وزیراعظم صاحب : کاش ہمارا پاراچنار آپ کے حلقہ کا ہوتا

محزون اور چٹیلا پارا چنار۔
پارہ چنار کے رہنے والے ایک بھائی ریاض علی طوری ڈان نیوز میں اپنی بربادی کی فریاد کر رہے ہیں۔۔ کہتے ہیں” پورا ملک چاند رات کی خوشیاں منا رہا تھا، میرا موبائل فون عید مبارک کے پیغامات سے بھرا ہوا تھا، مگر میں محزون اور متوحش تھا، میں افسردگی سے صرف ان بے گناہ لوگوں کا سوچ رہا تھا، جنہوں نے ستائیس رمضان کی صبح کو خود کُش دھماکے میں اپنی جانیں کھو دیں، بچوں اور عورتوں کا سوچ رہا تھا جو اپنے باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر سے محروم ہو گئے، اس دھماکے سے ستر سے زیادہ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے،آج میں اپنے ہی ملک میں اجنبی محسوس کر رہا ہوں کہ کسی نے بھی ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش نہیں کی، میڈیا نے کوئی توجہ نہیں دی، حکومت ہمیں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں سمجھتی، اپنوں کی اس بے رُخی نے مجھے بم دھماکے سے زیادہ دکھی کیا ہے”۔

ستائیس رمضان کی صبح جب سارا پارا چنار سکون سے تھا۔ سب لوگ اپنی اپنی عید کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ ایک خود کش دھماکہ ہوتا ہے اور جن کے گھروں میں روشنی تھی، خوشی تھی، وہ اندھیروں اور غموں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ایک عینی گواہ نے دکھی دل کے ساتھ بتایا،”میری ماں کو جب پتہ چلا کہ اس کا جوان بھائی، جس کی شادی کچھ ماہ پہلے ہوئی تھی، وہ ان کے ایک کزن سمیت اب اس دنیا میں نہیں ہے، حتیٰ کہ ان دونوں کا آخری دیدار بھی نہیں ہو سکتا کہ ان کے جسموں کے ہزاروں ٹکڑے ہو چکے ہیں۔ خبر سن کر جو وہ اپنے گھٹنوں کے بل پر گری تو آج تک چارپائی سے اُٹھ نہیں سکی”۔ طوری صاحب نے لکھا کہ ایک پریشان حال کزن سے ملاقات ہوئی جس کا واحد سہارا اس کا بڑا بھائی تھا، مگر اب اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ ایک دل شکستہ ماں کو دیکھا، جو اپنے واحد بارہ سال کے بیٹے کی قبر کے ساتھ لپٹ کر ہزیان کی حالت میں روئے جا رہی تھی، کہے جا رہی تھی۔ ۔ اے بیٹا آرام سے سونا، تمہاری ماں ہے نا، تمہارے زخموں پر مرہم رکھنے والی۔ متاثرین میں سے ایک اور نے روتے ہوئے بتایا،”جب میں دھماکے والی جگہ پر پہنچا تو وہاں پر ہر جگہ تباہی مچی تھی۔ میرے چاروں طرف گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے، جو ہمارے پیاروں کے جسموں کے تھے “۔

پارہ چنار کے ساکن اپنے ملک پاکستان کے باسیوں سے یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہمیں کیوں اس طرح تنہا چھوڑ دیا گیا؟ پنجاب میں چیونٹی بھی مرتی ہے تو سارا میڈیا آسمان سر پہ اُٹھا لیتا ہے، مگر ادھر بے گناہ لوگ دھماکوں میں مر گئے اور کسی نے ذرا سی توجہ بھی نہیں دی۔ کیا آج سے ہم پارا چنار والے اپنے آپ کو یتیم سمجھیں؟ کیا ہم اس ملک پاکستان کے شہری نہیں؟ ۔ٹی وی چینل والے رات دن ناچ گانے اور خوشیوں کے پروگرام نشر کر رہے ہیں اور ہمارے لیے دو منٹ نہیں جس میں ہمدردی کے کچھ الفاظ بول لیے جائیں؟ ۔ہمارے لوگ گزشتہ کئی روز سے اس ظلم کے خلاف دھرنہ دیے بیٹھے ہیں مگر کسی ٹی وی چینل، حکومتی ادارے، سیاسی لیڈر یا عام پاکستانی نے آ کر ہمارے سروں پر ہاتھ نہیں رکھا، آ کر کم از کم تسلی ہی دے دو چاہیے جھوٹی ہی سہی۔

طوری صاحب مزید لکھتے ہیں کہ میں یہ بات بہت دُکھی دل سے محسوس کر رہا ہوں کہ ہمیں نظر انداز کرنے کی وجہ صرف ہمارا مکتبہ فکر، قومیت اور علاقہ ہے۔ اگر تو ہم تختِ لاہور کی علمداری میں ہوتے تو شاید ہمارا زخمی جانور بھی اس وقت حکومت اور میڈیا پر ہویدا ہو چکا ہوتا مگر ہماری حیثیت تو شاید لاہور کے کسی جانور جتنی بھی نہیں ہے۔ پنجاب کے ایک شہر والوں کے کچھ لوگ اپنی لالچی فطرت، چوری اور اپنی غلطی کی وجہ سے جل کر مر گئے۔ ان کو جھٹ سے شہید کہہ دیا گیا۔ لاکھوں کا انعام دے دیا گیا۔ میڈیا نے دو دو دن تک کوریج دی۔ سوشل میڈیا پھٹ پڑا۔ برن سنٹر، ہسپتال،ایمبولینس، سڑکیں، ڈاکٹر اور دوسری سہولیات کے ہوتے ہوئے بھی سارے لوگ برس پڑے کہ کچھ نہیں ہے وہاں۔

پارا چنار کے لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ ذرا آؤ اور ہمارا حال پوچھو، ہم نے کس طرح اپنے پیاروں کی لاشیں اور اپنے زخمی اُٹھائے۔ ہمارے پاس تو صرف بجری لے جانے والی ہاتھ گاڑیاں تھیں، جن پر ڈال ڈال کر ہم نے اپنی لاشوں اور زخمیوں کو صرف نام کے ایک سرکاری ہسپتال تک پہنچایا۔ اگر ہمارے پاس ایمبولینس ہوتیں، ہسپتال میں ڈاکٹر اور ضروری سہولیات ہوتیں تو شاید کتنے ہمارے پیاروں کی جانیں بچ جاتی مگر ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جن کو بنیادی سہولیات کے نام پر صرف جھنجھنا تھما دیا گیا ہے۔ بنیادی سہولیات تو ایک طرف، سکیورٹی کے بہانے کتنے مہینوں تک ہمیں باقی کی دنیا سے کاٹ دیا جاتا ہے، کہ ہم ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس جاتے ہیں۔ ہمارا مریض مر جاتاہے، مگر ہمیں بنوں، ڈیرہ یا پشاور کے کسی بڑے ہسپتال لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ملک کے وزیراعظم چند لالچی بندوں کے لیے اپنی تفریح، اپنی خوشی قربان کر کےفوراً ملک کو واپس آتے ہیں مگر پارا چنار کے بے گناہ جو ستائیس رمضان کو یکے بعد دیگرے دو خودکش حملوں میں شہید ہوئے ، اُن کے لیے اِن کے پاس دو حرف ہمدردی کے بھی نہیں تھے۔ ہم سوال پوچھتے ہیں کیوں؟ جواب بھی شاید ہمارے پاس ہی ہے کہ ہم ان کے حلقہ کے نہیں ہیں، ہم ان کو ووٹ نہیں دے سکتے، ہم ان کو وزیر اعظم نہیں بنوا سکتے۔
وزیراعظم صاحب ! کاش ہمارا پاراچنار آپ کے حلقہ کا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش!

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم شکر گزار ہیں جناب ریاض علی طوری کے، جن کی اجازت سے ان کے ڈان اخبار کے ایک مضمون کی مدد سے یہ تحریر مکمل کی۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply