ریاست کی قوت نافذہ کس کے ہاتھ میں ہے؟۔۔۔تنویر افضال/قسط1

فیصلہ آگیا اور اس کےصاف و شفاف ہونے کے بارے میں اس سے زیادہ کیا کہا جائے کہ  دوست و دشمن سبھی کو پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ کیسا فیصلہ ہوگا۔ اس کے قانونی پہلوؤں کے بارے میں بھی ماہرین کی آرا سامنے آرہی ہیں اور پھر نگرانی کے مقامی اور بین الاقوامی نیٹ ورک بھی اس سارے معاملے کو مسلسل زیر جائزہ رکھے ہوئے ہیں۔  لہٰذا فی نفسہ یہ معاملہ بہت زیادہ تبصروں کا محتاج نہیں کیونکہ وقت ہی اس قسم کے معاملات کا سب سے بہتر منصف ہوا کرتا ہے۔

ان سطور میں صرف ایک پہلو کی جانب توجہ دلوانا مقصود ہے اور وہ ہے پاکستان میں سول و خاکی تعلقات۔ 16 اکتوبر 1951ء کو ملک کے  سب سے  پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو راول پنڈی کے کمپنی باغ میں دن دیہاڑے شہید کیے جانے کے بعد سے معاملات کی باگ ڈور منتخب عوامی نمائندوں کے ہاتھ سے نکل کر سفید و خاکی افسر شاہی کی دسترس میں جاچکی  تھی ۔ سفید افسر شاہی فوج اور سیاست دانوں کو ساتھ ملا کر جیسے تیسے مزید سات برس نکال پائی مگر اس دوران بندگان خاکی اس زعم میں بھی مبتلا ہوچکےتھے کہ ریاست کی قوت نافذہ کی حیثیت انہی کے ڈنڈے کو حاصل ہے چنانچہ سفید و خاکی گٹھ جوڑ کے آخری واقعہ  میں  سکندر مرزا نام کے ایک صاحب نے 7 اکتوبر 1958 ء کو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہوئے اُس آئین  ہی کو منسوخ کردیا جس نے انھیں پاکستان کے سب سے پہلے صدر مملکت کا عہدہ عطا کیا تھا۔ گویا وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا اور اس کا واضح مطلب یہ بھی تھا کہ ریاست کسی عمرانی معاہدے کی بجائے بندوق کی نال سے اپنا جواز تلاش کرنے کی راہ پر گامزن ہوچکی ہے۔ چنانچہ صرف بیس دن ہی گزرے تھے کہ شادی والے گھر میں  دعوتی سامان کرائے پر دینے والوں کی طرح بندوق برداروں نے بھی  سکندر مرزا صاحب کا دروازہ آن کھٹکھٹایا۔  رات کے اندھیرے میں انھیں براستہ کوئٹہ جلاوطنی کی راہ دکھائی گئی اور ان کی باقی ماندہ زندگی لندن کے ایک ہوٹل میں معاون منیجر کی ملازمت کرتے اور حکومت پاکستان سے اپنی پنشن اور دیگر واجبات کی درخواستیں  منظور کروانے کی خاطر جوتے گھساتے گزر گئی۔ خیر اُس روز کے بعد ہمارے ان غازیوں اور پراسرار بندوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

تاہم ان کے اپنے کارناموں کے باعث کبھی کبھار پہاڑ ان کی ہیبت میں سمٹنے سے انکاری ہوجاتے ہیں بلکہ انھیں بذات خود  رائی بن جانا پڑتا ہے۔ ایسے مواقع  پرہندی محاورے کے مطابق ہمارے سویلین راہنماخوش فہمی میں یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آچکا ہے اوراب تو گویا ہم نے پالا مار لیا ہے مگر یہ سول بالادستی کی لیلیٰ سے وصل کی خواہش بھی ایسی نامراد ہے کہ لب بام سے دوچار ہاتھ پہلے ہی  کمند تڑوا بیٹھتی ہے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو اس حوالے کی سب سے بڑی مثال ہیں۔  بھٹو صاحب کو بھی یہ خوش گمانی ہوچکی تھی کہ 20 دسمبر 1971ء سے ماقبل کی پاکستانی ہئیت مقتدرہ اور مسلح افواج وسیع پیمانے پر اپنےغلط فیصلوں کے باعث نہ صرف اپنی عوامی مقبولیت کھوچکے ہیں بلکہ پلٹن میدان والے سانحے کے بعد فوج کا مورال  بھی اپنی تاریخ کی پست ترین سطح پر ہے۔ اُن کا گمان تھا کہ وہ اپنی کرشماتی شخصیت کی بدولت بہت سے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتےہیں۔ اگرچہ یہ گمان بہت غلط بھی نہیں تھا لیکن غالباً  بھٹو صاحب کو ڈھیروں کام بہت کم مدت میں کرجانے کی جلدی تھی اور شاید اسی جلدی کا نتیجہ صرف اکیاون برس کی عمر میں ان کے رخصت ہوجانے کی صورت میں بھی نکلا۔

بھٹو صاحب کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ انھوں نے اس معاملے میں وردی والوں پر بھروسہ کرلیا کہ ایک ٹوٹی پھوٹی شکست خوردہ فوج کو ایک باعزت معاہدے کے ذریعے واپس لانے سمیت ان کے بہت سے احسانات ہیں اور نتیجے میں فوج اب اچھے پیشہ ور سپاہیوں کی طرح اپنی حدود میں رہے گی۔ مگر افسوس کہ یہ محض خوش گمانی ہی ثابت ہوئی اور صرف ساڑھے پانچ برس کے اندر ہی ان پیشہ وروں نے سب سے پہلے اپنے محسن ہی کا تختہ اُلٹا اور مزید پونے دو برس کے اندر انھیں تختہ دار تک بھی پہنچا دیا۔

اب اس کے بعد محمد خان جونیجو  ، بے نظیر بھٹو یا میاں محمد نواز شریف  ہوں یا پھرمیر ظفر اللہ جمالی اور سید یوسف رضا گیلانی، عوام کے ووٹوں سے منتخب  کوئی بھی وزیر اعظم کبھی بھی اس پوزیشن میں نہیں رہا ہے کہ وہ فوج کے کرتا دھرتا افسران پر آئین پاکستان کے احترام اور اپنی حدود و قیود میں رہنے کے حوالے سے کوئی دباؤ ڈال سکے۔

اگر ملک کی سیاسی تاریخ کا یہ طالب  علم اپنے محدود سے تعلقات اورغلام گردشوں تک نہ ہونے کے برابر رسائی کے باوجود ملک میں اقتدار اور طبقاتی تفاوت کے ڈھانچے کو بہت حد تک سمجھتا ہے تو اس کھیل کے اُن فعال کھلاڑیوں سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہوگی کہ سیاسی قیادت کو اپنا آپ منوانے کے ایک مرکزی نقطے کو ہدف بنا کر خا طر تسلسل کے ساتھ کن جہتوں میں پیہم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم آپ تو صرف خبروں کی بدولت اتنا جانتے ہیں کہ اس ملک کے اکیس کروڑ عوام کے مینڈیٹ کی توہین کس کس انداز میں کی گئی، کبھی ہمارے منتخب وزیر اعظم کو سیلیوٹ نہ کرکے، کبھی اُسے سکیورٹی رسک قرار دے کرتو کبھی بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہوئے  کہ ہم نے فلاں وزیر اعظم کو جوہری تنصیبات کا دورہ نہیں کرنے دیا۔ یہ منتخب وزراعظم تو ان حالات کا بذات خود سامنا کرتے چلے آرہے ہیں۔پھر بھی کبھی ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ہمارے اور اپنے مینڈیٹ کی اس حد تک تذلیل برداشت کرنے کی بجائے یہ منتخب عوامی راہنما حکومتی ایوانوں کو ٹھوکر مار کر اپنے اپنے حلقہ ہائے نیابت میں واپس چلے آتے اور رائے عامہ کے سامنے یہ بات رکھتے کہ انھیں  دستور ریاست اور پاکستان کے قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرنے دی گئیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

تنویر افضال
پاکستان اور عالمی سماج کا ہر حوالے سے ایک عام شہری۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply