کیا شرعی عدالت، عدلیہ کی نجکاری ہے؟۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صبیحہ ہاشمی

مسلم پرسنل لا بورڈ نے  اپنے اس منصوبہ کا جیسے ہی اعلان کیا کہ وہ شرعی عدالت ہر ضلع میں کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ طلاق، خلا، وراثت کے مسئلے شرعی قوانین کے مطابق  حل کیئے جاسکے اور مسلمان خاندانوں کا وقت اور پیسہ بھی بچ جائے اور فیصلے جلدی ہو سکے۔ اس دن کے بعد سے مباحثے اور تبصرے میڈیا میں چل رہے ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ جب ملک کی عدلیہ یہاں ہے تو اس نئی عدالت کی ضرورت کیا ہے؟ کچھ کہتے ہیں کہ مسلم پرسنل لا بورڈ  کو کیا ہندوستانی عدلیہ میں اعتماد نہیں ہے؟ کچھ نے یہاں تک کہ دیا کہ یہ تو ملک کے خلاف دیش دروھ ہے۔

مباحثے چلتے ہی رہیں گے بڑے بڑے مسائل پر پردہ ڈالنے کے لیے میڈیا کو ایک اور نیا موضوع ہاتھ لگ گیا ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی ملت کو اور بورڈ کو پوری طرح بدنام کرنے کی کوششیں جاری ہے۔

 لیکن اگر ہم کھلے دماغ سے سمجھنے کی کوشش کریں تو دارالقضا عدالت کی نجکاری یا پرائیوٹائیزیشن نہیں ہے۔ یہ صرف ایک Alternative of Judiciary عدلیہ كے متبادل کی طرح ہے جو (آربیٹریٹ) ثالثی کی طرح کام کرتے ہیں۔

Arbitration  بھارت میں ایک قانونی متبادل ہے جس میں  دو فریقین یا پارٹی ریٹائرڈ ججوں کو ثالثی کے طور پر مقرر کرتی ہے اور وہ عدالت کے باہر مصالحت کروا کر مقدمات کو حل کرتے ہیں۔

ہمارے ملک میں انفراسٹرکچر، تعمیرات، درآمد برآمد ٹرانزیکشن، اسٹاک ایکسچینج اوردیگر شعبوں میں عام طور پر اکثر ثالثی Arbitrate  ہی فیصلے کرتے ہیں۔

ہمارے ملک کی دیگر کمیونٹیوں میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کے معاملات کو ثالثی Arbitrateکے ذریعہ حل کروائیں جس کے لیے وہ برادری میں معتبر اور صاحب عدل شخصیات سے  ثالثی کے طور پر فیصلے کرواتے ہیں۔

گاوں میں سرپنچ یا خاندان کے معزز بزرگ معاملات کو حل کرتے ہیں۔ پنچایت سمیتی، لوک عدالتیں، نیائے پالیکا ثالثی Arbitration  کی ہی ایک شکل ہیں۔ کیوں میڈیا نے اس پر کبھی بحث نہیں کی؟

اگر مسلم پرسنل لا بورڈ  دارالقضا ہر جگہ قائم کرنا چاہتی ہیں تو یہ کوئی نئی پہل نہیں ہے۔ کیوں یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ عدلیہ اورملک کے خلاف ہے۔ دارالقاز گزشتہ کئی سالوں سے کام کررہا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے کئی مسلک اور ادارے اپنی دارلقضا میں لوگوں کے فیصلے کرتے آئے ہیں۔

امارت شرعیہ بہار نے 50،000 مقدمات کو حل کیا ہے، دہلی ، لکھنئو، حیدرآباد، ممبئی میں دارالقضا میں گزشتہ کئی سال سے خاندان کے معاملات کو حل کیا جاتا رہا ہے۔

جما عت اسلامی ہند جو کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ  کے اس فیصلے کی تائید کرتی ہے اور امیر جماعت بورڈ کے رکن بھی ہے۔ خود جماعت ہندوستان کے کئی شہروں میں  دارالقضا کے ذریعے فیملی مسائل طلاق ، خلاء وراثت کے معاملات کا حل نکالتی رہی ہے۔ یہ عدالت کی نجکاری نہیں ہے۔

7 جولائی 2014 سپریم کورٹ نے وشنو لوچا مدن کیس میں خد کہا ہےکہ شریعہ کورٹ/ شرعی عدالت عدالت نہیں ہے۔ دارالقضا طلاق، خلاء، وراثت، گھریلو معاملات کے متعلق ایسے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ جسمیں خاندان فوری فیصلے چاہتے ہے تاکہ بہت پیسہ اور وقت ضائع نہ ہو۔ اسکے لیے شرعی پنچایتیں اور تصفیہ کمیٹیاں قائم کی گئی،تاکہ اگر مسلمانوں کے درمیان عائلی اور دیگر معاملات میں تنازعات ابھریں تو وہ انھیں ملکی عدالتوں میں لے جانے کے بجائے اسلامی عدالتوں میں لے جائیں اور وہاں سے جو فیصلے ہوں انھیں بہ خوشی قبول کریں۔

جماعت اسلامی ہند کی ہمیشہ سے ہی یہ کوششیں رہی ہے کہ شریعت اسلامی سے مسلمانوں میں واقفیت ہو اور اپنے مسائل کے حل کے لیے وہ دارالقضاء کو خصوصی اہمیت دے اور اس سلسلے میں اپنے مختلف پروگراموں  میں پرسنل لاء بیداری، شرعی قوانین سے واقفیت جیسے اہم نقاط سے ملت کو روشناس کرتی رہی ہے۔ تاکہ اپنے تنازعات کےفیصلے اللہ اور اسکے رسول کے مطابق کیئے جائیں۔ اسی لیے اپنے باہمی معاملات کو حل کرنے کے لیے دارالقضاء کا قیام مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور اسلامی شریعت کے تحفظ کی مثبت اور عملی کوشش بھی ہے۔‘

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ مضامین

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply