دوستداری کا آزار

کسی غیر عظیم نیستی کی ماری ہوئی ہستی نے فرمانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کسی کی ذات جاننے کیلئے تم مجھے اس کے دوستوں سے متعارف کرادو میں تمہیں بتادوں گا کہ وہ کس خصلت کا انسان ہے ۔ہماری رائے میں یہ طریقہ بیحد طول رکھتا ہے نیز اس کے نتائج غیر یقینی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستا ن الیکشن کمیشن کے نتائج جیسے غیر شفاف بھی ہوسکتے ہیں، ہمارے کئی دوست اس لیے بھی ہمارے گہرے دوست ہوتے ہیں کہ ہمیں سرِ دست ہمارے مزاج کے دوست میسر نہیں ہوتے اور پھر کچھ مجھ ایسے مردم بیزار اور سدا کے خوار اس حد تک خونخوار طبعیت رکھتے ہیں کہ ہم مزاج دوست اگر مل بھی جائیں تو باہم ایک دوسرے کو اپنی خونخواری اور دل آزاری سے ہی چبالیں. اس لیے ہم دوستوں سے شخصیت کی پہچان کی بجائے گفتگو کو فیصل مانتے ہیں اور صدق دل سے اس پر یقین رکھتے ہیں کہ گفت و شنید ہی شخصیت، خاندان اور ذہنی مستوی کا اصل آئینہ ہوا کرتا ہے۔اور پھر کیا دوست داری ایک حاصل کرنے اور اس حصول پر اِترانے جیسی صفتِ بشری ہے کیا۔۔۔؟
میرا اولین تاثر یہ ہے کہ نہیں۔۔۔!

ہم اپنے روز و شب ہی کیا پہلی قلقاری سے دم آخریں تک اپنی نصف سے زیادہ عادات و اطوار اس نہاد پر رکھتے ہیں کہ انہیں ہمارے معلموں (ہمارے معلم ہمارے والدین سے لے کر ہمارے دشمنوں تک سبھی ہوتے ہیں) نے سچ مان لیا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ سچ ہوتے ہی نہیں لیکن بسا اوقات یہ ضرور ہوتا ہے وہ ہمارا سچ نہیں ہوتا یا اس سچ کی اہمیت ہماری سوچ اور طرز فکر کے لیے سود مند یا مضر نہیں ہوتی۔مثلاً دوست دار ہونا بہت ممکن ہے، میرے لیے کوئی مفید امر نہ ہو میں اپنی سرشت میں ایک بیزار کن اور دل آزار انسان ہوں شاعرِ بے بدل نے کہا تھا،
چبالیں کیوں نہ خود اپنا ڈھانچا
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم!

Advertisements
julia rana solicitors london

دوستی بس اس سے بھلی جو طلب کی خو سے پاک ہو ،میں کبھی تکلم تو کیا تخیل کو بھی کار گراں سمجھتا ہوں ایسے میں دوست کی دلداری کہاں سے کروں دوست ہوگا تو توجہ کا، انہماک کا، ساتھ کا، دسراہٹ کا متقاضی ہوگا ،میری نہاد میں خود سے جتنا عشق گوندھا گیا ہے اسی تناسب سے خود سے نفرت بھی میری جبلت رہی ہے اور یہ خود نفرتی کی کیفیت دوست کو بھلا کیسے سہے گی؟ میری ایک ناقابل عمل سی سوچ ہے، دوست ایسا ہونا چاہیے جو عطا ہو سر سے پاؤں تک، اس میں طلب کا شائبہ تک نہ ہو۔۔۔ ایک ادھوری نظم کا بند یاد آیا چاہتا ہے
تمہی نہیں ہو مری جاں، حسین اور بھی ہیں
زمانے بھر کی محبت بھی کس کے بس میں ہے
فنا کا زعم نہیں ہو بقا کی فکر نہ ہو
خدا کے بعد مگر کس کی دسترس میں ہے!!!

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply