اعتبار آدمی ہے۔ ایسا بے اعتبار کہ جس پہ امریکی کانگریس بھی اعتبار کرنے کوتیار نہیں۔ایک تازہ سروے میں اسے متکبر اور انا پسند کہا گیا ہے۔دونوں ایک سے ہیں۔دونوں کے ذہنی رحجان عالمِ انسانیت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔مودی ٹرمپ ملاقات خطے میں داعشی مفادات کے حوالے سے بھی بڑی اہم ہے جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔پاکستان،چین،ایران اور روس کو باہمی اشتراک سے خطے میں امریکہ و بھارت کے منفی مفادات کو روکنا ہو گا اور معاشی و عسکری تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنا ہو گی۔بے شک دو قتل پسندوں کی ملاقات انسانی سماج کے لیے خطرہ تو ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply