جماعت اسلامی کا عزم نو۔۔۔شاہد یوسف خان

دو روز پہلے لاہور میں  عزم نو کنونشن  ہوا جس میں  جماعت کے مخلصین کی ایک بہت بڑی تعداد  آئی ہوئی تھی اور ان کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ لیکن کنونشن میں بیٹھے ایک صحافی دوست نے سوال کیا کہ یہ اتنے لوگ جلسوں میں تو پہنچ سکتے ہیں لیکن پولنگ  والے دن کسی اور کو ووٹ کیوں  ڈالتے ہیں؟    یہ سوال زیادہ تر ٹھیک نہیں ہے بہرحال کچھ درست بھی ہے۔

اس واقعے میں یہ  جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے  دیہاتوں میں اب بھی  مال مویشی کی چوریاں چکاریاں ہوتی رہتی ہیں ۔ جن سے بچاؤ کے لیے گاؤں کے لوگ اب بھی رات کو جاگتے رہتے ہیں  اور اگر  درمیانی رات کو کسی کونے سے زور سے آواز سنائی دے  تو گاؤں کے لوگ  یک آواز ہوکر جواب دیتے ہیں اور  جاگ جاتے ہیں،  پھر چوروں کو اگر پکڑ نہیں  بھی پاتے تو انہیں ڈرانے دھمکانے کے لیے “پکڑ لیا،پکڑ لیا” اور ساتھ ہوائی فائر کرتے ہیں ۔چور ڈر کے مارے ہی  مال چھوڑ کر  اپنی جان بچانے کے چکر میں نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے   ہمارے گاؤں میں بھی کچھ ایسا واقعہ ہوا لیکن وہ ذرا مختلف تھا، رات کے تقریباً دو بجے کسی نوجوان کی چیخ کی آواز سنائی دی، تو  سب نے اٹھ  کربندوقوں کی ہوائی  فائرانگ سے جواب دیے۔ پھر سب محلے کی سطح پر بھاگ کھڑے ہوئے اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گئے  کہ آواز کس نے دی اور کسی کی چوری تو نہیں ہوئی؟ خیر گاؤں کے لوگ بڑے جذباتی بھی ہوتے ہیں۔   پھر جب سب  محلے میں اکٹھے ہوئے  تو چند سمجھدار بزرگوں نے یہ استفسار کیا کہ  پہلے یہ بتاؤ کہ یہ آواز کہاں سے آئی تھی اور پہلا فائر کس نے چلایا تھا؟

پھر  پتہ چلا کہ ایک نوجوان نے نیند کی حالت میں چیخ ماری ، جب چاروں طرف سے  فائرنگ کی آواز آنے لگی تو وہ اور اس کے گھر والے مزید  خوفزدہ ہوگئے کہ باہر بھی کچھ ہوا ہے۔  ساری  چھان بین کے بعد   یہ پتہ چلا کہ اس نوجوان کی چیخ کے بعد فیس بک استعمال کرنے والے ایک  گھبرو نے دوسری جوابی چیخ   کےساتھ بندوق کا فائر کھول کر سب کو جگا دیا ۔ یہی حال جلسے میں آنے والے بیشتر لوگوں کا ہوتا ہے جو اپنے فارغ وقت میں جلسوں یا دھرنوں کو انٹرٹین کرنے جاتے ہیں  اور ووٹ والے دن بھی ان کا یہی حال ہوتا ہے جہاں رش دیکھا وہیں پرچی  ڈال دی۔۔

اگر آپ جلسوں میں عوام کی تعداد سے اندازے لگائیں تو یقیناً پاکستان میں جیسے حالات ہوئے اور جتنا ولولہ گزشتہ الیکشن سے پہلے جلسوں میں نظر آیا تو ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک بہت بڑے مارجن سے جیت جائے گی، لیکن  پولنگ والے دن ہی پتہ چل گیا تھا کہ لوگ صرف جلسوں میں انجوائے کرنے  یا وقت پاس کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ ووٹ تو پہلے ہی سے  دیے ہوئے ہوتے ہیں چاہے وہ  فقط وعدوں پر ہوں یا دو چار ہزار روپوں پر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باقی دوسرے اینگل سے دیکھیں تو یہ  اندازہ  ہوتا ہے کہ جلسوں میں آنے والے لوگ جن کی اکثریت ہوتی ہے چاہے وہ ووٹ کیوں نہ دیں لیکن جب وہ جلسے میں آئے ہیں تو یقیناً ان لوگوں  کو مائل کرنے میں کوئی کوتاہی ضرور ہے۔ لاہور جیسے شہر میں جماعت کے جتنے بھی جلسے ہوئے ہیں تو سب میں عوام کی بڑی تعداد  خواتین اور بچوں سمیت شریک ہوتی ہے ،لیکن این اے 120 میں ووٹوں کا تناسب دیکھا جائے  تو بہت کم لگتا ہے۔ حالیہ کنونشن میں لوگوں کا رش دیکھ کر جماعت اسلامی کی قیادت قدرے مطمئن نظر آ رہی تھی اور کچھ سیکھنے کے دعوے بھی کیے گئے، ساتھ آئندہ کے لیے پلاننگ اور منصوبہ بندی کی بات بھی ہوئی لیکن بات تو اس وقت بنے گی جب آپ جلسے میں آئے ہوئے لوگوں کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اس میں  اعلیٰ قیادت کی کمزوری سمجھ لیں یا پھر مقامی قیادت کی کمزوریاں ۔ آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں   میں بطور ایک عام آدمی  اپنے ضلع ڈیرہ غازی خان کی  جماعت کی قیادت سے کسی بھی قسم کی واقفیت نہیں رکھتا کہ جماعت کی مقامی قیادت کون ہے کیا اور کہاں ہے؟   جہاں سے داکٹر نذیرشہید ؒ سرداروں اور جاگیرداروں کو شکست دے چکے ہیں وہاں کے  عام لوگ جماعت سے واقفیت ہی نہیں رکھتے۔ اس عزم نو کو عہد نو بنا کر دوبارہ محنت کی ضرورت ہے جماعت کے لیے۔

 

 

 

Facebook Comments

شاہد یوسف خان
علم کی تلاش میں سرگرداں شاہد یوسف خان ایم اے سیاسیات اور صحافت مکمل کر چُکے ہیں ۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر سوالات کرتے رہتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply