جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ۔۔۔۔۔فارینہ الماس

” عمل،تبدیلی اور کامیابی“ آج کے دور کا عالمی نعرہ ہیں۔ یہ اور بات کہ ہم اس نعرے سے ”عمل“ کو منفی کرکے اس کے وجود سے جنم لینے والے باقی کے دو ثمرات کو پالینے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔عمل، فکر و نظرئیے سے بنتا ہے لیکن ہمارا نظریہ ہمیشہ منفی تخمینوں اور اندازوں ہی کی نظر ہوتا آیا ہے۔ جس کی وجہ ہماری وہ پال پوس ہے جو لگے بندھے اور پرانی یادگاروں کے گھٹن آمیز ماحول میں ہوئی ہے اسی لئے آج ماضی کے تلخ و تند تجربات کی یاد اک خدشہ بن کر ہماری ہر امید اور جذبے کو اپنے شکوک و شبہات کے دانتوں تلے کچر کچر چبا جاتی ہے۔ ہم اپنے آج کو اپنے تاریک ماضی ہی کا تسلسل قرار دیتے ہیں اور ہماری سبھی مایوس و منفی تاویلیں ہمارے آج کو کبھی روشن نہیں ہونے دیتیں۔

ہمارے” آج “ کا ایک بڑا خدشہ ”جمہوریت “ سے وابستہ ہے۔ملک کو کسی بھی نوعیت کا بحران لاحق ہونے لگے ،ً کوئی سیاستدان پکڑا جائے، یا کوئی ملک سے فرار ہوجائے کہا جاتا ہے ”جمہوریت کو خطرہ ہے“۔کوئی پارٹی ابھر کر سامنے آجائے یا کوئی پارٹی کسی دوسری پارٹی کی جگہ لے لے تو بھی ”جمہوریت ہی کو خطرہ ہے“ کسی کا نام پانامہ لیکس میں آجائے یا کوئی بھگوڑا ملک میں واپس آجائے اس میں بھی جمہوریت ہی کو خطرہ ہے۔ آخر ہماری جمہوریت اسقدر خدشات و خطرات کا شکار کیوں رہتی ہے۔ اس کی وجہ شاید ہمارا ماضی ہی ہے۔جس کے پنوں پر لکھا ہے کہ جب اس ریاست نے جنم لیا تو سیاسی افراتفری و انتشار اس کی گھٹی میں اتر آیا۔ اپنی پیدائش کے بعد گیارہ سالوں تک وزارتوں،عہدوں،اور حکومتوں کی کھینچا تانی و اکھاڑ بچھاڑ نے سیاسی حالات کو متزلزل کئے رکھا۔ جمہوریت کی نئی نویلی دلہن کی ابھی منہ دکھائی بھی نہ ہوئی تھی کہ اسے تاریخ کے متکبر بادشاہوں نے پابند سلاسل کر دیا۔ یہ دلہن تئیس سال تک قید مسلسل کاٹتی رہی، اس دوران کبھی کنٹرولڈ جمہوریت تو کبھی بنیادی جمہوریت کا نام دے کر اس کے حسن کو گہنایا جاتا رہا۔پھر جب اسے اپنے صبر مسلسل کے بعد 1970کے غیر جانبدار انتخابات کا پھل ملا تو نظام اس سے سنبھل نہ سکا یا پھر سنبھلنے دیا ہی نہ گیا اور اک بار پھر یہ حالات کے رحم و کرم پر آگئی۔

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام جمہوریت کے رستے کا وبال بنتا آیاہے۔ اس کی بنیادی وجہ سویلین، ملٹری اور اسلامسٹوں کے وہ تین بڑے ونگ رہے، جو روز اول سے ہی باہمی چپقلش کا شکار ہیں۔ کبھی اسلامسٹ اور سیاسی کردار باہمی دست و گریباں ہوئے تو ملٹری کو اپنی طاقت کے استعمال کا موقع ملتا رہا تو کبھی جمہوریت کی براہ راست چھیڑ چھاڑ فوج کو ناگوار گزرتی رہی۔ لیکن یہ کھیل چلتا ہی رہا نا تو ان کی باہمی عداوت کبھی کم ہو سکی اور نا ہی یہ اپنے اپنے مدار میں رہ کر اداروں کو استحکام دے سکے۔ اس دوران فوجی آمر کبھی اسلامی نظام و نفاذ شریعت کی آڑ میں انتہا پسندی و فرقہ پرستی و مذہبی منافرت پھیلاتے رہے ۔ تو کبھی نام نہاد روشن خیالی کا ڈھونگ رچاتے رہے۔
آج جب بھی اسٹیبلشمنٹ کے اختیار کی بات کی جاتی ہے تو درحقیقت یہ فوج ہی کی طاقت کی بات ہو رہی ہوتی ہے۔ لیکن آخر اس ملک میں فوج ایسی بااختیار کیونکر ہو گئی کہ جمہوریت بھی اسی کے در کی باندی بن کے رہ گئی۔

یہ قصہ شروع ہوتا ہے اس وقت کے سیاسی و ملکی بحران سے جس کا شکار ہم قیام پاکستان کے عمل میں آتے ہی ہو چکے تھے۔ 1948میں اپنے قیام کے ٹھیک ایک سال بعد ہی جب پاکستان اور ہندوستان کا باہمی ٹکراؤ ہوا تو فوج کے  متحرک ہونے کا وقت آ چکا تھا ۔ ایک طرف اسے انڈیا تو دوسری طرف افغانستان کے محاذ پر متحرک ہونا پڑا۔ ملک کے اندرونی حالات بھی کچھ اس قدر تذبذب کا شکار تھے کہ حکومت کے سویلین اداروں کا ان مسائل سے نپٹ پانا نا ممکن تھا ،سو ایسے کئی محاذوں پر سویلین حکومتیں فوج کی محتاج ہوتی چلی گئیں ۔یہ مداخلت فوج کو طاقت بخشتی رہی جس کے بل بوتے پر وہ جمہوری حکومتوں کو پچھاڑ کر ایوانوں پر خود براجمان ہو گئے۔ بعد ازاں1965اور1971کا تصادم اور پھر سرد جنگ و دہشت گردی کے حالات فوج کو ملکی معاملات میں مزید طاقتور بناتے ہی چلے گئے۔اور انہیں عوام کی تائید و ہمدردی سمیٹنے کے مواقع بھی میسر آئے۔جس کے بل بوتے پر فوج اندرونی  فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے لگی۔

آخر اس تمام تر عمل کے دوران عوام خاموش تماشائی کیوں بنی رہی۔ اس کے کئی عوامل ہیں ۔سب سے اہم عوامل سیاسی و سماجی شعور اور عوامی تحرک کی کمی اور فکری بے حسی ہیں جن کا مدتوں ہم شکار رہے۔ہم نے جمہوری سیاستدانوں کی بدعنوانیوں اور نا اہلیوں سے بد دل ہوکر فوجی حکومتوں پر اندھا اعتماد تو کر لیا لیکن کبھی بھی ان نا اہلوں اور نا ہنجاروں کو عوامی عدالت تلک نہ گھسیٹا ۔ شاید ہم میں جرات اظہار کی کمی تھی یا یہ ہماری بے حسی ہی تھی جو ہمیں خاموش رہنے پر مجبور کئے ہوئے تھی ۔
جمہوریت کا اصل حسن شخصیت پرستی اور آقاؤں کی تابعداری سے نہیں بلکہ آگاہی،بیداری ،ایمانداری اور خود احتسابی سے ہے۔جمہوریت نام ہے جرات اظہار کا حق گوئی کا ،آقاؤں سے سوال کرنے کا ۔ ورنہ جمہوریت خود اپنی موت آپ مر جاتی ہے ۔ اس کے لئے کسی اسٹیبلشمنٹ کے رچائے کھیل کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔

عوامی تحرک کی کمی کا باعث خود ہمارے میڈیا کا کمزور کردار بھی تھا جو بصورت پی ٹی وی سب اچھا ہے کا راگ الاپتا رہتا۔ اور ہم شدید قسم کے تمدنی و تعلیمی ،معیشتی و سماجی بحران کے باوجود ترقی کے جھوٹے نعروں سے مرعوب ہو جایا کرتے ۔
لیکن حالیہ انتخابات اور سیاسی منظر نامے نے اس ساری صورتحال کو یکسر ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔ اس کے زندہ و جاوید مناظر اس وقت دکھائی دئے جب کئی حلقوں میں امید واران کے جانے پر انہیں ووٹروں کے شدید غم و غصے کا شکار ہونا پڑا ۔ایسے کئی مناظر بھی دیکھے گئے کہ انہیں دیکھتے ہی ووٹران نے ”چور“ ”چور“ کے نعرے بھی لگائے۔ یہ بیداری ایک مکمل تحرک کا نتیجہ ہے جس میں سیاسی پارٹی کے علاوہ ہمارے متحرک میڈیا کا بھی اہم کردار رہا۔

جمہوری ادوار میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بڑی کمزوری کی وجہ خود سیاستدان بنتے رہے جس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ نے کبھی ڈھکے چھپے انداز میں تو کبھی کھل کھلا کر اٹھایا۔لیکن اب یہ عملداری عوام کے لئے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔اب عوام ماضی کی طرح بے شعور یا بے حس بھی نہیں رہے۔ وہ اپنی فوج سے محبت تو کرتے ہیں لیکن اس کے سیاسی کردار کو ناپسند کرتے ہیں۔ وہ اپنے سیاستدانوں سے بھی حساب مانگنے لگے ہیں۔وہ اب جاگ چکے ہیں ۔ انہیں احساس ہونے لگا ہے کہ کس طرح سیاستدان قانون پر عمل داری کو ممکن بنانے کی بجائے خود اپنی پشت پناہی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔وہ یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ ان کی اندھی عقیدتوں کا فائدہ اٹھا کر کس طرح سیاستدانوں نے خود ان کے لہو سے ہی اپنی اندھی خواہشوں کو سینچا۔

حالیہ الیکشن میں عوام میں وہ سیاسی گرمجوشی سے کہیں زیادہ سیاسی بیداری دکھائی دے رہی ہے ۔عوام کرپٹ لوگوں کے دیے نعروں سے باہر آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ سیاست میں شخصیت پرستی کے نظریئے کو بھی جھٹلاتے نظر آرہے ہیں۔وہ سیاستدانوں کی بیان بازی کو اپنی سوچ کے پلڑوں میں پرکھ کر سچ اور جھوٹ کی گھات لگانے لگے ہیں۔گو کہ یہ روداد مکمل شعور کی نہیں۔ شاید بیداری کا عمل ابھی بھی ادھورہ ہے لیکن اس کی امید کا جاگ جانا ہی سب سے بڑی تبدیلی ہے۔
تو ہمیں پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جو اندرونی و بیرونی قوتیں پاکستان کو ایک ملٹری سٹیٹ دیکھنا چاہتی ہیں۔جو مذہبی قوتیں اسے ایک تھیوکریٹک ریاست بنانا چاہتی ہیں وہ سوچ اور سمجھ لیں کہ پاکستان قائداعظم کے کہے ہوئے کے مطابق ایک روشن خیال جمہوری ملک بنے گا۔ یہاں جمہوریت اپنے پورے حسن کے ساتھ پنپ سکے گی۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کی مٹی جمہوریت کے لئے سازگار نہیں لیکن ایسا ضرور ہے کہ ابھی یہ جمہوریت بے سمت ہے ۔

2014میں خود امریکی تھنک ٹینک نے بھی مڈل ایسٹ سے متعلق ایک مذاکرے میں پاکستان سے متعلق ایسے ہی حالات کی نشاندہی کی تھی کہ ’‘پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری قوتیں ایک پروسس سے گزر رہی ہیں۔لیکن ایسا نہیں کہ یہاں جمہوریت پنپ نہیں سکتی“ اس پراسس کی طوالت کی وجہ عوام میں سیاسی شعور کی عدم دستیابی تھی جو اب شعور میں بدل رہی ہے ۔ لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے مسائل کا حل جمہوریت میں ہے۔ لوگ پارٹیوں کی سیاست کو بھی سمجھنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ پارٹیوں سے سوال کرنے لگے ہیں۔ اگر جواب انہیں مطمئن نہ کر پائیں تو وہ اپنی وفاداری بدل لیتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ کے ۔ پی ۔کے کے عوام نے پچھلے الیکشن میں روایتی پارٹیوں کو خیر باد کہتے ہوئے دکھایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جمہوریت کی ایک بہت بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ نظام شفاف اور ایماندار لوگوں کے بغیر نہیں چل پاتا سو ہمیں سیاستدانوں کو ایماندار بنانا ہے تاکہ وہ سسٹم اور عوام کو ایماندار بنائیں۔ ایک نئی آواز کے ابھرنے سے لوگوں میں جاگنے والا جرات اظہار اس قوم کو اپنی منزل دلا کے ہی رہے گا شاید ابھی کچھ وقت درکار ہے لیکن ایسا ہوگا ضرور۔پھر یہی وصف ایماندارانہ نظام کو تخلیق کرے گا وہ نظام جو سیاسی جمہوری نظام میں وہ اخلاقی و سیاسی جرات پیدا کرے گا جو سویلین اتھارٹی کو بحال اور اسٹیبلشمنٹ کو اس کے ادارتی امور تک محدود کر سکے۔

Facebook Comments

فارینہ الماس
تعلیم سیاسیات کے مضمون میں حاصل کی لیکن اپنے تخیل اور مشاہدے کی آبیاری کے لئے اردو ادب کے مطالعہ کو اہمیت دی۔لکھنے کا شوق افسانے اور ناول لکھ کر پورا کیا۔سال بھر سے کالم نگاری میں مشق جاری ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply