دھیرج مہاراج دھیرج

گذشتہ کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں ۔سوشل میڈیا پر لکھنے کے لیے ویب سائٹس کے قیام نے سونے پر سہاگہ والے محاورے کی عملی تفسیر پیش کر دی۔سنجیدہ فکر کے لوگ بہت دلجمعی سے سماجی موضوعات پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر مباحثے بھی ہو رہے ہیں ۔مکالمہ،دلیل اور منطق کے دریا بھی بہائے جا رہے ہیں ۔اور سماج کے تمام مکاتب فکر کو ہم آہنگ کرنے کے دعوئے بھی کیے جارہے ہیں ۔
اول اول جب ویب سائٹس سوشل میڈیا پر نمو دار ہوئیں تو بلند مانگ دعوے کیے گئے۔لوگ جو مین سٹریم میڈیا کی یکسانیت سنسنی خیزی اور ریٹنگ کے چکر میں کی جانے والی مضحکہ خیز حرکات سے تنگ تھے انہوں نے دل و جان سے ان ویب سائٹس کو پذیرائی بخشی ۔بلاشبہ ان کی بدولت نو آموز لکھاری بھی کثیر تعداد میں متعارف ہوئے۔ دن بدن لکھاری بھی بڑھ رہے ہیں ۔اور ویب سائٹس بھی کھمبیوں کی طرح اگتی جا رہیں ہیں ۔ایک ویب سائٹ جس کا دعوی ٰہے کہ ہم سب کو ساتھ لے کے چلیں گے۔آزادی فکر کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بنیں گے۔ہر چوتھے دن اپنی تازہ ترین ریٹنگ کا اعلان کرنا بھی اپنا فرض عین سمجھتی ہے۔مضامین کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہونے کا اعلان بھی فخریہ انداز سے کرنا بھی ان کا حق ہے ۔مگر جو جتنا بڑا ہو اس پر زمہ داری بھی بڑی عائد ہوتی ہے۔نجانے سماج کو سدھارنے والے خود کو سدھارنے کے لیے کب سنجیدہ ہوں گے۔
ویسے یہ بھی عجیب رویہ ہے ہمارے معاشرے کا کہ جس کے ہاتھوں میں کچھ کرنے کی طاقت آ جائے ۔وہ فوراً بندر کے ہاتھ استرا، والے محاورے کو سچ ثابت کرنے میں پوری توانائی لگا دیتا ہے۔آزادی اظہار رائے کا مطلب ہر گز تحقیر اور تذلیل نہیں ۔ہر سماج کی حدود و قیود ہوتی ہیں ۔ویب سائٹس کے مدیران کو بھی خود احتسابی کے عمل کا ابھی سے آغاز کرنا چاہیے ۔تحریر کے متن پر معیار پر نظر رکھنی چاہیے ۔ورنہ کیا فرق رہ جائے گا۔مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں ۔افسوس کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں ۔رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں جان بوجھ کر جنسیت پر مبنی مضامین وقفے وقفے سے چھاپے جا رہے ہیں ۔جنسی تعلیم اگر اتنی ہی ضروری ہے تو جناب پندرہ دن بعد دل کھول کرترجیحی بنیادپر اپنی دانش وری کے موتی بکھیر لینا کس کی جرات ہے ،کہ جناب کی علمیت اور دانش کے آگے ٹھہر سکے۔
اندھی ڈولفن کا استحصال انسان کے استحصال سے زیادہ ناگزیر ہو چکا ہے۔تو جناب رمضان کے بعد اس پر ہڑبونگ مچا کر اپنی دھاک بٹھا لیجیئے گا۔حد ہو گئی دانشوری کی کسی جنسی مریض کی ایک آدھ حرکت کو پوری دھرتی کے باشندوں کی روایت بیان کیا جا رہا ہے۔اور اس قسم کی لا یعنی تحریر کو من وعن چھاپ دیا جا رہا ہے۔اسی قسم کی بے سروپا تحاریر جن کا مواد انتہائی غیر معیاری۔۔ کسی میں نرگسس فخری کےخدوخال کا بیان ہے اور کوئی جنسی تعلیم کے ذکر پر مبنی لایعنی مواد پر مشتمل ہے ۔جبکہ مثبت اور تعمیری ایک جملہ نہیں وہ بھی چھپ رہی ہیں ۔ریٹنگ کی دوڑ میں بھاگنے کے لیے چند دن کا وقفہ ڈالنے میں کیا امر مانع ہے۔اپنی سوچ کو بذریعہ طنز اور تمسخر کے مسلط کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا اگر انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔تو اس پر بھی چند یوم کا وقفہ ڈالنے میں کوئی ہرج نہیں ۔بھاگنے والا ہمیشہ منہ کے بل گرتا ہے ۔اس لیے دھیرج رکھئے مہاراج ۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply