خطرہ حکومت کو ہے جمہوریت کو نہیں

خطرہ حکومت کو ہے جمہوریت کو نہیں
طاہر یاسین طاہر
جس طرح جے آئی ٹی کی تحقیقات جاری ہیں اور جس طرح جے آئی ٹی نے وزیر اعظم صاحب اور وزیر اعلیٰ صاحب کو طلب کیا،اس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ اس بار پانامہ لیکس کی پوٹلی سے وہ سب بر آمد ہو گا یا کم از کم اس کا سراغ لگا لیا جائے گا جو مدتوں عوام کی نگاہوں سے چھپا کر رکھا گیا ہے۔عمران خان اور ان کی جماعت اس داد کی مستحق ہے کہ انھوں نے پانامہ لیکس سکینڈل کو سپریم کورٹ لے جا کر عدل کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ورنہ جہاں جمہوریت کو سنگین خطرات کے بارے تاریخی شہادتیں موجود ہیں وہاں تاریخی طور پہ ،یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ کئی بڑے بڑے مالی سکینڈل نیب اور عدالتوں سے ہوتے ہوئے اپنی موت آپ مر گئے۔حدیبیہ پیپرز اور سرے محل وغیرہ اس کی ایک مثال ہے۔پی ٹی آئی کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے سپریم کورٹ میں پانامہ سکینڈل کو لے جا کر توقف نہیں کیا بلکہ کیس کی جارحانہ پیروی جاری رکھی ہوئی ہے،جبکہ میڈیا بھی ،بالخصوص سوشل میڈیا اس حوالے سے بڑا فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا کے کردار پر بھی مفصل بات ہو سکتی ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں مذکور کیس اور حکمران خاندان کے حوالے سے سوشل میڈیا نے جو انداز اپنایا ہے وہ بجائے خود آزادی اظہار کا ایک نمونہ ہے،اگرچہ اس آزادی اور اس کے استعمال پہ بات کی بہت گنجائش موجود ہے۔
جب سے سپریم کورٹ کی طرف سے جے آئی ٹی بنائی گئی اور اس جے آئی ٹی نے تحقیقات کا آغاز کیا،تو حکمران خاندان اور ان کے سرکاری و نجی ترجمانوں کی جان پہ بنی ہوئی ہے۔یہ امر واقعی ہے کہ حکمران خاندان کو اس نوع کی تحقیقات کی توقع تک نہ تھی۔جے آئی ٹی کے طریقہ کار اور رویے کو دیکھ کر شریف خاندان اور ان کے حلیفوں نے جے آئی ٹی کے اراکین پہ نہ صرف اعتراضات اٹھائے بلکہ رکیک حملے بھی جاری ہیں اور جے آئی ٹی کو کبھی قصائی کی دکان کہا جا رہا ہے تو کبھی کچھ۔سپریم کورٹ نے حسین نواز کی طرف سے جے آئی ٹی پہ اٹھائے گئے اعتراضات مسترد کر دیے ہیں۔جبکہ ٹی وی ٹاک شوز میں اب دو طرح کے رویے سامنے آ رہے ہیں۔ ایک دھڑے کا کہنا ہے کہ احتساب ہونا چاہیے جبکہ دوسرے دھڑے کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ اپنے رویے سے جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ ،حتیٰ کہ ریمارکس میں کہہ چکی ہے کہ چار سے آٹھ لوگ ٹی وی پہ بیٹھ کر نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس ساری پریکٹس کا مطلب یہی ہے کہ نہ صرف جے آئی ٹی کو متنازع اور جانبدار ثابت کیا جائے بلکہ یہ تاثر بھی عام کیا جائے کہ سپریم کورٹ ،اسٹیبلشمنٹ اور جے آئی ٹی مل کر شریف خاندان سے نا کردہ گناہوں کا حساب بھی مانگ رہے ہیں۔اس سارے عمل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ اگر نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا تو خدانخواستہ ملکی ترقی، سی پیک، عالمی برادری سے تعلقات اور جمہوریت سب یک بیک غرق ہوجائے گا اور پاکستان صدیوں پیچھے چلا جائے گا۔لوٹی ہوئی رقم ،جس کی کہ تحقیق ہو رہی ہے،اس کے لوٹنے والوں کے بارے کہا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا سافٹ امیج ہیں، جبکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس اور تاریخی طور ثابت شدہ ہے کہ یہ سافٹ امیج،ان کی جماعت اور ان کے حواری بشمول پی ٹی آئی، سب کالعدم تحریک طالبان اور اس کے مختلف دھڑوں سے مذاکرات کرنا چاہ رہے تھے کہ اے پی ایس پشاور کا واقعہ ہو گیا اور نون لیگ کو بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں سیاسی طور پہ شراکت داری کرنا پڑی۔
دراصل یہ نہ تو پی ٹی آئی اور نون لیگ کی باہمی جنگ ہے نہ جمہوریت اور آمریت کی کشمکش ہے۔ہم سب پاکستانی یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں میرٹ کی اہمیت ہو، اقربا پروری کا خاتمہ ہو، رشوت لینے دینے سے جان چھوٹے اور بالخصوص جمہوریت کے نام پر ہمیں جس طرح خاندانی بادشاہتوں کا غلام بنایا گیا ہے اس کا خاتمہ ہو۔یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ایک شفاف تحقیقاتی عمل کے ذریعے کرپشن کرنے والے افراد،اداروں اور مسیحاوں کے کارناموں کو پبلک کیا جائے۔اگر تو شریف خاندان نے منی لانڈرنگ ارو دیگر مالی کرپشن نہیں کی تو اس قدر تلملانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ممکن ہے شریف خاندان کے خلاف فیصلہ آنے پر سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے کرداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں متعصب قرار دیا جائے۔کیونکہ ایک فعال سوشل میڈیا کے ہوتے اب نون لیگ کی طرف سے سپریم کورٹ پہ حملہ ممکن نہیں ہو گا،اس لیے کسی سکینڈل کے ذریعے ٹارگٹ کیا جائے گا۔
اس سب کے باوجود قرائن یہی ہیں کہ نواز شریف صاحب کے دن تھوڑے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ساری حکومت جائے گی یا ان ہاوس تبدیلی آئے گی؟ اور اگر ان ہاوس تبدیلی آئے گی تو ہاوس کو کون چلائے گا؟ یا کیا میاں صاحب قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے ،سی پیک اورممکنہ عدالتی فیصلے کی آڑ میں سیاسی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں گے؟ظاہر ہے حکومت کے تر دماغ بھی مختلف زاویوں سے سوچ رہے ہوں گے۔ لیکن جو بات طے ہے وہ یہی کہ حکومت کے جانے سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔اگر نواز شریف صاحب نا اہل ہو جاتے ہیں تو کیا سی پیک پہ کام رک جائے گا؟ایسا نہیں ہوتا، ملکوں کے تعلقات شخصیات کے بجائے ملکوں سے ہی ہوتے ہیں۔
کسی نئے بحران کی آمد کی افواہ پھیلا کر پاکستانی عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ ملزم خاندان نے پاکستان کو دیا کیا ہے اور پاکستان سے لیا کیا ہے؟اگر قبل از وقت انتخابات کا اعلان ہوتا ہے تو بھی جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں اور اگر ایک قومی حکومت بنتی ہے تو بھی یقین مانئے کہ جمہوریت کو ،کوئی خطرہ نہیں۔ملک بہر حال سیاستدانوں نے ہی چلانا ہے اور اس کے لیے ہمیں آئینہ دار لوگوں کی ضروت ہے۔دنیا بدل گئی ہے ہمیں بھی اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی۔ افراد کے بجائے اداروں پہ اعتماد کرنے کی روش سے ہی ملکی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply