لاشوں کے خریدار

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟ زندہ قومیں ہی حقیقتوں کو تسلیم کرتی ہیں ورنہ آئیں بائیں شائیں تو جنگل کے جانور بھی کرنا جانتے ہیں ۔ ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں ایسے سانحات رو نما ہوتے ہیں کہ عید کی خوشی بھی غم اور افسردگی میں بدل جاتی ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ انڈیا سے میچ جیتنے کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے ملک بھر میں درجنوں لوگ زخمی اور دو معصوم بچے اس خوشی کی بھینٹ چڑھ گے۔ یا تو ہمیں خوشیاں راس نہیں یا ہم خوشی کو مہذب طریقے سے منانے کا شعور نہیں رکھتے ۔
ایسا ہی ایک دلسوز واقعہ احمد پور شرقیہ میں بھی عین عید سے پہلے پیش آگیا۔ اگر آپ کی دانشوری ان غریب لاشوں سے اظہار ہمدردی کے چند بول نہیں بول سکتی تو اِن کو چور یا لالچی کہہ کر ان لاشوں اور لواحقین کے زخموں پر خدارا نمک بھی مت چھڑکیں۔چلو یہ تو پسماندہ علاقے کے اَن پڑھ غریب لوگ تھے لیکن جو سیاسی جلسوں یا ولیموں پر لاہور کراچی اسلام آباد کے پڑھے لکھے لوگوں کو روزانہ بریانی اور کھیر کے لیے ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑتے کرسیاں چلاتے دیکھتا ہوں وہ کیا ہے؟ یہ ماننے میں مجھے تو کوئی عار نہیں کہ اجتماعی طور پر ہمارا معاشرہ ایک قوم نہیں ریوڑ ہے۔ جس کے پیچھے ہمارے نظامِ تعلیم کی خامیاں، اکیسویں صدی میں بھی شرح خواندگی کا آئیڈیل پوزیشن پر نہ ہونا، بے روزگاری، حکومتی لیول پر عوامی سدھار کے پلیٹ فارم یا اقدامات کا صفر ہونا ہے۔
کوئی ڈگڈگی لے کے کھڑا ہو تو باندر دیکھنے کے لیے یہ ریوڑ اکٹھا ہو جاتا ہے۔ سانپ پٹاری سے کب باہر آتا ہے اس کے لیے دو دو گھنٹے ہم کھڑے رہتے ہیں ۔ کوئی چور ڈاکو بیچ چوراہے پکڑا جائے یہ ریوڑ بجائے اس کو قانون کے حوالے کرنے کے اینٹوں، گُھونسوں اور ڈنڈوں سے اسے مار دیتا ہے۔ اپنی انا کا بدلہ لینا ہو اپنی کوتاہی کو چھپانا ہو تو یہ ریوڑ ناموس رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر مشال خان کی جان لینے سے بھی باز نہیں آتا ۔ ایک ڈھول کی تھاپ پر یہ ریوڑ جوق در جوق اُمڈ آتا ہے۔ ایسی تماش بین طبیعت پائی ہے کہ بس تماشہ ہو صحیح اور ہم جا کر اپنے حصے کے ڈنڈے مار سکیں ۔
احمد پور شرقیہ میں بھی اس دردناک سانحہ اور لوگوں کے اکٹھ کو بچایا جا سکتا تھا روکا جا سکتا تھا ۔ ٹینکر الٹ گیا، تو انتظامیہ بمع پیٹرولنگ پولیس اور موٹر وے پولیس (کےایل پی روڈ اب اسی کے ذمہ ہے) کہاں تھی؟ متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او، پولیس اور پنڈ کا نمبردار کدھر تھا؟ اور لوگوں کو وہاں جمع ہونے سے روکا کیوں نہ گیا؟ جو اتنے بڑے سانحے کا سبب بنا۔ ایسے حادثے کے ایس او پیز ہوتے ہیں۔ اس طرح کے کسی واقعے میں سب سے پہلے سڑک بند کی جاتی ہے، وہ کیوں نہ کی گی؟ خطرے کی جگہ کے قریب کسی کو نہیں جانے دیا جاتا، ملحقہ علاقے کو کلیئر کیا جاتا ہے، تو لوگ ٹینکر کے پاس کیوں گے کیوں جانے دیا گیا؟ اس کے بعد رسک کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس حساب سے ایک دو لینز ٹریفک کے لیے کھولی جاتی ہیں۔ ہجوم اگر جمع ہو جائے تو اس کو منتشر کیا جاتا ہے۔ وہاں ایسا کیوں نہ کیا گیا؟ جب کے گھنٹوں آئل ٹینکر ایسے ہی پڑا رہا؟
یہ جو 144 جانیں گی 200 سے زیادہ خاندان برباد ہوگئے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا وہ غریب لوگ جو لقمہ ازل بنے یا وہ ادارے جن کا اوپر ذکر ہوا؟ کیا کسی مہذب ملک میں یہ ممکن تھا کہ اتنے بڑے سانحہ اور غفلت کی حکومت یا کوئی ادارہ زمہ داری نہ لے؟ حکومت کے بقول تو ایسی ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے کہ ملک ترقی کی طرف گامزن ہے اور وطنِ عزیز میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ"کوئی بھوکا اگر روٹی چوری کرتا پکڑا جائے تو ہاتھ اسکے نہیں، حاکم کے کاٹے جائیں ۔" لیکن ہمارے ہاں حاکم مرنے کے بعد لاشیں خریدتے ہیں ۔ جس میں ہر حادثے کے بعد پاکستانی شہری کی جان کی قیمت بیس پچیس لاکھ روپے لگائی جاتی ہے جے لت باں ٹٹ گئی اے یا کھنہ کھلیا تے فیر صرف پانچ دس لاکھ روپے (خصوصی پیکج )
-وزیرِاعظم کی ڈیوٹی اظہارِ افسوس اور رپوٹ طلب ۔
-وزیرِاعلیٰ کی ڈیوٹی جائے حادثہ پر پہنچ کے فوٹو سیشن اور ایک جملہ آپ فکر نہ کریں۔
-اپوزیشن کی ڈیوٹی منافقت سے بھرے مذمتی اور لاشوں پر بھی پوائنٹ سکورنگ بیانات ( بشمول آل اپوزیشن )۔
-مذہبی اور کاروباری ملا ازم کی ڈیوٹی اس بات کا پوری منافقت سے تعین کرنا کہ مرنے والا شہید ہے یا وہ درندہ جو یہ کھیل کھیل رہا ہے –عوام کی ڈیوٹی انہی گندی مچھلیوں کے 70 سالہ جھوٹے وعدوں اور منافقت پر اندھی تقلید اور یقین کر کے پھر انکو اقتدار سونپنا کہ آو ہم پھر سے 20 لاکھ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ کسی بھائی ' کسی پٹواری, کسی انصافی ٹھیکیدار ' کسی فیس بکی مولوی یا جسکا بھٹو ابھی بھی زندہ ہو کو نہ سمجھ آئی ہو تو وہ پوگو دیکھے یا 20 لاکھ کا چیک کیش کروا لے بشرطیکہ بعد میں جعلی نہ نکلے.

Facebook Comments

رانا ازی
رانا محمد افضل بھلوال سرگودہا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply