زندگی اور موت کا مسلۂ

‫‫زندگی اور موت کا مسلۂ!!!
دھاندلی، دھاندلی اور پاناما، پاناما کھیلتے کھیلتے ن لیگ کی حکومت کو ساڑھے چار سال گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں تمام سیاسی جماعتیں نے خوب پوائنٹ اسکورنگ کی۔ کرپشن اور دھاندلی کا خوب ڈھول پیٹا گیا۔ ہماری تمام تر سیاسی قیادت نے قوم کو کس طرف لگا رکھا ہے؟ زندگی اور موت کا مسلۂ صرف اور صرف حکومت گرانا یا بچانا بنا ہوا ہے۔‬
‫معروف سیاسی رہنما جن کی آف شور کمپنیاں اور اولادیں لندن اور پیرس میں ہیں حکومت پاکستان میں کرتی ہیں۔ پاکستان کے عوام کو بھی چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کی عادی بنا دیا گیا ہے کوئی سوچتا ہے نہ دیکھتا ہے چالیس سالوں سے دو خاندانوں کی غلامی کروائی جارہی کبھی ایک نعرہ لگوا کر تو کبھی دوسرا نعرہ لگوا کر نہ تو روٹی کپڑا اور مکان کسی کو غریب کو میسر آیا اور نہ تخت لاہور کسی غریب کے چولہے کو ایندھن مہیا کرسکا۔‬
‫ہر دس بارہ سالوں کے بعد آمریت کا آسیب بھی رونما ہوتا رہا وہ بھی چند خوش کن نعروں اور خوابوں کا سوا کچھ نہ کرسکا۔‬
‫احتساب کے نعرے سیاسی حکومتیں بھی لگاتی رہی اور آمریت کے دور میں بھی شور ڈالا جاتا رہا لیکن کرپشن ہے کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔ جس کو موقع ملا رہا ہے ابا کا مال سمجھ کر کھائے جارہا ہے اور اس بہتی گنگا میں سیاستدان تو کیا بیورکریسی اور ملٹری اسٹیملشمنٹ سب نے خوب نہایا۔‬
‫جب پورا آوئے کا آؤاہ ہی بگڑا ہو ا ہے تو کون کس کا احتساب کرے گا؟
‫آج نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد وہی رام کہانی سننے کو ملی وہی مظلومیت کی داستانیں جن کو سنتے سنتے کان پک چکے ہیں۔ جے آئی ٹی سے کچھ برآمد ہوگا؟ دھاندلی کیس سے کیا برآمد ہوا تھا جو جے آئی ٹی سے کچھ نکلے گا!‬
‫میں تو عرصے سے لکھ رہا ہوں کہ جن کا احتساب ہورہا ہے، جو احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں اور جو احتساب کررہے ہیں ان سب کا احتساب ہونے کی اشد ضرورت ہے۔‬
‫عمران خان کو عدالتیں اشتہاری قرار دے چکی ہیں ایک اشتہاری ملزم دوسرے کرپٹ ملزم کےاحتساب کا مطالبہ کررہا۔ جب چور منصف بن جائیں تو وہ ڈاکوں کا کیا احتساب کیسے کریں گے؟‬
‫یہ تمام کرپٹ سیاستدان اپنے سوا سب کو چور گردانتے ہیں ان سب کی شہرت اس قابل ہے کہ دوسرے پر فتوی جاری کریں؟‬
‫دوسری طرف اعلی عدلیہ کا حال بھی بے حال ہے پانامہ کرپشن کیس میں اعلی عدلیہ کے جج صاحبان نے جس طرح کے الفاظ استعمال کئے وہ اعلی عدلیہ کے وقار کے منافی ہیں۔ جے آئی ٹی نے تو ساری کسریں ہی پوری کردی ہیں۔‬
‫جہان ساڑھے چار سال گزر چکے ہیں، یہ چھ ماہ بھی ٹوپی ڈرامہ میں گزرجائیں گے۔ پھر الیکشن، پھر وہی اقتدار کی رسہ کشی، پھر وہی گالی گلوچ۔ ان سیاستدان سے کون پوچھے گا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں آپ نے عوام کے فلاح و بہبود کے لئے کیا کیا؟‬
‫مہنگائی کتنی بڑھی؟‬
‫بیروزگاری میں کتنا اضافہ ہوا؟‬
‫تعلیمی حالت کیا رہی؟‬
‫نیشنل ایکشن پلان کا کیا بنا؟‬
‫ضرب عضب، ردالفساد میں کیسے تبدیل ہوا؟‬
‫اور بے شمار مسائل کا کیا حل نکلا؟‬
‫کیا ن لیگ پانچ سال حکومت کے مزے لینے کے بعد کسی پیمانے پر جوابدہ ہو سکتی ہے؟‬
‫کیا تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اپنے اپنے صوبوں میں شاہی طرز حکومت کا کوئی جواب دے سکتی ہیں؟
‫پشاور اور لاہور میں ینگ ڈاکٹرز آئے دن پولیس سے پیٹ رہے ہوتے ہیں، مریض اسپتالوں تک پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ رہے ہیں!‬
‫لیکن کسے پرواہ ہے؟‬
‫کیونکہ زندگی اور موت کا مسلۂ تو حکومت گرانا یا بچانا جو ٹھہرا!!!!‬

Facebook Comments

راجہ کاشف علی
سیاسی اور سماجی تجزیہ نگار، شعبہ تعلیم سے وابستہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply