اپنے فن کا خدا۔۔۔حسنین چوہدری

20نومبر 1916 ء کو خوشاب کے ایک نواحی گاؤں انگہ کے ایک گھر میں خوشی منائی جا رہی تھی،غلام نبی کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا تھا،غلام نبی نے سجدہ شکر ادا کیا۔۔ وہ نومولود بچے کو لے کر خانقاہ پر گئے، غلام نبی ایک صوفی تھے۔ اور قلندرانہ طبیعت کے مالک تھے۔انہوں نے عہد کیا کہ یہ بچہ میں خدا کی راہ پر قربان کروں گا۔جب وہ بچہ تھوڑا سا بڑا ہوا تو اسے وہیں انگہ کے ایک مدرسے میں قرآن پڑھنے کے لیے  بٹھا دیا گیا۔ بچے نے سکول پڑھنے کی ضد کی تو اسے سکول میں داخل کرا دیا گیا۔
بعد ازاں اسے چچا حیدر شاہ کے پاس بھیج دیا گیا،جہاں اسے شاعرانہ ماحول میسر آیاگورنمنٹ ہائی سکول بہاولپور سے امتیازی نمبروں سے میٹرک کیا، پھر مزید پڑھنے کے لیے  بہاولپور بھیج دیا گیا جہاں سے اس نے بی اے کیا۔۔بچے کو پڑھنے کی لگن تھی، گیارہ سال کی عمر میں 1927 کو پہلا شعر کہا۔استاد سے شاباش ملی،بچے کو آسرا ہوا اور مزید شعر کہنا شروع کر دیے۔
1931 کی بات ہے جب مولانا محمد علی جوہر وفات پا گئے، بچے کو مولانا سے شدید لگاؤ تھا،اس نے مولانا کی وفات پر ایک نظم لکھی اور روزنامہ سیاست کو بھیج دی،روزنامہ سیاست لاہور سے نکلا کرتا تھا۔نظم اس قدر عمدہ تھی کہ روزنامہ والوں نے سر ورق پر مولانا جوہر کی تصویر کے ساتھ چھاپی، جب نظم چھپی تو ادبی حلقوں نے خوب سراہا  اور یقین نہ کیا کہ یہ ایک سولہ سال کے بچے کی نظم ہے۔ وہ بچہ بی اے کے لیے  لاہور آگیا۔ یہاں اسے شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،دو دو دن فاقے سے رہنا پڑا،شاعری میں نام تھا نہیں کہ نظم چھپوا کر روٹی چلائیں۔۔
غرض اسی بیچ اس کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ بچہ اختر شیرانی کی شاعر ی کا مداح تھا،ملاقات ہوئی تو اختر اسے عزیز رکھنے لگے، بی اے پاس تھا سو اختر نے نوکری بھی تلاش کی،اختر صاحب کی صحبت کا بچے پر بہت اثر ہوا،اختر شیرانی بلا نوش تھے اور ہر وقت نشے میں ہوتے لیکن اس بچے نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔اختر کے ساتھ رہتے ہوئے ہی اس نے اپنا تخلص چنا  ا ور باقاعدہ شاعری شروع کی۔ بچے نے اپنا تخلص ندیم رکھا،جب ندیم نے اپنی غزل رسالے کو بھیجی تو اس کا نام چھپا  ” احمد ندیم قاسمی “۔
احمد ندیم قاسمی نے اختر کی کتابوں کا بھرپور مطالعہ کیا،عربی ، پنجابی ، فارسی اردو تو گھر کی زبان تھی،انگریزی کالج میں تعلیم حاصل کرنے  سے آگئی، ڈٹ کر انگریزی کلاسیکل اور ماڈرن لٹریچر کا مطالعہ کیا، فارسی اور عربی کی شاعری بھی پڑھی اور جب مطالعہ سے تھک گئے تو لکھنا شروع کر دیا اور افسانہ لکھا۔۔افسانہ چھپا،تو ہر  سو  دھوم مچ گئی۔امتیاز علی تاج نے قاسمی کو بلایا اور کہا ” احمد ندیم قاسمی ! تمہارے اندر چھپے ہیرے کو میں نے پہچان لیا ہے۔اپنے رسالے کی ادارت تمہارےسپرد کرتا ہوں “اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں۔۔ قاسمی کسمپرسی کی حالت میں تھے،انہوں نے فوراً  پیشکش قبول کر لی،امتیاز علی تاج کے رسالے کا نام پھول تھا اور یہ بچوں کا رسالہ تھا، اب بھی نکلتا ہے۔
قاسمی نے اسی زمانے میں بچوں کے لیے بہت سے کہانیاں اور نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت مقبول ہوئیں،یہ سب پھول میں چھپا کرتی تھیں،پھول کے بعد انہوں نے ادب لطیف نامی رسالے کی ادارت سنبھالی،یہ بہت بڑا ادبی رسالہ تھا،احمد ندیم قاسمی کا مدیر بننا کسی اعزاز سے کم نہ تھا،یہ 1943 کا سال تھا۔۔۔دو سال نوکری کے بعد ریڈیو پاکستان پشاور میں بھرتی ہو گئے اور تین چار سال تک وہیں کام کرتے رہے ،تقسیم سے تقریباً  سال بعد واپس لاہور آگئے، نوکری کرنے سے ان کی مالی حالت اچھی ہو چکی تھی لہذا ان کی ملاقات ہاجرہ مسرور سے ہوئی،ہاجرہ ابھرتی ہوئی عمدہ افسانہ نگار تھیں،قاسمی نے ایک منصوبہ پیش کیا کہ میں ایک خالصتاً  ادبی رسالہ نکالنا چاہتا ہوں،ہاجرہ مسرور نے ساتھ دینے کی ہامی بھر لی۔۔۔ یہاں سے انہوں نے اردو کے مشہور ترین ادبی رسالے ” نقوش ” کی ابتدا کی!
نقوش بہت بڑا رسالہ تھا، قاسمی کافی عرصے سے ترقی پسند تحریکوں سے وابستہ تھے،انجمن ترقی پسند مصنفین میں تو 1936 میں ہی شامل ہو گئے تھے جبکہ باضابطہ شاعری ان کی 1937 میں چھپنا شروع ہوئی”زمیندار “میں ان کی شاعری چھپا کرتی تھی، جب انجمن نظریاتی طور پر متشدد ہو گئی تو وہ اس سے کنارہ کش ہوگئے۔قاسمی پر الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ کمیونسٹ ہیں،لیکن قاسمی نے اس کی تردید بھی کی۔ لیکن کئی جگہ پر خود کو کمیونسٹ کہتے پائے گئے۔
ایک بار کسی نے پوچھا” قاسمی کیا تم کمیونسٹ ہو ،؟اس دور میں کمیونسٹوں کو ملحد سمجھا جاتا تھا۔قاسمی نے فوراً  تردید کی اور کہا ” میں مسلمان ہوں،لیکن تھوڑا ترقی پسند ہوں،لہذا ہلکا پھلکا کمیونسٹ سمجھ لو  بلکہ ایک شعر سنو ، اور اپنا یہ شعر سنایا
بھوک مانگے کوئی انساں تو میَں چیخ اُٹھتا ہوں
بس یہ خامی ہے مرے طرزِ مسلمانی میں!
قاسمی کے افسانوں میں معاشرے کا پردہ بری طرح چاک کیا گیا ہے۔کرشن چندر   اور منٹو ان کے  ہم عصر افسانہ نگار تھے،منٹو نے تو اپنے ہاتھ میں نشتر پکڑ لیا تھا اور دائرے لگا لگا کر معاشرے کو چبھوتے تھے۔قاسمی نے ایسا کرنے سے گریز کیا لیکن منٹو کو روکا نہیں، جب سب نے منٹو کو فحش نگار سمجھا تب بھی قاسمی نے منٹو کو فحش نگار تسلیم نہ کیا، منٹو کی مالی مدد بھی کی  بلکہ قاسمی اس قدر ترقی پسند تھے کہ منٹو کے کئی افسانے جن پر فحاشی کے الزام لگے قاسمی نے بلا دھڑک چھاپے،ان کی شاعری میں بھی ہمیں ایک ہلکی پھلکی بغاوت نظر آتی ہے، جس میں وہ جبر و استحصال سے آزادی کی چاہ رکھتے ہیں اور ایک محبت اور انسانی دوستی کے محل تعمیر کرتے ہیں،استحصالی نظام کے خلاف انہوں نے نظموں کے تیر برسائے، اُن کے افسانوں میں بھی سماجی اورمعاشی ناہمواریاں، مروجہ نظام ِزر کے تضادات اور اس کے نتیجے میں انسانی اذہان میں پلنے والی منافقتیں اس قدر واضح طور پر نظرآتی ہیں کہ بسااوقات انسان کی روح چیخ اُٹھتی ہے،
وہ ایک کہنہ مشق قلم کار تھے،ان کے افسانے ، کالم ، پڑھتے ہوئے انسان بیک وقت جذباتی ، رنجیدہ اور قہقہہ مارنے لگتا ہے۔سماجی اور معاشی ناہمواریوں کے خلاف لطیف پیرائے میں وہ متاثر کن باتیں لکھ جاتے ہیں.ان کی جڑیں ہماری ثقافت میں بہت گہری ہیں، خاص کر پنجاب کا ذکر جس طرح ان کے افسانوں میں نظر آتا ہے،وہ اردو کے کسی اور قلم کار کے ہاں نہیں۔ان کا بچپن پنجاب کے گاؤں  میں ہی گزرا تھا لہذا وہ گاؤں  کی رسومات ، تہذیب و ثقافت سے آگاہ تھے،ان کے افسانے اس کا واضح ثبوت ہیں۔
دیہی پس منظر کا نقشہ جو الفاظ میں قاسمی کھینچتے تھے وہ بیان کرنا ممکن نہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ دیہی پس منظر میں لکھے گئے ندیم کے افسانے ہمارے دیہاتی زندگی، وہاں کی طرز معاشرت، رہن سہن، طبقاتی نظام، معصومیت اور الہڑ پن کے دلکش جیتے جاگتے مرقعے  ہیں۔اس دور کے تمام ادیبوں کی طرح قاسمی کے ہاں بھی ظلم و جبر اور جنگ سے نفرت پائی جاتی ہے،جنگ عظیم کے اثرات بھی ان کے یہاں نظر آتے ہیں۔پھر فسادات کی جھلک منٹو ہی کی طرح قاسمی کے ہاں بھی ملتی ہے، قاسمی اور منٹو کا مزاج اس معاملے میں ایک جیسا ہی تھا،دونوں فسادات کے متعلق غیر جانبدار تھے اور ہندو مسلمان دونوں کو قصور وار ٹھہراتے۔
ان کے ہاں موضوعات کا تنوع بھی پایا جاتا ہے، جس کا اندازہ ان کے کالم سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو وہ امروز میں 28 سال تک لکھتے رہے۔ قاسمی کے فن پر کئی کتب لکھی جا سکتی ہیں  لیکن کسی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے
” ندیم کے افسانوں میں زمین اور انسان سے ان کی بے پایاں محبت اور بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔ ان کا تخیل پنجاب کی فضاؤں  میں چپے چپے سے روشناس ہے اور اس نے لہلہاتے کھیتوں، گنگناتے دریائوں اور دھوپ میں جھلستے ہوئے ریت کے ذروں کو ایک نئی زبان دی ہے، نئی معنویت عطا کی ہے۔ پنجاب کی رومانی فضاءاور وہاں کے لوگوں کی معصومیت و زندہ دلی، جرات وجفاکشی اورخدمت و ایثار کی تصویریں ان کے افسانوں میں آخر لازوال ہو گئی ہیں۔ ان کے ہاں غم و غصے، تعصب و نفرت اور تنگ نظر و تشدد کا شائبہ تک نہیں۔ ہر کہیں مہر و محبت، خلوص و وفااور صدق و صفا کا سونا چمکتا محسوس ہوتا ہے اوریہی ان کی بڑائی کی دلیل ہے”
 وہ پچاس سے زیادہ کتب کے مصنف تھے۔جن میں ان کے ڈیڑھ درجن کے قریب افسانوی مجموعے ، تنقیدی کتب ، خطوط ، شاعری کی کتب شامل ہیں، ان کے مشہور شاگردوں میں گلزار اہم مثال ہے۔گلزار انہیں بابا قاسمی کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ ان کی وفات پر گلزار نے یہ اشعار لکھے۔۔
حواس کا جہان ساتھ لے گیا
وہ سارے بادبان ساتھ لے گیا
بتائیں کیا ، وہ آفتاب تھا کوئی
گیا تو آسمان ساتھ لے گیا
کتاب بند کی اور اٹھ کے چل دیا
تمام داستان ساتھ لے گیا
میں سجدے سے اٹھا تو کوئی بھی نہ تھا
وہ پاؤں  کے نشان ساتھ لے گیا!
بڑے انسان کبھی مرتے نہیں ،ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔قاسمی اگرچہ 10 جولائی 2006 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے ان کی وفات لاہور میں دمے کے سبب ہوئی۔وفات کے وقت ان کی عمر نوے سال تھی لیکن قاسمی واحد نام ہے جو قیامت تک بطور شاعر ، افسانہ نگار ، صحافی ، محقق ، فلسفی اور ادبی تنقید نگار کے طور پر لیا جاتا رہے گا،بقول قاسمی۔۔۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا!

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply