مکالمہ اور ویلنٹائن ڈے

مکالمہ اور ویلنٹائن ڈے

اس بات پر دو رائے نہیں کہ دانش کی نمو مکالمہ کے فضا میں ہی ممکن ہے. دانش اور فکری ارتقاء کا محرک جب علمی مکالمہ بنتا ہے. تو فریقین میں ہر ایک کے سامنے کچھ نئے امکانات کے دریچے کھلتے ہیں. جن میں سرِ فہرست اپنی بات کی حتمیت سے اعتقاد اٹھنا ہے. قطعیت کے ساتھ گفتگو نہیں جدال ہوتا ہے. مخاطب یا مخالف کا مکمل رد متکلم کیلئے یک گونہ سکون اور خود اطمینانی کا سبب تو بن سکتا ہے. لیکن اپنے موقف پر حریف کو اس طرز سے قائل نہیں کیا جاسکتا.
عہدِ حاضر میں جب کہ دنیا دو بڑے فکری خیموں میں بٹ رہی ہے. ایک طرف اہلِ مذہب کا مقدمہ ہے. دوسری طرف وہ فکری نمائندگی ہے جو اپنے وجود کو عقلیت پسندی اور غیر خدائی کائنات کی تعبیر تسلیم کرتی ہے.
ہر دو طبقات بجائے اصولی اور بنیادی مناہج پر بات کرنے کے جزئیات اور فرعیات کے میدانوں میں چند طعنوں، پھبتیوں اور طنزیہ جملوں کو شہہ چالیں سمجھ رہے ہیں. اور طرفہ تماشا یہ کہ طرفین سے ان فکری بحثوں کے ذیلی مسائل میں بھی جادہ کلام کے رہنما قوانین کی خلاف ورزی ایک عمومی روش بنتی جارہی ہے.
اہلِ اسلام کے سب سے قوی مستدل قرآنِ مجید کا طرز مکالمہ دیکھئے. بہ حیثیت ایک مسلم کے اسلام کے مقابلے میں کسی نظرئیے یا عقیدے کی درستی کا قائل نہیں ہوا جاسکتا. قرآن اللہ رب العزت کی طرف سے انسانوں کی طرف نازل کردہ حق کی طرف بلانے والی ایک محکم کتاب ہے. خود اللہ تعالٰی ان الفاظ میں دعوت فکر دیتے ہیں. باوجود اس کے کہ اللہ رب العزت ہر سچائی سے بڑی سچائی ہے. اپنے نہ ماننے والوں کیلئے اس رب کا قائل کرنے کا انداز کیا ہے؟
کیا قرآن ہر وقت اسی بات کی تکرار کرتا ہے کہ اے کافرو تم سب غلط ہو. تمہارے آباء و اجداد بھی غلط تھے. صرف اللہ کو ماننے والے درست ہیں..
نہیں بلکہ قرآن کہتا ہے اچھا آپ حق پر ہیں لیکن ذرا اس اپنی حقیت پر غور و فکر تو کیجئے. قرآن دل میں اترنے والے اسلوب سے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے. قرآن خدا کو نہ ماننے والوں پر طنز نہیں، ان سے تدبر کی “درخواست” کرتا ہے.

أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ.

شکوہ ہم مگر ارباب فکر کے سامنے یہ لیکر آئے ہیں کہ بنیادی اور اصولی نظریات پر بات کی بجائے لامذہب حضرات کسی جزئی واقعے کے ضمن میں مذہب پر اشکال لیکر سامنے آتے ہیں. دوسری طرف مذہبی فکر کا حامل طبقہ اسی اسلوب میں جواب دینے سے معاملے کو لاینحل انجام کی طرف لے جاتا ہے.
اس کی ایک مثال ویلنٹائن ڈے پر طرفین سے سامنے آنے والی تحریروں کا ایک سرسری جائزہ لیکر حاصل کی جاسکتی ہے. مذہبی حضرات کی تحریروں کا ایک جزئیہ یہ بھی تھا کہ اگر ویلنٹائن ڈے کے حامی حضرات اس دن کے اتنے ہی حامی ہیں تو اپنے گھروں سے ابتداء کریں. اپنی بہن بیٹی کو بھی اجازت دے.
بلاشبہ یہ قابل مذمت رویہ ہے. شخصی تنقید سے بڑھ کر یہ کسی کی حرمت پر دست درازی ہے. اگر کسی بہن کا بھائی ایک مخصوص نظریہ رکھتا ہے تو کسی اصول اور قانون سے کسی بھی طعنے کا ہدف وہ بہن نہیں بن سکتی. ردعمل اس سے بھی زیادہ خوف ناک دیکھنے کو ملا. اور یہ پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ اس بری رسم کے حامی طبقات کی بعض تحریروں میں دبے الفاظ میں اپنی بہن بیٹی کیلئے اس رسم کی گنجائش پر دبی زبان میں بات کی گئی.
ردعمل کا یہ جوابی بیانیہ تمام الہامی تعلیمات کے تو خلاف ہے ہی. سلامتی طبع اور فطرت انسانی بھی اس سے یکسر انکاری ہے. لیکن کیا کیا جائے کہ اس انتہا پر حریف کو میرے ہی مورچے کے کچھ طعنہ زن ساتھیوں کی پھبتیوں نے مجبور کیا ہے.
بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں.
بشیر بدر نے کہا تھا.

اگر بیٹی کی شادی ہو تو پھر کوئی نہیں دشمن
مری بستی کی یہ مخلص کہاوت اب بھی زندہ ہے

قرآن مجید کہتا ہے

ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدوا بغير علم.

Advertisements
julia rana solicitors london

شاد مردانوی

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply