آپ کی توجہ چاہتاہوں

جناب عالی میں آج ایک بہت اہم بات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہا ں اکثر روز مرہ استعمال کی چیزیں ریڑھی والوں ،چھا بڑی والوں سے ملتی ہے۔ہماری معاشی حالت کے پیش نظر، یہ کلچر ہمارے ہاں بہت عام ہے اور ہم سب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ ہم جب ان سے کچھ چیزیں خریدتے ہیں ،تو پیسے کم کرواتے ہیں ۔ہماری کوشش ہوتی ہے ہمیں یہ چیز نصف قیمت پہ مل جائے ۔
قارئین یہ لوگ اپنے اس روزگار سے بمشکل چار پیسے کما کے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔یہ جو مہنگائی کا طوفان ہمارے ملک میں آیا ہوا ہے اس کے بارے میں میرا خیال ہے کسی باشعور انسان کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس شدید مہنگائی کے دور میں غریب کس تکلیف سے اپنے خاندان کے لئے دو وقت کی روٹی کماتا ہے یہ آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔دوسری طرف بڑی بڑی مارکیٹیں اور شاپنگ مالز ہیں اور مشہور برانڈز ہیں ،جیسے باٹا ،سروس،آوٹ فیٹس،جنت مال وغیرہ وغیر ہ ،مجھ سے زیادہ آپ سینکڑوں برانڈز کو جانتے ہوں گے ان کی قیمتیں فکس ہوتی ہیں اور اوپر لکھی قیمت دینی پڑتی ہے ۔
یہ لوگ جو روزانہ لاکھوں کا کاروبار کرتے ہیں اور مہینہ میں لاکھو ں کماتے ہیں آپ ان سے ذرا بھی بارگیننگ نہیں کرتے ایک روپیہ بھی کم نہیں کرواسکتے ۔لیکن ان غریب لوگوں سے کیوں سودے بازی کرتے ہیں؟باٹا کی چپل لینے جائیں تو چپ کرکے بلکہ بڑی خوشی سے ۱۹۹۹روپے دے کے آئیں گے، جبکہ کسی ریڑھی والے سے جراب کا جوڑا بھی لیں اور وہ سو روپے مانگے تو ہم پچاس دے کے بھی خوش نہیں ہوتے۔میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ وہ چیز کوالٹی میں بھی کم ہو گی اور دوکاندار قیمت بھی زیادہ مانگتا ہے مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ وہ باٹا کی طرح پورے ملک میں فرنچائیز شاپس کھول کے نہیں بیٹھا، اس نے بڑے بڑے پلازے اور شاپنگ مال نہیں بنانے وہ صرف اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کمانا چاہتا ہے۔ اسلئے ان لوگوں کو اگر آپ بیس تیس یا ، پچاس ساٹھ روپے بھی اوپر دے دیں گے تو کیا ہوجائے گا ۔اس غریب کے معصوم بچے اچھا کھانا کھا لیں گے ۔جناب عالی صرف پیسے ،بچت اور کوالٹی کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ اس سے ہٹ کے صرف انسانیت کے حوالے سے ہی سوچ لیا کریں اور ازراہ ہمدردی ہی انکو کچھ پیسے اوپر دید یں یہ سوچ کے کہ ایک غریب انسان صبح شام محنت کرتا ہے اور اتنی مہنگائی کا دور ہے اسکا گزارہ کتنا مشکل سے ہوتا ہو گا۔آپ جہا ں سینکڑوں ہزاروں روپے اپنے کپڑے جوتے وغیرہ خریدنے پہ خرچ کرتے ہیں وہا ں ایک غریب کو اگر تیس چالیس روپے اضافی دے دیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اس غریب کے بچے، ضرور دو وقت کی روٹی کھا لیں گے اور آپ کو اسکا اجر اللہ عزوجل ضرور دے گا۔
یہاں پہ ایک اور بات بھی ضرور ی ہے کہ آپ کسی جگہ دیکھیں کہ کوئی چھوٹا بچہ کوئی چیز بیچ رہا ہو جیسے اکثر بچے غبارے وغیرہ بیچتے ہیں اگرآپ نے ان سے کچھ نہ لینا ہو تو ،ازراہ ہمدردی انکو کچھ پیسے ہرگز مت دیں ،یہ سوچ کر کہ غریب کا بھلا ہوجائے ۔ایساکرنا اس بچے کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے۔کیونکہ پہلے تو وہ محنت کر رہا ہے مگر جب اسے اس طرح بلامشقت پیسہ ملنا شروع ہوا تو اسے کام چوری کی عادت پڑ سکتی ہے وہ بھیک مانگنے کی طرف مائل ہوسکتا ہے۔اسلئے اگر کسی کے ساتھ بھلائی کرنے کا ارادہ کریں تو اس سے کچھ نہ کچھ خریداری ضرور کریں تا کہ اس کے اندر کاروبار اور محنت کرنے کاشوق پیدا ہو ۔اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔آمین

Facebook Comments

حامدرضا
پیار اورادب میری پہلی ترجیح ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply