جیل میں گرم ہوا نہ لگ جائے۔۔۔۔نذر حافی

انسان اداس ہے دوستو! انسانوں کو مختلف زاویوں سے تقسیم کیا جا سکتا ہے بلکہ کیا جاتا ہے۔ رنگ، مذہب، نسل، فرقے، زبان اور علاقے کے علاوہ سہولیات کے اعتبار سے بھی انسان تقسیم ہیں۔ یہ خبر آپ تک پہنچ چکی ہوگی کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں جیل جانے والے میاں نواز شریف کو خرابی طبیعت کے باعث اڈیالہ جیل سے پمز اسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکٹر مشہود، ڈاکٹر ذوالفقار غوری ،ڈاکٹر ملک نعیم اور ڈاکٹر اعجاز اختر اور ایک سٹاف نرس پر مشتمل ٹیم نے ہفتہ کو سینٹرل جیل اڈیالہ میں میاں نواز شریف کا طبی معائنہ کیا تھا اور تقریباً سوا گھنٹے تک جاری رہنے والے چیک اپ کے دوران ڈاکٹروں نے سابق وزیراعظم کی ای سی جی کی، ان کی شوگر چیک کی اور بعض ٹیسٹ کئے۔

کسی بھی قومی سطح کے مجرم کے ساتھ اس سے زیادہ محبت و شفقت کا مظاہرہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے، جہاں جیلوں میں موجود قید انسانوں کی تعداد اصل گنجائش سے 57 فیصد زائد ہے، اس زائد تعداد کی وجہ سے قیدی مختلف بیماریوں کا شکار ہیں اور انہیں بدن کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مناسب مقدار میں پانی تک نہیں ملتا۔ ڈاکٹر اور دوائی کی سہولت تو چھوڑیں انہیں سونے کے لئے جگہ تک میسر نہیں، اس کے علاوہ قیدیوں پر تشدد، کم عمر قیدیوں کو پیشہ ور مجرموں نیز بچوں کو منشیات کے عادی لوگوں کے ساتھ رکھنا، اسی طرح خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، لوڈشیڈنگ اور خوراک کی ناگفتہ بہ صورتحال اپنی جگہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 98 جیلیں ہیں۔ جیلوں میں 56 ہزار سے زائد قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ 78 ہزار 1 سو 60 قیدی جیلوں میں موجود ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے کوئی انسانی یا جمہوری حقوق نہیں ہیں، ان پر لکھنے یا بولنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں، کوئی انسانی حقوق کی تنظیم نہیں، جو انہیں پینے کے پانی کی سہولت کے لئے ہی آواز اٹھا دے، جو رکے ہوئے مقدمات اور منجمد فائلوں کو کھلوا دے، جو سالوں سے محبوس انسانوں کے مقدمات کی پیروی کرے۔ ان جیلوں میں بہت سارے جھوٹے مقدمات میں پھنے ہوئے ہیں اور بہت سے اتفاقی حادثات کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اس صدی کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے اس جمہوری دور میں بھی باہر کی آزاد فضا کی شکایتیں اپنی جگہ، لیکن جیلوں میں بھی انسانوں کے ساتھ عادلانہ اور منصفانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔ جیلوں کی سہولیات پر بھی ایک خاص مافیا قابض ہے، جو ان سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے کارندوں کو جیلوں میں بھی گرم ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ سنا ہے کہ نیا پاکستان جنم لے چکا ہے، تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جیلوں کے اندر اور باہر بسنے والے انسانوں کے معیارِ زندگی پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ کسی جہاندیدہ دوست کا تجزیہ ہے کہ عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں، اگر اس کے پچاس فیصد پر بھی عمل ہو جائے تو اس سے بہت بڑی تبدیلی آجائے گی اور ہماری خواہش ہے کہ اس پچاس فی صد میں جیلوں کی اصلاحات بھی اگر شامل ہو جائیں تو یہ آج کے دور کے انسان کا بنی نوعِ انسان پر بہت بڑا احسان ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply