ووٹ کو عزت دو ۔۔۔کمیل اسدی

السلام علیکم۔ دوستو میں دانشور تو نہیں بس اہل دانش کی صحبت کا اثر ہے کہ کبھی کبھار کوئی پند و نصائح آپ کے گوش گزار دیتا ہوں۔ میں قلمکار یالکھاری بھی نہیں ہوں بس قومی زبان سے تعلق کو مضبوط رکھنے اور زبان دانی کو زندہ رکھنے کے لئے چھوٹے موٹے کالم، اقتباسات اور گزارشات آپکی نظر کردیا کرتا ہوں۔ انجینئر ہوں لیکن ٹیلی کام کا مظلوم انجینئر اس لئے قابلیت سے متاثر کرنے کی کوشش بھی نہیں کرسکتا۔ ایک عام سا آدمی ہوں جو اس وطن سے محبت کا تعلق گور تک قائم و دائم رکھنے کا خواہش مند ہوں۔ ایسی ہی اصلاحات چاہتا ہوں کہ جب دنیا بھر میں گرین پاسپورٹ کہیں بھی شو کروں تو لوگ حیرت و حسرت سے سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ کاش ہم بھی پاکستانی ہوتے۔
ہمارا برین جو یورپ و امریکہ کی منڈیوں میں بولی لگایا جا رہا ہے اس کو اتنی عزت اسی ملک میں ملے کہ وہاں کوچ کرنے کی بجائے اپنی وطن کو فوقیت دینے پر بخوشی رضامند نظر آئیں۔
روٹی کپڑا مکان صرف نعروں کی حد تک ہماری سفید پوشی کا تمسخر نہیں اڑاتا رہے۔ عشروں حکومت کرنے کے بعد بھی پھر وہی نعرے ہماری سماعتوں کو چاشنی نہیں بخش دیں کہ اب کی بار حکومت ملی تو ہم ووٹ کو عزت دیں گے۔
کسان ، صنعت کار، مزدور، انجینئر ، ڈاکٹر، وکیل کون سا ایسا ہنر مند ہے جو گزشتہ حکومتوں سے اتنا مطمئن ہے کہ ایک بار پھر اسی جال میں پھنسنے کو تیار نظر آئے۔ کیا ہم میں اس بندر جتنی عقل بھی نہیں جس نے اپنے ماضی سے سبق سیکھا اور وہی غلطی دوبارہ نہیں دہرائی؟
ایک جنگل میں ایک شخص بھوکا پیاسا تھا ،ڈھونڈتے ڈھونڈتے آخرایک ناریل کا درخت نظر آیا لیکن اس درخت پر بندروں کا غول قبضہ جمائے بیٹھا تھا۔ اسے ایک ترکیب سوجھی اور کچھ پتھر ان بندروں کی طرف پھینکے جواباََ بندروں نے ناریل پھینکے اس نے ناریل اٹھائے بھوک پیاس ختم کی اور اپنی راہ لی۔ خدا کا کرنا یہ ہواکہ اسی شخص کے پوتے کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا اور وہ جنگل میں بھٹک گیا۔ بھٹکتے بھٹکتے وہ اسی ناریل کے درخت کے پاس آ پہنچا۔ دادا کی کہانی یاد آگئی اور دو چار پتھر بندروں کی طرف اچھال دئیے۔ جواب میں بندروں نے وہی پتھر مار مار کے اسے لہو لہان کردیا۔ ایک بندر درخت سے اتر کے اس کے پاس آیا اور بولا “تیرا کی خیال ہے ساڈا دادا سانوں کہانیاں نہیں سنڑاں دا”۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے کیا آپ نے حالات بدلتے دیکھے ہیں۔ باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی اور اس کے بعد پھر نواسا نواسی پوتا پوتی اور اس کے بعد انکی آنے والی نسلوں کی غلامی۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ انگریز کی غلامی کے بعد آزادی کا سانس اگر لیا تو ہمارے پرکھوں نے ، ہم سب تو پیدائش سے آج تک غلام ہیں۔
آج ٹھٹہ کے ایک ان پڑھ چوکیدار سے جب میں نےپوچھا کہ ووٹ کس کو دو گے تو اس کا یہی جواب تھا کہ سائیں کوشش کریں گے کہ بلے پر مہر لگائیں لیکن کسی کو بتا بھی نہیں سکتے ورنہ وڈیرے گولیوں سے بھون دیں گے یا پھر اگلے 5 سال تھانے کے چکر یا کسی اور گھن چکر میں گزریں گے۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ اپنا ووٹ اپنی مرضی کے مطابق کاسٹ کرنا عذاب بن گیا ہے؟
ان وڈیروں جاگیرداروں چوہدریوں ملکوں کو اگر ووٹ دینا ہے تو انکی کارکردگی کی بنیاد پر نا کہ انکی دولت ، زمینوں اور شہرت کی دھاک پر۔
صرف ایک دن باقی ہے نظام کی تبدیلی کا حالات کے بدلنے کا ۔ اپنے گھروں سے باہر نکلیں اپنے ووٹ کو عزت دیں اگر سب یہی سمجھیں گے کہ میرے ایک ووٹ سے کیا فرق پڑجانا ہے تو ایسے ہزاروں ووٹ ضائع ہوجائیں گے۔ آپ کا ووٹ بہت قیمتی ہے اور یہ موقع پانچ سال کا عذاب بھگتنے کے بعد ملے گا بشرطیکہ زندہ رہے۔
پرائمری سکول میں اردو کی کتاب میں ایک سبق پڑھا تھا اتفاق میں برکت ہے۔ کبوتروں کا غول پورے جال کو لے اڑا تھا لیکن ہر کبوتر نے متفق ہو کر اڑان بھرنے کی ٹھانی تھی۔ اگر بکھرے رہو گے تو یہ غلامی کا شکنجہ اور جال کبھی بھی نہیں ٹوٹے گا۔ اپنے ووٹ کی طاقت سے اس غلامی کی طوق اتار پھینکنے کا وقت آ چکا ہے۔ آپ دوسرے شہر میں ہیں تو تھوڑی زحمت کریں اپنے اہل و عیال سمیت اپنے حلقہ میں تشریف لائیں اگر کوئی نادار ووٹر ہے تو کوشش کریں کہ اس کے کرایہ کا بندوبست کردیں۔ ووٹ ڈالنے سے پہلے اپنے پڑوسی دوست، رشتہ داروں کو بھی ساتھ لے جانے کی کوشش کریں۔کیونکہ بہت سے احباب سستی کی وجہ سے اپنا حق رائے استعمال نہیں کرتے۔
جوں جوں الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے مختلف حیلے بہانے ، پروپیگنڈا، سیاسی حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ کسی کی نظر میں عمران خان قادیانی سپورٹر ہے کوئی طالبان کا حامی سمجھتا ہے اور کسی کا الزام ہے کہ شیعہ سے متاثر ہو کر امام ضامن بھی بندھوانے لگا ہے اور بعض کے خیال میں تو بریلویوں کی طرح شرک کرنے لگا ہے۔ بہت پہلے تو یہودی بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ اب نئے حربوں کے مطابق فوج اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو جتوانا چاہتی ہے یہ ایجینسیز  کے ہاتھوں بک گیا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد ایسے الزامات ہیں جن پر اگر بات کی جائے تو شاید دو تین صفحات اسی کی نظر ہوجائیں۔ لیکن ہمیشہ پروپیگنڈا انتخابات کے وقت ہی کیا جاتا ہے تاکہ بدگمانی پیدا ہو ورنہ اس سے قبل وہی خان صرف سیاسی حریف سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے دانا دوست جیسے اعجاز سلفی صاحب اس لئے نواز شریف کو سپورٹ کررہے ہیں کیونکہ وہ سول بالا دستی کی جنگ لڑ رہا ہے۔
میری عرض یہ ہے کہ ایک کرپٹ سیاستدان کبھی بھی سولین کی بالا دستی کے لئے موزوں نہیں ہو سکتا۔ یہ جنگ وقت آنے پر عمران خان کی قیادت میں لڑی جا سکتی ہے اور ایسا وقت ضرور آئے گا جب عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے۔ خان ایسا لیڈر نہیں کہ جو جھک جائے اور جنہیں بوٹوں سے شکایت ہے وہ اس وقت دور کی جا سکتی ہے فی الوقت ایک ایسے سیاستدان کو آگے لانا ضروری ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔
چہرے نہیں صرف بیٹ کو مہر لگا کر ایک نئی پارٹی کو موقع دیں۔ ہم نے گھر کی صفائی کے لئے کام کرنے والا یا والی رکھنی ہو تو تین چار جانچ پڑتال کرنے کے بعد ایک فائنل کرتے ہیں۔ کیا اس ملک کا نظام سنبھالنے کے لئے گھسے پٹے مہرے استعمال کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں؟ کیا ہم اپنے حاکم کے چناؤ کو ایک خاکروب کے چناؤ جتنی بھی اہمیت نہیں دے سکتے؟
پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ نے بہت اچھا کام کیا ۔ کیا ایک تیسری پارٹی کو موقع نہیں دینا چاہیے جس کا دعوٰی ہے کہ ہم ان سے اچھا نظام متعارف کرائیں گے۔
میری فرینڈ لسٹ میں ایڈ 4 ہزار دوستوں سے درخواست ہے کہ آپ مجھے دانشور، لکھاری، ادیب ، شاعر، انجینئر یا ایک اچھا سیدھا سادھا آدمی سمجھ کر جو تعلق قائم کئے ہوئے ہیں تو اس تعلق کی لاج رکھتے ہوئے اور میری بات پر دھیان دیتے ہوئے اپنا ووٹ ضرور کاسٹ کریں۔ ووٹ صرف عمران خان کو دیں۔
آپ سب کے ساتھ یہ وعدہ رہا کہ اگر عمران خان بھی نواز شریف یا زرداری کی طرح حکومت چلانے کی کوشش کرے گا یا نظام میں بہتری نہیں لائے گا تو اس کی مخالفت میں سب سے پہلے اٹھنی والی آواز میری ہو گی۔ ہم وطن عزیز کی ترقی، خوشحالی اور شان و شوکت کے لئے عمران خان کو ووٹ دیں گے۔ ہم شخصیت پرستی نہیں کریں گے کہ اگر عمران خان کوئی بھی غلط قدم اٹھائے گا تو اسے صحیح ثابت کرنے کے لئے صفحات کالے نہیں کریں گے اور نا ہی بریانی کی پلیٹ پر خوش ہوجائیں گے۔
اگر آپ کے حلقہ میں کوئی بھی مسلکی شدت پسند، صوبائی تعصب رکھنے والا یا وطن دشمن عنص بیٹ کے نشان پر آپ سے ووٹ مانگے تو اسے ہرگز ووٹ کاسٹ نہیں کریں بلکہ کسی مناسب آزاد امیدوار کو جتوا کر خان کو صحیح ڈائریکشن کا سگنل دیں۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply