وائس چانسلر کیسا ہونا چاہیے؟

یہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ہے۔چند طلباء ایک ویب سائٹ بنا کر یونیورسٹی انتظامیہ کے غلط اقدامات کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔میڈیا کوریج کے لیے آتا ہے تو وائس چانسلر کے پیادے آ کر حکم سناتے ہیں آپ یونیورسٹی حدود میں داخل نہیں ہو سکتے۔ میڈیا یونیورسٹی میں داخل ہونے کی بجائے گیٹ کے باہر کوریج شروع کر دیتا ہے تو وائس چانسلر کے لشکری آ کر حکم سناتے ہیں کہ آپ یہاں بھی کوریج نہیں کر سکتے ۔یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ یونیورسٹی ہی نہیں ، ارد گرد کے علاقے کو بھی جناب وائس چانسلر اپنی مفتوحہ جاگیر سمجھتے ہیں.
اول اول بہت تعجب ہوا کہ کیا یہ رویہ ایک دانش گاہ کے وائس چانسلر کو زیبا ہے، پھر سوچا ہر آدمی اپنی افتاد طبع کا اسیر ہوت ہے اور تعلیمی پس منظر بھلے ڈگریوں سے جگمگا رہا ہو ،افتاد طبع نہیں بدل پاتی۔پھرجب معلوم ہوا کہ وائس چانسلر جناب رانا اقرا ر جناب رانا ثناء اللہ کے قریبی عزیز ہیں تو گویا سارا معاملہ سمجھ میں آ گیا۔یونیورسٹی کے ایک صاحب بلاوجہ نہیں فرما رہے تھے کہ میڈیا کیا ہے؟ واٹ از میڈیا ۔یہ ایک اطمینان تھا جو چھلک رہا تھا کہ سیاں میرے کوتوال پھر ڈر کاہے کا۔
زخمی صحافی جب پولیس افسران کے پاس شکایت لے کر گئے تو جواب ملا : وی سی صاحب رانا ثناء اللہ کے قریبی عزیز ہیں ،ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔آپ رانا صاحب سے بات کیجیے۔آپ مقامی سیاست کا بندوبست دیکھیے کہ رانا ثناء اللہ صاحب کے شہر میں ان کے قریبی عزیز رانا اقرار خان صاحب کے سیکیورٹی گارڈز سے مار کھا کر جب صحافی پولیس کے پاس داد رسی کے لیے پہنچے تو آگے ایس ایس پی آ پریشنز رانا معصوم تشریف فرما ہوتے ہیں۔یہ وہی منظر تھا جہاں شاعر نے کہا تھا: کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔تجربہ کاروں نے اپنے اپنے علاقوں پر اس طرح سے گرفت مضبوط کر رکھی ہے اور ہم یہاں بیٹھ کر عمران خان کو روتے رہتے ہیں کہ الیکٹیبلز کو پارٹی میں کیوں لے رہا ہے۔یہ سوال بھی سوچنے کا ہے کہ اس بندوبست کا مقابلہ وہ آخر کس طرح کرے؟
یونیورسٹیوں کو ہماری سیاست نے برباد کر دیا۔اقرار خان صاحب اگر رانا ثناء اللہ صاحب کے قریبی عزیز نہ ہوتے تو کیا وائس چانسلر بن پاتے؟ جب وائس چانسلرز کے اپنے مزاج کی تہذیب نہ ہو سکے تو وہ یونیورسٹی میں کس طرح کا کلچر فروغ دیں گے؟دھڑے بندی کی سیا ست اور چیز ہے اور کسی دانش گاہ کی سربراہی ایک مختلف معاملہ۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا رویہ کسی وار لارڈ جیسا نہیں ہونا چاہیے۔اپنے طلباء سے اس کا رشتہ بھی وہی ہوتا ہے جو باپ کا بیٹوں سے ہوتا ہے۔تادیب اور تنبیہہ اپنی جگہ لیکن مقصود یہ نہیں ہوتا کہ بچوں سے انتقام لیا جائے بلکہ ان کی خیر خواہی مقصود ہوتی ہے۔
ایک ریکٹر ملک معراج خالد بھی تھے۔وائس چانسلر ہی کہہ لیجیے۔میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کے دوسرے سمسٹر کا طالب علم تھا۔یونیورسٹی نے فیسوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا۔میں نے ملک معراج خالد کے خلاف ایک مقامی روزنامے میں کالم لکھ دیا ۔میں نے لکھا کہ ایک دودھ بیچنے والا ریکٹر بن جاتا ہے تو اس کی گردن میں سریا آ جاتا ہے اور وہ اپنا ماضی بھول جاتا ہے ۔یاد نہیں اور کیا کچھ لکھا لیکن وہ بہت ہی نا معقول تحریر تھی۔
اگلے روز میں کلاس میں پہنچا تو ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ جناب ایس ایم رؤوف صاحب نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہیں ریکٹر صاحب نے طلب کیا ہے۔مجھے خوب یاد ہے جب میں ان کے کمرے سے نکل کر جا رہا تھا تو انہوں نے غصے سے کہا: جنٹل میں گو اینڈ فیس دی میوزک۔خیر میں ریکٹر آفس کی جانب چل پڑا اور راستے میں یہی سوچتا رہا کہ یہ تو طے ہے آج یونیورسٹی میں میرا آخری دن ہے سوال یہ ہے کہ آج یونیورسٹی سے نکالا جاؤں گا تو گھر والوں سے کیا بہانہ بناؤں گا کہ کیوں نکالا گیا۔
وہاں پہنچا تو ریکٹر کے پی ایس اسماعیل صاحب کو بتایا میرا نام آصف محمود ہے، مجھے ریکٹر صاحب نے بلایا ہے۔مجھے شدید حیرت ہوئی جب اسماعیل کے سپاٹ چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور کہنے لگے جائیے وہ آپ کے منتظر ہیں۔لیکن اندر داخل ہوا توحیرتوں کے جہان میرے منتظر تھے۔ملک صاحب اکیلے بیٹھے تھے۔میں نے ڈرتے ڈرتے کہا : سر میں آصف،آپ نے بلایا تھا؟
آپ ہی نے کالم لکھا تھا؟
جی سر میں نے لکھا تھا۔
تشریف رکھیے مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنا ہیں۔۔۔۔اور میں جل تو جلال تو کا ورد کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔
کافی دیر یونہی گزر گئی۔ملک صاحب ولز کی ڈبیا گھماتے رہے ۔ایک ایک لمحہ اعصاب پر بھاری تھا۔پھر ملک صاحب نے خاموشی کو توڑا اور کہا: کالم تو آپ نے اچھا لکھا لیکن آ پ کی معلومات ناقص تھیں۔میں صر ف دودھ فروش نہیں تھا۔میرے ساتھ ایک اورمعاملہ بھی تھا۔میں نے اسی لیے آپ کو بلایا ہے کہ آپ کی معلومات درست کر دوں۔میں صرف دودھ نہیں بیچتا تھا۔میرے ساتھ یہ مسئلہ بھی تھا کہ جوتے نہیں تھے۔میں دودھ بیچ کر سکول پہنچتا اور سائیکل وہیں کھڑی کر دیتا۔گھر میں جوتوں کا ایک ہی جوڑا تھا جو والد صاحب کے زیر استعمال تھا۔اس کا حل میں اور میرے ابا جی نے مل کر نکالا۔ہمارے درمیان یہ طے ہوا کہ صبح میں یہ جوتے پہن کر جایا کروں اور جب میں واپس آ جاؤں تو یہی جوتے پہن کر ابا جی چوپال میں جا کر بیٹھا کریں۔اب ڈر تھا کہ سائیکل چلانے سے جوتا ٹوٹ نہ جائے۔اس لیے میں انہیں سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا تھا۔جب دودھ گھروں میں پہنچا کر کالج کے گیٹ کے پاس پہنچتا تو جوتا پہن لیتا۔واپسی پر پھر سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا اور ننگے پاؤں سائیکل چلاکر گھر پہنچتا۔
ملک صاحب پھر خاموش ہو گئے۔یہ دورانیہ خاصا طویل رہا۔پھر مسکرائے اور کہنے لگے: سریے والی بات تم نے ٹھیک کہی۔واقعی ،اللہ نے دودھ فروش کو نوازا تو اس کی گردن میں سریا آ گیا۔بار بار دہراتے رہے: اللہ نے دودھ فروش کو نوازا لیکن اس کی گردن میں سریا آ گیا۔
پھر اسماعیل کو بلایا اور پوچھاکہ کیا قواعد و ضوابط کے مطابق میں فیس میں کیا گیا یہ اضافہ واپس لے سکتا ہوں۔اسماعیل نے کہا سر ریکٹر کے اختیار میں نہیں ہے۔کہنے لگے اختیار میں تو نہیں ہے لیکن اگر میں نوٹیفیکیش جاری کر دوں تو پھر؟ اسماعیل کہنے لگے : سر آپ نوٹی فیکیشن جاری کر دیں تو ظاہر ہے اس پر عمل ہو گا۔ملک صاحب نے کہا جلدی سے نوٹیفیکیشن بنا لاؤ،فیسوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔میں کمرے سے باہر نکلا تو اس حکم نامے کی کاپی میرے ساتھ تھی، دل البتہ وہیں چھوڑ آیا تھا۔
ڈیپارٹمنٹ پہنچا تو ایس ایم اے رووف صاحب نے پوچھا ،ہاں کیا ہوا؟ میں نے نوٹی فیکیشن آگے رکھ دیا، سر یہ ہوا۔رووف صاحب کی آنکھوں میں جو حیرت تھی ،مجھے آج بھی یاد ہے۔آج اگر کوئی مجھ سے پوچھے: وائس چانسلر کیسا ہونا چاہیے؟ میں کہوں گا اسے ملک معراج خالد مرحوم جیسا ہونا چاہیے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply