جن دنوں بسلسلہ تعلیم و تربیت مدرسہ میں سکونت پذیر تھا تو ہمارے ایک دوست نے اختلاف کی بنیاد پر دوسرے دوست کا نام بگاڑ دیا بات چلتے چلتے منتظم(جو کہ علاقہ کی سماجی شخصیت تھے ) ان تک پہنچی تو انہوں نے بھی از راہ مذاق وہی بگڑا نام بول دیا ۔ میں نے کھڑے ہو کر منتظم سے بصد احترام عرض کیا سر آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ بھی یوں نام بگاڑ کر بات کو طول دیں۔۔۔ منتظم محترم نے میری اچھے سے دھلائی فرما دی۔۔میرا ماننا تھا کہ طلباء جو آپس میں ہم عصر ہیں وہ اختلاف تو کر سکتے ہیں مگر نام بگاڑنا درست بات نہیں ہے۔ مگر منتظم جی نے نام بگاڑ کر اس طالب علم کے بگڑے نام کو سند دے دی ہے جو انتہائی غلط بات ہے ۔۔ سو ہم معاملے کو مفتی صاحب کی خدمت میں لے کر پیش ہو گئے۔معاملہ سدھرنے کی بجائے طول پکڑ گیا۔ مفتی جی نے منتظم کو عہدے سے ہٹا دیا ۔ اب اہل علاقہ کو یہ منظور نہیں تھا کیوں منتظم صاحب کا اپنے علاقے میں کافی دبدبہ تھا ۔ اہل علاقہ نے منتظم سے مل کر مفتی جی کو مجبور کر دیا ۔ یوں خاکسار کو مدرسہ چھوڑنا پڑا ۔کچھ عرصہ بعد منتظم صاحب نے علاقے میں الیکشن لڑا تو بسلسہ انتخابات کی کمپین کے دوران تقریر کرتے ہوئے ان کے منہ سے اپنے بیٹے کا نام بگڑ گیا۔ مخالفین نے ان کی اس بات کو پکڑ لیا ،یوں وہ صاحب آج بھی اپنے بیٹے کے بگڑے نام سے پہچانے اور جانے جاتے ہیں۔
آج کل فیسبک پر اختلاف کی بنیاد پر نام بگاڑنے کا کام خوب زور شور سے جاری ہے۔ صاحبو ! دھیان سے اور ہوش سے اس سکول میں داخلہ لیجئے گا ہو سکتا ہے کل آپ کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔۔۔آپ اگر کسی سے اختلاف رکھتے ہیں تو ضرور اس پر قائم رہیں مگر نام مت بگاڑیں۔۔ ہر عمل کا رد عمل ضرور ہوتا ہے ۔ کل تک جو کسی کو ڈاکٹر قیامت کہتے تھے اور جو عریاں مقبول جان کہتے تھے جو کسی کو لال ٹوپی والا مسخرہ کہتے تھے جو کسی کو پاگل خان اور طالبان خان کہتے تھے ۔ آج ہر چشم ان کے بگڑے نام دیکھ رہی ہے۔اگر کوئی کسی کا نام بگاڑتا ہے تو اس مہم میں شامل ہو کر اس فعل کو سند مت دیں۔اس جہل سے باہر نکل آئیں یہی سب کے لیئے بہتر ہے نہیں تو نام بگڑتے رہیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں