بے نظیر بھٹو کی دو بار جلاوطنی( 3)۔۔عامر حسینی

محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کا ایک پہلو یہ تھا کہ انھوں نے میدان سیاست میں عوامی طاقت اور عوامی ووٹ بینک رکھنے والی کسی بھی سیاسی جماعت اور سیاسی شخصیت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا چاہے اُس کے عوام میں ووٹ بینک کا حجم پی پی پی کے مقابلے میں کتنا ہی کم کیوں نہ تھا- شہید بی بی نے جس طرح سے ایم آر ڈی کی تشکیل (جس کا پہلا کریڈٹ بیگم نصرت بھٹو کو جاتا ہے) میں پی پی پی سے نفرت کی حد تک دوری پہ کھڑے سیاسی کرداروں کو ملک میں جمہوریت کی بحالی اور سویلین بالادستی کے لیے تحریک کا حصہ بننے پہ آمادہ کیا اور جنرل ضیاء الحق کو ایک بڑے اینٹی بھٹو سیاسی حلقے کو الگ کیا یہ ان کی بالغ نظر سیاست کا کارنامہ تھا-
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1990ء میں اپوزیشن میں بیٹھ کر سنجیدگی سے کوشش کی کہ وہ کسی طرح سے نواز شریف کو جمہوری سیاست کے راستے کی طرف لاسکیں اور یہ کوشش انھوں نے 1997ء میں بدترین دھاندلی اور شہید بی بی کے بھائی کی لاش پہ کھڑی ہونے والی نواز شریف کی جعلی دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت آجانے کے بعد بھی کی – قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف منتخب ہوجانے کے بعد اُن کی تقریر ملاحظہ کیجیے اور جب نواز شریف پوری ریاستی مشینری کے ساتھ پوری طاقت لگاکر نہ صرف پی پی پی کو کچلنے کی کوشش کررہا تھا بلکہ وہ پنجاب میں اپنے دیگر سیاسی حریف جن می‍ں اُس وقت پاکستان عوامی تحریک، چھٹہ لیگ اور نووارد پی ٹی آئی بھی شامل تھی کو ہر صورت کرش کرنے کی کوشش میں تھا تب بھی شہید بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ مخالف سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کا احترام کرنا سیکھ لے، پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کے لیے سیاسی میدان ختم کرنے کی کوششیں ترک کردے، اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی قیادت کے خلاف کینگرو کورٹس کا استعمال ترک کرے- اور دیگر جمہوری طاقتوں کے ساتھ مل کر ملک میں بے وردی نوکر شاہی، طالع آزما پی سی او ججز اور غیر منتخب اداروں کی سیاسی عمل میں مداخلت کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرے – شہید بی بی نے اُس زمانے میں قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کی چیئرپرسن کا عہدہ سنبھالنے پہ آمادگی ظاہر کردی تھی – لیکن 1985ء سے 1997ء تک پنجاب میں مستقل اور وفاق میں دو مرتبہ رہ کر نواز شریف نے ریاستی اداروں اور پھر ریاست کے چوتھے غیر رسمی ستون کے اندر جو اپنی “ہئیت مقتدرہ” (اسٹبلشمنٹ کے اندر اسٹبلشمنٹ) قائم کرلی تھی اُس طاقت کا نشہ اتنا زیادہ تھا کہ نواز شریف نے انتقام اور بربادی کے راستے پہ سفر جاری رکھا-
نواز شریف جمہوریت اور جمہوری اداروں کو طاقتور بناکر اسٹبلشمنٹ کی سیاسی عمل میں مداخلت کو ختم کرنے کی بجائے اس مداخلت کے کنٹرول کی مکمل چابی اپنے پاس رکھنے کے جنون میں مبتلا ہوا- اس نے اب صرف عدالت میں، بے وردی نوکر شاہی میں اور مسلح افواج میں اپنے چند پاکٹس بنانے کی بجائے سارے کے سارے اداروں کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی، اپنے زاتی مفادات کے مطابق بنانے کی کوشش کی – اور جو عدالت، فوج، سویلین بیوروکریسی میں اس کے ذاتی غلام بن چکے تھے اور اس کی ھئیت حاکمہ کا حصہ تھے انھیں ان اداروں میں فیصلہ کن عہدے دینے کی کوشش ہوئی – نواز شریف نے عدلیہ پہ شب خون مارا- نواز شریف کے غلام ججز عدالتی اسٹبلشمنٹ میں نواز شریف کے کنٹرول سے باہر ججز پہ پل پڑے اور ایک طرح سے عدالتیں زیر کرلی گئیں – بے وردی نوکر شاہی پہ بھی مکمل تسلط کرلیا گیا اور ایسے ہی پریس بھی قریب قریب یا تو خرید لیا گیا تھا یا اُس کا رگڑا نکال دیا گیا(جنگ گروپ کی حالت بہت پتلی تھی) نواز شریف اس وقت مکمل برائی کا نمونہ بن چُکا تھا- اُس نے ملک، قوم، جمہوری قوتوں کے اجتماعی مفاد کی زرا پرواہ نہ کی – پی پی پی کی قیادت کے خلاف اُس کے زیرکنٹرول سرکاری ٹی وی و ریڈیو، خبر رساں ایجنسیاں اور پھر اخباری مالکان، صحافتی اسٹبلشمنٹ کے اکثر کل پرزے خرید لیے گئے تھے وہ سب رات دن پی پی پی کی قیادت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کررہے تھے – سب سے بڑا ہدف بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری تھے –
1996ء کے وسط میں صدر پاکستان فاروق لغاری، اپوزیشن لیڈر میاں محمد نواز شریف، اُس وقت فوج اور آئی ایس آئی میں بیٹھے ضیاء الحقی جرنیل اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے باہمی گٹھ جوڑ کیا – اور بقول نصیر اللہ بابر آئی ایس آئی کے ضیاء الحقی افسران نے میر مرتضٰی بھٹو کے قتل کی سازش کی، کراچی میں ایم کیو ایم کے اندر سے ڈیتھ اسکواڈ کو متحرک کیا اور اپنے اسٹیک ایم کیو ایم میں بچانے کے لیے لسانی فسادات کی سازش کی – ہانکا لگاکر ایک طرف بے نظیر بھٹو کی حکومت کو توڑا گیا تو دوسری طرف مرتضیٰ بھٹو کے قتل کو بی بی شہید اور آصف زرداری پہ تھونپ کر پی پی پی کی سیاسی موت کا ایک بار پھر سامان کرنے کی کوشش ہوئی –
بے نظیر بھٹو 1998ء میں جلاوطن ہونے پہ مجبور ہوگئیں –
نواز شریف نے 1997ء سے 1998ء کے دوران پی پی پی کے سب ہی قابل زکر رہنماؤں پہ مقدمات کی بھرمار کردی – اور نواز شریف کے اسٹبلشمنٹ سیٹ ایپ میں موجود ہر کردار آصف زرداری کے نام پہ بے نظیر بھٹو کو بلیک میل کرنا چاہتا تھا لیکن جب بے نظیر بھٹونے جھکنے سے انکار کیا تو نواز شریف اینڈ کمپنی نے رانا مقبول آئی جی سندھ کو زرداری کو جھکانے کا ٹاسک سونپا- رانا مقبول نے بے نظیر بھٹو کے سیاسی کریئر کو ایک جھٹکے سے ختم کردینے کا ایک منصوبہ نواز شریف کے سامنے رکھا جس کی منظوری دے دی گئی – آصف زرداری پہ جیل میں دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ وہ شہید بی بی کو طلاق دے دیں، اُن کے کردار پہ انگلی اٹھائیں، لالچ دی گئی جب لالچ سے کام نہ چلا تو بدترین تشدد ہوا – مگر وہ حربہ بھی ناکام ہوگیا –
نواز شریف کا نشانہ جب تک پی پی پی اور دیگر سیاسی مخالفین تھے تو پاکستان کی نواز شریف کے کنٹرول سے باہر اسٹبلشمنٹ کے طاقتور دھڑے نہ صرف خاموش رہے بلکہ پی پی پی کے خلاف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے – اُن کی اس روش سے نواز شریف کا حوصلہ بڑھا –
اس دوران پاکستان کی سول سوسائٹی کے بڑے اشراف نام اور اردو پرنٹ میڈیا کے بڑے رپورٹر، تجزیہ کار اور کالم نگار پی پی پی کی قیادت بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف جھوٹی کہانیاں پھیلانے میں مصروف رہے – ان کی بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے نفرت چُھپائے نہ چھپتی تھی – یہاں تک کہ جنگ میڈیا گروپ جو نواز شریف کے زیر عتاب تھا وہ اس کے باوجود مسلسل شہید بی بی اور آصف زرداری کی کردار کشی کررہا تھا- ڈان میڈیا گروپ کا رویہ بھی مکمل طور پہ معاندانہ تھا – اس اخبار کے ادارتی پیج پہ بھٹوز سے نفرت میں اندھے مضمون نگار چھائے ہوئے تھے جیسے اردشیر کاؤس جی، سرل المیڈا، ندیم فاروق پراچہ، طارق علی، اس زمانے میں اردو اخبارات کے ادارتی صفحات پہ جگ مگ کرنے والے نام نہاد نامور کالم نگاروں میں جن کا دعوی باغی ہونے کا تھا وہ بھی آصف زرداری کو نشانہ بنایے ہویے تھے –
پنجاب سمیت پاکستان کے شہروں کا درمیانے طبقے کی ایک پوری نسل انہی اخبارات کی سرخیاں، تجزیے، کالم پڑھ کر جوان ہوئی اور اُن کا سیاسی شعور بھی اسی سے بنا-
اُس زمانے میں جو دانشور، سیاسیات کا ماہر، سیاسی رپورٹر، سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نگار بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کا دفاع کرتا اُس کو لوگ عجوبہ خیال کرتے اور عجیب نظرو‍ں سے دیکھنے لگتے تھے_ پنجاب سمیت پاکستان کے اربن مراکز میں نواز شریف اسٹبلشمنٹ نے کچھ اس طرح سے میڈیا منیجمنٹ کی تھی کہ ٹیبل اسٹوریز کو سچ بناکر پیش کیا جاتا – زرداری و بے نظیر کا سرے محل، اسلام آباد میں زرداری کا گولف کلب، گھوڑوں کا مربعے کھانا، اربوں روپے سے بھرے سوٹ کیس، سوئس اکاؤنٹس، ککس بیکس، کمیشن یہ ساری کہانیاں اُس دور میں اپنی راہ عمل طے کرنے والے نوجوان کے شعور اور حافظے پہ مسلط کردی گئیں –
نواز اسٹبلشمنٹ نے جب یہ سمجھ لیا کہ پی پی پی کا محاز سر ہوچکا تو اس نے عدلیہ کو فتح کرنے کی ٹھانی اور اس کے بعد اس نے فوج کے ادارے کو مکمل سر کرنے کی طرف قدم اٹھایا-
نواز شریف نے عالمی برادری میں اپنا امیج بنانے کے لیے ایک طرف تو امریکہ کو رام کرنے کے لیے بھارت سے امن پروسس کے نام پہ اقدامات اٹھانے کی کوشش کی – اور امریکی کیمپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ جنوبی ایشیا میں اس کے مقاصد اور مفادات کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے اور بدلے میں نواز شریف فوجی جرنیلوں کو اپنے تابع رکھنے کے منصوبے کی پشت پناہی چاہتا تھا- اس منصوبے کے راستے میں روکاؤٹ ڈالنے والے فاروق لغاری کو صدر اور سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹادیا گیا- نواز شریف کو اس راستے سے چلنے سے روکنے کی کوشش کرنے والوں میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت کو 7 اکتوبر 1998ء کو مستعفی ہونے پہ مجبور کردیا گیا-
جنرل جہانگیر کے بعد نواز شریف جنرل مشرف کو لائے – اور جب مشرف نے بجائے نواز شریف اسٹبلشمنٹ کا حصہ بننے کی بجائے فوجی اسٹبلشمنٹ کے اپنے مفادات کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی اور نواز اسٹبلشمنٹ کو ایک بار پھر ری کنسائل کرنے کو کہا، حدود متعین کرنے کو کہا- اس سے اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ فوجی اسٹبلشمنٹ کو اندازہ تھا کہ نظام کے کتنے اندر تک نواز اسٹبلشمنٹ سرایت کرچکی ہے اور کھلے تصادم سے کافی نقصان ہوگا- لیکن نواز شریف نے اپنی طاقت سے جنرل مشرف اور اُس کے حامی جرنیلوں سے لڑنے کا فیصلہ کیا- اُس نے جنرل مشرف کو برطرف کرنے کی کوشش کی اور نتیجہ اپنے خلاف مارشل لاء کی صورت میں دیکھ لیا-
محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز حکومت کی برطرفی پہ امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو جو موقف دیا وہ یہی تھا کہ نواز شریف نے فوجی ادارے کو بلڈوز کرنے کی کوشش کی جس کے ردعمل میں فوج آئی ہے –
بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف پہ واضح کیا کہ انہوں نے فوج کے ادارے کے سربراہ کے طور پہ نواز شریف کی امیرالمومنین مطلق العنان بننے کی کوشش کا جو ردعمل دیا وہ اب ایک نمائندہ نگران عبوری حکومت بنائے جو ملک میں عام انتخابات کرائے اور ملک میں صاف شفاف انتخابات ہوں اور ملک کی باگ دوڑ عوام کی نمائندہ حکومت کے ہاتھ میں آجائے –
یہ بہت آسان راستا تھا فوج کے لیے بطور ادارہ لیکن مشرف نے اپنے آپ کو فوج کا سربراہ کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے سربراہ کی حثیت سے دیکھا – اور اپنے اقتدار کو طول دینے کا فیصلہ کرلیا-

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply