عجب خیانت کی گجب کہانی۔۔۔علی عباس

گذشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر کالعدم تنظیموں کی مین اسٹریمنگ یا قومی دهارے میں لانے کے بارے میں کافی غوغا ہو رہا ہے۔ اس بارے میں ضد و نقیض خبریں اور وضاحتیں بهی دیکھنے میں آرہی ہیں اور ایسا ماحول بن چکا ہے جو مزید کنفیوژن کا باعث بن رہا ہے۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس اہم موضوع پر کچھ تحریر کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد فوجی، سیاسی اور مذہبی  حلقوں میں تیزی کے ساتھ دہشتگردی، شدت پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک متفقہ بیانیہ اپنانے کی ضرورت محسوس کی گئی اور پاک فوج کی زیر نگرانی آل پارٹیز کانفرنس میں دسمبر 2014ء کو بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی۔ اس خوبصورت پلان کے قابل عمل مسودے کے ساتویں، آٹهویں اور اٹهارویں نکات میں تحریر ہے کہ
شق نمبر 7: کالعدم تنظیموں کو کسی دوسرے نام سے بھی کام کرنے سے روکا جائے گا۔
شق نمبر 8: مذہبی منافرت پھیلانے کے خلاف سخت اقدامات اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
شق نمبر 18: فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔

اس نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں حکومتی اور ریاستی اداروں کی جانب سے بلند و بانگ دعوے کئے گئے، جس کے بعد پاکستانی ستم دیدہ قوم خصوصاً ملت مظلوم تشیع نے سمجھا کہ اب کچھ  سکھ کا سانس لینا نصیب ہوگا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ اب کالعدم تنظیموں کے دن گنے جا چکے ہیں۔ فرقہ واریت کے ماحول میں پلنے والی خون آشام چمگادڑوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جائے گا اور دہشت گردی کے شکار مظلوموں کو انصاف مل جائے گا۔ مگر مقتدر اداروں کے لئے ابهی اہلسنت والجماعت کی ضرورت باقی تهی، اس لئے ایک نیا نظریہ جنم دیا گیا جس کا نام رکها گیا:Project Mainstreaming the banned outfitsکالعدم تنظیموں کی قومی دهارے میں شمولیت اس پلان میں پہلے مرحلے میں کم از کم تین جماعتوں کو چنا گیا، جن میں جیش محمد، جماعت الدعوہ اور سپاہ صحابہ شام ل ہیں۔ پہلے مرحلے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کو ان جماعتوں کا مطالعہ اور ان کو ڈی ریڈیکلائزیشن کرنے کے لئے مناسب اقدامات انجام دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سلسلے میں PIPS کی جانب سے ان شدت پسند جماعتوں کو قومی دهارے میں شامل کرنے کے لئے چند اجلاس بلوائے گئے، جن میں کچھ خفیہ تھے اور کچھ میں ذرائع ابلاغ کو شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔ بیورکریسی کے کچھ حاضر سرویس اور ریٹائرڈ حلقوں کو اس مین اسٹریمنگ پروجیکٹ سے آشنا رکهنے کے لئے مختلف میٹنگز میں شامل کیا گیا۔

اس پورے پروجیکٹ کے بارے میں جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے 25 اکتوبر 2016ء والے دن ایک نجی ٹی وی چینل 24 نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اپریل 2016ء کے پہلے ہفتے میں ڈی جی آئی ایس آئی نے حکومت کو دو پلان دیئے، جس میں ایک پلان کے مطابق جماعت الدعوہ اور اسی طرح کے دیگر شدت پسند گروہ اور افراد کو قومی سیاسی دهارے میں لانے کے لئے ڈیڑھ سالہ منصوبہ بندی سے آگاہ کیا گیا جبکہ دوسرے پلان میں تشدد پسند گروہوں اور لشکروں کو ڈی ریڈیکلائز کرکے فوج اور رینجرز میں شامل کیا جانا ہے۔ یہ سارا پروجیکٹ اس وقت ہی کامیاب ہوسکتا تها، جب وفاقی حکومت نیکٹا ادارے کے ذریعے خفیہ ایجنسیز کی سفارشات مان لیتی اور اس مسودے پر دستخط کرکے اسے قانونی حیثیت دے دیتی، مگر میاں نواز شریف کی حکومت کوئی بهی ایسا ریسک جس سے انکی جانب سے عوام میں کالعدم جماعتوں کی حمایت کا تاثر جاتا، نہیں لینا چاہتی تهی۔ اس بات کا اظہار جنرل امجد شعیب بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

مخالفت کی دوسری اہم وجہ جماعت الدعوہ بهی تهی، جو ملی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن کمیشن سے رجسٹر ہو کر مسلم لیگ نون کا ووٹ توڑنے کی کوشش کر ررہی تھی، لہذا مسلم لیگ نون کی وفاقی اور پنجاب حکومت نے مقتدر اداروں کے اس پروجیکٹ کی مخالفت شروع کر دی اور پنجاب میں کالعدم جماعتوں پر دباو بڑهایا جانے لگا، جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام صوبوں میں نیشنل ایکشن پلان، اوپر بتائے گئے نکات کے مطابق عمل درآمد کروانے والی ہر صوبے میں فعال ایپکس کمیٹیز کے باوجود بھی تکفیری سپاہ صحابہ کی قیادت کو کهل کهیلنے کا موقع دیا گیا، بلکہ یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ انکو ایک غیر رسمی سا اجازت نامہ بھی دے دیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب میں تکفیری اہلسنت والجماعت کی نقل و حرکت اور جلسے جلوس انتہائی کم مقدار میں جبکہ اس کے برعکس خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں انکی فعالیت انتہائی زیادہ انجام پائی۔ اسی غیر رسمی اجازت کی وجہ سے پہلی دفعہ اہلسنت والجماعت کے راہنما خیبر پختونخوا خصوصا پشاور میں بلدیاتی انتخابات میں اہم کامیابی حاصل کرسکے۔ خیبر پختوانخوا کے ہزارہ ڈویژن، چار سدہ، مردان، پشاور اور کوہاٹ اضلاع میں، صوبہ سندھ میں خصوصاً کراچی، اندرون سندھ، خیرپور، لاڑکانہ، بدین، تهرپارکر وغیرہ جیسے علاقوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے، جبکہ اس سے پہلے وہاں پر انکا کوئی نام و نشان تک نہیں تها۔

پروجیکٹ مین اسٹریمنگ کے تحت اہلسنت والجماعت کے علاوہ باقی دو جماعتوں یعنی جماعت الدعوہ کو مسلم لیگ کی قیادت اپنا سیاسی اور انتخابی حریف تصور کرتی تهی، اس لئے جماعت الدعوہ کے سیاسی ورژن ملی مسلم لیگ کو الیکشن کمیشن نے رجسٹر نہیں کیا جبکہ جیش محمد کو بین الاقوامی طور پر دہشت گرد جماعت قرار دیا جاتا رہا ہے اور اس وجہ سے ان دونوں جماعتوں کا مین اسٹریمنگ میں آنا کچھ عرصے کیلئے تاخیر کا شکار ہوگیا۔ اندازہ یہی کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ان دونوں جماعتوں کو سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنانے میں ابھی کچھ عرصہ درکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں مین اسٹریمنگ پر کافی نیچے چلی گئیں، جبکہ ان کے برعکس سپاہ صحابہ کی مخالفت صرف پاکستان کی عوام خصوصاً اہل تشیع کی طرف سے دیکھنے میں آئی ہے، جن کے بارے میں یہی تصور رہا ہے کہ انکی لیڈر شپ بعرض معذرت چند بکے ہوئے اور خوفزدہ خواص کے ہاتھ میں رہی ہے، جنہیں چند فون کالز کے دباو پر اور کالعدم ہو جانے کی دھمکی سے ہر کام پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

لہذا تیسرے اور آخری مرحلے میں شیعہ قیادت جس میں شیعہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف واحدی، علامہ افتخار نقوی اور مجلس وحدت مسلمین کی شوریٰ عالی کے ممبر علامہ محمد امین شہیدی شامل تهے، کو مقتدر اداروں کی سربراہی میں اہلسنت والجماعت کی قیادت کے ساتھ مدعو کیا گیا اور اہلسنت والجماعت کو مین اسٹریم میں شامل کرنے والے اجلاس کا آخری مرحلہ شروع ہوا۔ یہ مرحلہ گذشتہ رمضان کے آخری عشرے میں اختتام پذیر ہوا۔ نواز شریف کی حکومت کے ختم ہوتے ہی مقتدر حلقوں کی جانب سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں نیکٹا نے پنجاب حکومت کو اہلسنت والجماعت کے سربراہ احمد لدهیانوی کو فورتھ شیڈول سے خارج کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ یوں احمد لدهیانوی فورتھ شیڈول سے نکل کر الیکشن میں حصہ لینے کیلئے اہل قرار دے دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بعض اطلاعات کے مطابق نگران وفاقی حکومت کے زیر نظر ادارے نیکٹا کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر سلمان کے دستخطوں کے ذریعے اہلسنت والجماعت سے پابندی اٹها لی گئی ہے، لیکن بہرحال ابهی تک اس بارے میں کوئی تصدیقی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ یہ سارا عمل کئی افراد کی خیانتوں سے پردہ اٹهاتا ہے، جس کے بارے میں کبھی آئندہ مناسب وقت پر اظہار خیال کیا جائے گا۔ لیکن بہرحال یہ ایک اہم سوال ہے، جو ان قیادتوں کو مخاطب کرتا ہے کہ اس تکفیری سوچ کے باعث مارے گئے 18000 شیعہ مرد و خواتین اور ان بچوں کے بہائے جانے والے بے گناہ خون کے سلسلے میں خداوند متعال کے بعد اس مظلوم قوم کو جوابدہ ہیں اور اسی تفکر کے ساتھ آئندہ بہنے والا خون بھی ایسی قیادتوں کے دامن پر بدنما سرخ داغ کی صورت میں باقی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

https://pakpips۔com/web/wp-content/uploads/2017/11/PB_CVE2_Reintegration_Militants۔pdf
http://tns۔thenews۔com۔pk/mainstreaming-militancy/
https://tribune۔com۔pk/story/1744294/1-govt-lifts-ban-aswj-unfreezes-assets-chief-ahmed-ludhianvi/?amp=1
Islam times

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply