بوگس رائیڈز ۔۔یہ زیادتی ہے/کے ایم خالد 

ابھی میں دفتر سے گھر پہنچا ہی  تھا کہ ڈور بیل کی آواز آئی، میں اندر جانے کی بجائے پھر باہر کی جانب چل پڑا دروازے پر عمیر کا دوست تھا ۔

’’جی فرمایئے‘‘۔ میں نے کہا
’’وہ انکل عمیر سے ملنا تھا ‘‘۔
’’اچھا میں بھیجتا ہوں ‘‘۔
ٹی وی لاؤنج میں حسب توقع عمیر ٹانگیں صوفے پر اونچی کئے موبائل سکرین پر نظریں گاڑے اس میں سے شاید کچھ برآمد ہونے کے انتظار میں تھا اس پر نہ میری آہٹ نے اثر ڈالا اور نہ ہی میرے پکارنے پر اس کی ’’یوگا‘‘کی پوزیشن تبدیل ہوئی ۔
’’وہ تمہیں واجد باہر بلا رہا ہے ‘‘وہ چھلانگ لگا کر سیدھا ہوا اورقریباً بھاگتا ہوا باہر کی جانب لپکا باہر سے اسی تیزی سے اندر آیا اور اپنا موٹر سائیکل لے کر باہر کی جانب لپکا
’’ کیا بات ہے ؟ کہاں جا رہے ہو ؟ کچھ بتا کر تو جاؤ ‘‘۔میں نے اس سے کہا
’’چاچو۔۔۔! جلدی ہے آ کر بتاتا ہوں ‘‘ ۔ وو تیزی سے باہر نکل گیا ۔

میں نے کھانا کھایا ،چائے پی اور ٹی وی پر خبریں دیکھنے لگا ۔اتنا تو میں جانتا تھا کہ واجد ہمارے سامنے والا گھر میں رہتا ہے اس کا باپ ایک شریف سرکاری ملازم ہے اور واجد ایک پرائیویٹ کمپنی اوبر میں اپنی ذاتی گاڑی چلاتا ہے ۔تقریباً  ایک گھنٹے بعد عمیر کی واپسی ہوئی ۔
’’کہاں چلے گئے واجد کے ساتھ تم نے کھانا بھی نہیں کھایا ‘‘۔
’’وہ چاچو کھانا میں نے اور واجد نے منال میں کھا لیا تھا ‘‘
’’منال میں اتنا مہنگا کھانا کھانے کی کیا ضرورت تھی گھر سے کھایا کرو ‘‘۔
’’ وہ واجد کی رائیڈ تھی بس اسی نے کھلایا ہے ‘‘۔عمیر نے جان چھڑانے والے لہجے میں کہا
’’کیا مطلب ۔۔۔۔؟رائیڈ اس کی اور تم اس کی سواری کے ساتھ ‘‘۔
’’نہیں ہم موٹر سائیکل پر منال گئے تھے ‘‘۔
’’میں کچھ سمجھا نہیں مجھے آسان الفاظ میں سمجھاؤ وہ تو اوبر میں گاڑی چلاتا ہے اگر اس نے رائیڈ بک کی تو اسے گاڑی پر جانا چاہیے  تھا وہ تمہارے ساتھ موٹر سائیکل پر کیوں گیا ۔۔۔؟‘‘
’’چاچو کچھ عرصہ سے بہت سے نوجوانوں نے کمپنی کے ساتھ بوگس رائیڈز کا دھندہ شروع کر دیا ہے وہ رائیڈ کا میسج میں نے ہی واجد کو اسی کے کہنے پر بھیجا تھا اس نے وہ رائیڈ بک کی میں نے موٹر سائیکل نکالا اور اس نے رائیڈ شروع کر دی ہم پہلے فیصل مسجد گئے وہاں سے ہم نے منال کا سفر شروع کیا کچھ دیر ہم دامن کوہ رکے پھر وہاں سے منال پہنچے کھانا کھایا اور واپس آگئے اس نے رائیڈ فائنل کی اور بل بنا پندرہ سو روپے ‘‘۔
’’لیکن اس فراڈ سے وہ کیسے فائدے میں رہا جہاں تک مجھے معلومات ہیں کپنی ان سے ان کی کمائی میں بیس فیصد کی حصہ دار ہے اس رائیڈ سے تین سو روپے تو کمپنی کو چلے گئے ‘‘۔میں نے حیرانی سے کہا
’’ بوگس رائیڈز صرف اپنی رائیڈز کا ٹارگٹ مکمل کرنے کے لئے کی جاتی ہیں جن سے ایک تو رائیڈز کا ٹارگٹ مکمل ہوتا ہے دوسرا ان کو ہفتہ وار بونس مل جاتا ہے جس سے ڈرائیورز فائدے میں ہی رہتے ہیں ‘‘ عمیر نے سب کچھ کھول کر بیان کر دیا ۔

’’کیا ابھی تک کپمنی اس فراڈ تک نہیں پہنچی ‘‘ میں نے نیا سوال کیا
’’ جی اوبر نے بہت سے ڈرائیورز کے اکاونٹ ایک ہفتے کی سزا کے طور پر بلاک کئے ہیں جن میں واجد بھی شامل ہے لیکن اب یہ ایسا چسکا لگ گیا ہے کہ باز نہیں آتے ‘‘۔

ہم پاکستانی کسی بھی اچھی سروس کے شاید لائق ہی نہیں ہیں رکشے اور ٹیکسی سروس کے کرائے مسافروں کی چیخیں نکال دیتے ہیں اگر کسی بین الاقوامی کمپنی نے پاکستان کو اس قابل جانا کہ اپنی سروسز کا رخ اس سرزمین کی طرف کیا تو ہم اپنے ہی لوگوں کے فراڈ کے طفیل محروم ہو جائیں گے پرانی کنڈم ٹیکسیاں اور رکشے اور ان کے کرائے ایسے ہیں جیسے آپ نے فراری بک کروا نی ہے ۔
اگر کریم اور اوبر کی بدولت عوام الناس کو اچھی گاڑیاں اور ایک باعزت سروس مل رہی ہے تو ایسے تمام بوگس رائیڈز ڈرائیورز کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے بلکہ کمپنی کو چاہیے  کہ کسی بھی ڈرائیور کو ایک ہفتے کی بجائے ہمیشہ کے لئے بلاک کرے تاکہ بوگس رائیڈز کے جراثیم پھیلنے کی بجائے سمٹ سکیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply