بوسہ لینے میں احتیاط کیجئے۔۔۔اسد مفتی

سعودی عرب کے سینئر علما بورڈ کے رکن عبداللہ بن محمد المطلق نے کہا ہے کہ اگر عازمین حج کو یہ خدشہ ،ڈر یا خوف ہو کہ سنگ اسود کا بوسہ لینے سے “کورنا وائرس” کی وجہ سے شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے توایسے افراد سنگ اسود کا بوسہ لینے ست گریز کرسکتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ مناسک حج ملتوی نہیں کیے جاسکتے (کچھ علما معرفت کا خیال ہے کہ امسال چند اعمال ملتوی یا روک دیے جائیں )اور نہ ہی سنگ اسود کا بوسہ لینے سے عازمین کو روکا جاسکتا ہے ۔

اس سوال پر کہ عازمین یہ جانتے ہوئے کہ وہ علیل ہیں یا کسی وبا میں مبتلا ہیں یا کسی اچھوت بیماری کا شکار ہیں اور اس کے باوجود وہ سنگ اسود کا بوسہ لے رہ ےہیں تو اس سلسلہ میں آپ کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟

عبداللہ بن محمد المطلق نے کہا کہ عازمین کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنا مرض یا بیماری دوسروں   تک پھیلائیں ۔چونکہ مسلمان ایکدوسرے کے بھائی ہیں اس لیے ایک بھائی جو اپنے لیے بہترسمجھتا ہے  وہی وہ دوسرے کے لیے بھی بہتر سمجھتا ہے۔کوئی مسلمان یہ گوارہ نہیں کر ے گا کہ وہ اپنا مرض دوسروں تک پھیلائے،قبل ازیں سعودی حکام کی جانب سے عازمین حج کے لیے چند ہدایات جاری کی گئی ہیں ۔انہیں انتباہ کیاگیا کہ عازمین “مخالف جنس” سے با چیت نہ کریں ، مرد عازمین بسوں میں خواتین کے قریب نشست پر نہ بیٹھیں اور نہ ہی خواتین مردوں کے قریب بیٹھنے کی کوشش کریں   ۔

دوسری طرف سرکاری خبر رساں ایجنسی منا کے مطابق سعودی وزارت صحت نے بچوں ،حاملہ خواتین اور دائمی و دیرینہ امراض میں مبتلا یا سوائن فلو سے متاثرہ افراد کو حج اور عمرہ  ادا نہ کرنے کا انتباہ کیا ہے۔

مصر نے کورنا وائرس کے خطرہ کے پیش نظر اپنے شہریوں کو ہدایات کی ہیں کہ وہ مکہ اور مدینہ کا سفر احتیاط سے کریں ،سعودی عرب کے شہروں مکہ اور مدینہ میں 25 لاکھ عازمین کی آمد متوقع ہے۔اور سعودی حکام نے عازمین حج کو وارننگ دی ہے کہ انہیں دوران حج  سیاسی مسائل اٹھانےکی اجازت نہیں ہوگی اور اگر کسی نے احکام کی پابندی نہ کی تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔اس سال سعودی حکام حرمین پہنچنے والے مسلمان ایرانی راہنما کی باتوں سے حد درجہ مضطرب اور پریشان ہیں ۔انہوں نے عازمین کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ “بیت اللہ کا حج کرنے والے ان مسائل و مشکلات سے ہر گز لاتعلقی  و بے پروائی اختیار نہ کریں ۔۔جن مشکلات کا سامنا  آج عالم اسلام کو بالخصوص   عراق ،افغانستان،فلسطین اور پاکستان کے ایک حصے کو ہے”۔

ایرانی آیت اللہ کی بات ایرانیوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے ،ان کی حیثیت کسی صحافی یا جمعہ کے خطیب جینی نہیں ہوتی،کہ ان کی بات ایک کان سے سن کر دوسر ے کان سے اڑا دی جائے۔

ان باتوں پر ترکی کے وزیر اعظم یا سعودی وزیر خارججہ کی جانب سے جو احتجاج کیا گیا ہے ممکن ہے حکومت ایران اس کا یہ جواب دے کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے ،لیکن میرے حساب سے وہ اسی مظاہرے اور احتجاج کا سبق پڑھا رہے تھے۔جس نے 80  کی دہائی میں اسلام کے ایک رکن حج کو  گدلا کردیا تھا اور دنیائے اسلام کو پریشانیوں میں ڈال دیا تھا،

حج کے موقع  پر صرف ایک یہی پریشانی نہیں عازمین حج کے اخراجات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ۔عازمین حج کے فضائی کرایوں میں پہلے ہی اضافہ ہوچکا ہے ،اب حرم کے اطراف گرین ایریا میں شیلٹرز کی شرح 2700 سعودی ریال سے بڑھا کر 3800 ریال کردی گئی ہے ۔دوسری رہائشی پٹی میں جسے وائٹ ایریا کہا جاتا ہے رہائش فیس 1600 ریال سے بڑھا کر 2000 ریال کردی گئی ہے۔اسی طرح بیرونی احاطہ میں رہائشی فیس 1200 سے بڑھا کر 1800 ریال کردی گئی ہے ،چونکہ فضائی کرائےکے زمرے میں پٹرول کو جواز بنایا گیا   ہے ، اس لیے پٹرول کے ساتھ حج بھی مہنگا ہوگیا ہے ۔

اب حج کی بات چلی ہے تو کیوں نہ اپنے ذہنی خدشات ،سوالات اور تحفظات کی بات بھی کرتا چلوں ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن پاک اور اسلامی تعلیمات کو دیانتدارانہ طور پر ہم تک پہنچائیں ،کیا وہ اپنے اس فرض کو ادا کرنے میں دیانت دار رہتے ہیں ؟ یا انہوں نے خود کو “دینی و مذہبی حکمران ”  سمجھ کر مسلمانوں کو چرب زبانی کی لاٹھی سے پیٹ پیٹ کر “سیدھا” کرنے کی قسم کھا لی ہے ؟ وہ صرف اسلام اسلام کے ورق کوٹنے پر لگے ہوئے ہیں اور صحیح جواب دینے سے گریز کرتے ہیں ۔وہ مذہب یا دین سے  متعلق کسی سوال کا تشفی و تسلی بخش جواب دے سکیں ۔

میرے ساتھ خود ایسا واقعہ پیش آیا تھا۔۔۔ میں نے ایمسٹر ڈیم میں مولانا طاہر القادری کو ایک اجتماع میں ایک تحریری سوال نامہ پیش کیا جو ان کے نائبین نے وصول کرکے مولانا کی خدمت میں پیش  کیا ۔

میرا پہلا سوال تھا کہ “حج بدل کا حکم قرآن کریم کی کس آیت میں ہے؟

دوسراسوال تھا کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر جو قربانی مسلمان کرتے ہیں کیا مقامِ حج کے دوران یہ مسلمانوں پر فرض ہے؟ اگر یہ فرض ہے تو اس کا حکم غیر مقام حج کے لیے قرآن کی کس آیت سےثابت ہے ۔

حج بدل کا کوئی حکم میری نظر سے نہیں گزرا ۔یہ سلسلہ کیسے قائم ہوا ،اور کس نے ایجاد کیا اس پر میں یہاں بحث نہیں کروں گا ۔صرف اتنا ہی عرض کروں گا کہ مرنے کے بعد انسان کا عمل سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے  اور اس کی کتاب عمل بند کردی جاتی ہے،اور قرآن کریم کا صاف اعلان ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی دوسرا نہیں اٹھائے گا ۔کیا کوئی مفتی یا کوئی واعظ و شیخ تاریخ سے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ کسی صحابہ نے حج بدل کیا ہو؟ یا حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں مسلمانوں میں حج بدل کا رجحان قائم ہو؟ اسی طرح غیر مقام حج ٌر جانوروں کی قربانی کیسے واجب ہے؟ میں نے اس سلسلہ میں قرآن کریم کا  مطالعہ کیا ہے،مجھے اللہ کی بات میں کوئی حوالہ نہیں ملا ،پھر میں نے رسول ﷺ کی مقدس سوانح حیات کا مطالعہ کیا ،میں نے کہیں یہ نہیں پایا کہ آپ ﷺ   نے ان ایام میں جب آپ نے حج ادا نہیں کیا مکہ معظمہ یا مدینہ میں قربانی کا فریضہ ادا کیا ہو۔

میں مانتا ہوں کہ دین کے معاملے میں ،میں ایک طالب علم ہوں یا دین کے معاملہ میں نابینا رہاہوں ،ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم میں وہ آیات مجھے نظر نہ آئی ہوں ،جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ قربانی دنیا کے ہر اہل زر مسلمان پر واجب ہے ،قربانی سے متعلق قرآن مین سورۃ بقرہ کی آیت 196،سوری الحج کی آیت 28 34، اور 37 ،36 ہے، جو حج سے ہی وابستہ ہے،لیکن ان میں کہیں بھی کوئی ایسی بات درج نہیں جس سے میری تشفی ہوسکے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہے کوئی دانشور علماو مشائخ جو میری اس تشنگی کو قرآنی آیات کے حوالے سےسمجھا سکے ۔۔؟

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply