لاہور ہائیکورٹ میں وکلا کا احتجاج اور گوجرانوالہ کا ہجوم
طاہر یاسین طاہر
ہم جس سماج کا حصہ ہیں اس میں یک بیک کئی ایک خرابیاں در آئی ہیں۔کئی ایک واقعات اور کئی مثالیں موجود ہیں مگر ہم صرف دو مگر تازہ ترین واقعات کو لیتے ہیں اور ان واقعات کی روشنی میں سماجی رویوں کی جانچ کرتے ہیں۔ایکسپریس ٹریبون کی ایک خبر کے مطابق گجرانوالہ کے علاقہ میں ایک عیسائی لڑکے کواس الزام میں بپھرے ہوئے ہجوم نے دھر لیا کہ اس نے مبینہ طور پر قرآن پاک کے اوراق کی بے حرمتی کی ہے۔ یہ بات جب مسجد کے پیش امام کے ذریعے عام لوگوں کو پتا چلی تو ان کے مذہبی جذبات بھڑک اٹھے اور ہجوم نے لڑکے پر تشدد کیا۔اگر پولیس بروقت پہنچ کر اس لڑکے کو نہ بچاتی تو یقینی تھا کہ ہجوم اس کی جان لے لیتا۔پولیس جب اس لڑکے کو تھانے لے گئی تو علاقہ کے عوام نے تھانے کو گھیرے میں لے لیا۔ بعد ازاں یہ ہجوم ،پولیس نے بات چیت سے منتشر کر دیا۔مبینہ گستاخ لڑکے کے خلاف پرچہ دے دیا گیا ہے اور گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کر لیے گئے ہیں۔پولیس کے مطابق لڑکے نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے جبکہ لڑکے کے والد کا کہنا ہے کہ اس کا بیٹا بے قصور ہے اور یہ کہ اس پر جھوٹا الزام لگا کر اسے پھنسایا گیا ہے۔
دوسرا واقعہ لاہور ہائیکورٹ میں پیش آیا جہاں قانون کے محافظوں نے ہی قانون کا مذاق اڑایا اور دلیل و منطق سے بات کرنے کے بجائے زور،طاقت اور ہڑتال کا سہارا لیا۔یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ ملتان رجسٹری میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران ملتان بار کے صدر ایڈووکیٹ شیر زمان کے پیش نہ ہونے پر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے خلاف وکلاء نے احاطہ عدالت میں ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے عدالت عالیہ کا دروازہ اکھاڑ دیا۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی اور توہین عدالت کے الزام میں لاہور ہائی کورٹ کے، ملتان بار کے صدر ایڈووکیٹ شیر زمان قریشی کے پیش نہ ہونے پر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی ہدایت کی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایڈووکیٹ شیر زمان قریشی کو گرفتار کر کے کل عدالت میں پیش کیا جائے اور ساتھ ہی شیر زمان قریشی اور قیصر کاظمی کے وکالت کے لائسنس معطل کرنے کا حکم بھی دیا۔مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران وکلاء کی بڑی تعداد لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں موجود تھی جنہوں نے عدالتی فیصلے کے بعد احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی جبکہ عدالت عالیہ کے احاطے میں لگا ایک لوہے کا دروازہ اکھاڑ دیا۔اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری موجود تھی تاہم وہ وکلاء کے احتجاج کو روکنے میں ناکام رہے جس کے بعد پولیس اور رینجرز کی مزید نفری نے موقع پر پہنچ کر وکلاء کو منتشر کرنے کی کوشش کی تاہم وکلاء نے احتجاج جاری رکھا اور نعرے بازی کی۔
بعدازاں وکلاء کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا اور آنسو گیس فائر کیے جس کے بعد وکلاء اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں تاہم پولیس، وکلاء کو عدالت کے ساتھ منسلک مال روڈ کی جانب دھکیلنے میں کامیاب ہوگئی۔اس موقع پر وکلاء نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ان کی جانب سے فائر کیے گئے آنسو گیس کے شیل واپس پولیس پر پھینکے گئے۔وکلاء کے احتجاج اور پولیس کی شیلنگ کے باعث مال روڈ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا جبکہ اس ہنگامہ آرائی کے دوران شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 24 جولائی کو ملتان بار کے صدر شیر زمان قریشی نے ملتان بینچ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد قاسم خان کے ساتھ مبینہ طور پر بدتمیزی کی تھی۔جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے آئین کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملتان رجسٹری میں عدالتی کارروائی روکنے کا حکم دیا تھا تاہم لاہور ہائی کورٹ میں بہاولپور بینچ کا کام جاری رہا۔واقعے کے کچھ ہی روز بعد ملتان بینچ میں کام کا دوبارہ آغاز ہوا تو وکلاء نے ہڑتال کا اعلان کردیا اور اس کے ساتھ ہی شیر زمان قریشی اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد یوسف زبیر نے ملتان رجسٹری کو معطل کرنے کے ’غیر قانونی عمل‘ کے خلاف ایک مشترکہ پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی۔پٹیشن آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ملتان بینچ کو کام سے روکنا غیر قانونی اور آئین کے آرٹیکل 194 کی خلاف ورزی ہے۔
وکلا آئین کی مختلف شقوں، ان کے استعمال اور ان شقوں سے متصل دلائل سے آگاہ ہوتے ہیں۔ملتان بار کے صدر کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے ملتان بینچ کے جج سے مبینہ بد تمیزی کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب کا ملتان بینچ کو کام سے روکنے کا فیصلہ آئینی تھا یا غیر آئینی؟اس پر فریقین یقیناً دلائل دیں گے۔اصل مسئلہ ملتان بینچ کے صدر صاحب کے رویے کا ہے۔ وکلا کی جانب سے ججز کےساتھ بد تمیزی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔قبل ازیں بھی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں۔جب آئین کی رو سے سب برابر ہیں تو پھر ملتان بار کے صدر صاحب کو عدالت میں پیش ہونا چاہیے تھا اور اپنے عمل اور رویہ کے حق میں دلیل دینا چاہیے تھی۔ ان کا توہینِ عدالت کے کیس میں پیش ہی نہ ہونا، خود کو آئین و قانون سے ماورا سمجھنے کے مترادف ہے۔اور جب ان کے خلاف فیصلہ آیا تو وکلا کی جانب سےکیا جانے والا پرتشدد احجاج بجائے خود ایک شرمناک فعل ہے۔عدالت عالیہ میں لگے لوہے کے گیٹ کو اکھاڑ پھینکنا بجائے خود طاقت کا اظہار ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وکلا پرزیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئین و قانون اور عدالتوں و ججز کا احترام کریں۔ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وکلا برادری کے سرکردہ افراد کو اپنے وکلا اور بارز کے لیے بھی کچھ قواعد نئے سرے سے بنانے چاہیں تا کہ بار اور بینچ کا باہمی اعتماد اور احترام بڑھے۔اول الذکر اور وکلا کا واقعہ در اصل ہمارے سماج کا وہ رخ ہے جو انتہائی خوفناک اور تکلیف دہ ہے۔اگر لڑکے نے گستاخی کی تو اس گستاخی کی آئین میں سزا موجود ہے۔کسی ہجوم کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی بھی بندے کی جان لے یا اس پہ تشدد کرے۔اسی طرح وکلا حضرات بھی یہ سمجھیں کہ اگر فیصلہ ان کے کسی وکیل بھائی یا بار کے کسی صدر کے خلاف آتا ہے تو قیامت نہیں آ گئی بلکہ اس فیصلے کو آئینی طریقے سے اپنے حق میں لینے کے لیے ان کے پاس اپیل کا حق ہے۔کیا بانی پاکستان کی وکالت کا انداز یہی تھا؟ وکلا بھائیوں کو سوچنا ہو گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں