اے رمضان تو ابھی نا جا

ماہ مبارک رمضان خداوند متعال کی بے پناہ رحمتوں برکتوں اور عنائیتوں کا مہینہ ہے۔یہ وہ جس میں سانس لینا بھی عبادت گردانی جاتی ہے۔ماہ مبارک کے سینکڑوں نام ہیں اور بلامبالغہ دسیوں نام تو مجھ طالب علم کو آتے ہیں۔
میں نے روایات میں پڑھا ہے کہ رجب کو حضرت علی (ع) کا مہینہ،شعبان کو جناب رسول اکرم (ص) کا مہینہ اور ماہ مبارک رمضان کا اللہ کا مہینہ یعنی شھراللہ کہا جاتا ہے
بارہ مہینوں میں یہ فضیلت صرف رمضان کو ہی حاصل ہے کہ یہ مبارک مہینہ ہےاور کسی مہینے کے ساتھ لفظ مبارک استعمال نہیں ہوتا ہے۔محرم حرام ہے،صفر مظفر ہے ، ربیع اور جمادی اول اور ثانی کےلاحقے لئے ہوئے ہیں،رجب مرجب ہے شعبان معظم ہے شوال مکرم ہےاور رمضان مبارک۔بس رمضان ہی بابرکت ہے رمضان ہی برکتوں والا ہے۔یہ عزت و تکریم رمضان کو ہی حاصل ہے
کہا جاتا ہے رمضان کاادہ رمض سے نکلا ہے جس کے معنی جلا دینے کے ہیں البتہ ایسا جلانا کہ جس میں دھواں اور راکھ نا ہو اس لیے انسان کہ گناہ جلا دئیے جاتے ہیں۔
رمضان واحد مہینہ ہے جس کا نام قرآن کریم میں آیا ہے اس مہینہ میں شب قدر ہے جس میں قرآن اترا ، نا صرف قرآن بلکہ تمام الہامی کتب اسی ماہ مبارک میں نازل ہوئیں
کہا جاتا ہے رمضان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اس لئے اس مہینے کا نام بھی احترام سے لیا جانا چاہئیے۔
اٹھائیس روزے گذر جانے کے بعد اچانک انتسویں روزے کی دوپہر کو میری زہنی رو بہہ نکلی اور میرا قلم چل پڑا اور یہ سطور وارد ہوئیں اس کی وجہ جانے کیا ہے؟
مگر جب ماہ مبارک آنے لگتا ہے تو مجھے یوں لگتا ہے کہ مر گئے، لٹ گئے، پتا نہیں کیا بنے گا روزوں میں،دن کیسے گذرے گا،تھکاوٹ ہو جائے گی.درد ہو گا۔کام ہو پائیں گے کہ نہیں۔پڑھا نہیں جائے گا۔کیسے اہتمام ہو گا۔
مگر جو دن ہوں ہی گنے ہوئے(ایام معدود) وہ کہاں رکتے ہیں؟ ایک دو تین چار اور دیکھتے انتیسویں روزے کی دوپہر آگئی اور صبح عید ہو گی کا نقارہ بھی بج چکا ہے۔
اور میں سوچ میں گرفتار ہوں کہ کیا میری عید ہو گی؟ عید تو اس کی ہے جس نے ان ساعتوں سے پورا پورا فیض کشید کیا ہے۔جس نے اس خدا کے اس مہمان مہینے کی قدر کی ہے جس نے اس کی ساعتوں کی برکتوں کو سمیٹا ہے۔اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ یا اللہ یہ رک جائے۔یہ دن پھیل جائے۔یہ مبارک گھڑیاں طویل ہو جائیں۔یہ خیر والی ساعتیں لمبی ہو جائیں۔یہ شام نا ڈھلے۔یہ رحمت کا موجیں مارتا سمندر یونہی موجزن رہے۔یہ جہنم سے نجات کے لمحے نا گذریں۔ اب دل مٹھی میں آتا ہے اور کہتا ہے اے پالنے والے میں تیری رحمت سے حصہ نا سمیٹ سکایں تجھ سے مغفرت طلب نا کر سکا
اے خالق و مالک اے میرے مونس حقیقی اب جہنم سے آزادی کی ان ساعتوں کو طول بخش دے اب مجھے آخری گھڑی آخری لمحے اور آخری ساعت سے صحیح معنوں میں مستفید فرما
مجھے اب اگر آخری وقت پر ان مبارک ساعتوں کی قدر ہوئی ہے تو کیا ہوا۔تو تو قادر مطلق ہے لامحدود ہے کن کا مالک ہےوقت سے ماورا ہےوقت کا بھی خالق ہے مجھے اپنی رحمت برکت مغفرت اور دوزخ سے نجات کا پروانہ اسی لمحے عنائیت فرما
اے مالک الملک تو مجھے بخش دے
اے اللہ مجھے شقی اور بد بخت نا رکھنا اے اللہ مجھے ماہ مبارک کی پاکیزہ ساعتوں کی بدولت خوش نصیب اور سعید لوگوں میں شمار فرما
یا اللہ ماہ مبارک کو طول فرما
اے رمضان تو ابھی نا جا۔۔۔۔۔

Facebook Comments

رضا بابا
پڑھنا بچپن کا شوق اور پڑھانا جوانی کا ۔اور اب تربیت اساتذہ کی ذمہ داری۔شعر گوئی و شعر خوانی کے شوق کا آغاز کا علم نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply