حقیقی شاعری اور حقیقی شاعر۔۔۔حسنین چوہدری

تخلص ہمیشہ سے شاعری میں اہم رہا ہے۔ پہلے شاعروں کی شاعری تخلص کے بل پہ چلتی تھی،مثلاً  بڑے شعرا کے تخلص چھوٹے تھے۔جیسے ، میر ، مومن ، ذوق ، آتش ، ناسخ۔۔لیکن ان کے معانی بہت بڑے ہیں۔بعض تخلص عجیب ہیں۔مثلاً  بریغازیہ ، مزدل حقیری ، رنجش مذکوری ، مرکش تندوروی ، مجلب دہقانوی ، اور خدا جانے کیا کیا کچھ۔۔

ایک وقت میں شعرا عجیب تخلص کرتے تھے۔۔ مثلاً  سلام مچھلی شہری ، تفنن بانک پوری ، اصغر گونڈوی ، مجمل دھیرج گنجوی ، ایک شاعر نے تو حد ہی کردی یعنی اپنا نام تخلص رکھ لیا۔تخلص بھوپالی۔ریختہ پر ان کی شاعری پڑھیے اچھے شاعر تھے۔ایک شاعر کیفی چڑیا کوٹی تھے۔ایک شعر دیکھیے ان کا،کیا ہی  عمدہ ہے!

مزا آیا ہے اُن کو چھیڑنے کا صحنِ گلشن میں
اُڑا جب رنگِ رُخ، رنگت نکھر آئی گلستاں کی

مشہور شاعر احمق پھپھوندوی کے متعلق ہم ہمیشہ پریشان رہے کہ موصوف احمق تھے یا انہیں پھپھوندی لگ چکی تھی،یا دونوں کام تھے۔

آئیے نئے شعرا کو دلچسپ تخلص تجویز کرتے ہیں، بلاوجہ ، آخر کیوں ، ہونہہ ، ہمیشہ ، کیا واقعی ، ٹھیک ہے۔۔۔یہ،تخلص بہت کار آمد رہیں گے۔ان کو استعمال بھی خوبی سے کیا جا سکتا ہے۔جیسے غوث خوامخواہ نامی شاعر نے اپنا تخلص کیا عمدہ استعمال کیا۔
؎’خوامخواہ ‘ چھیڑتی رہتی ہیں رخساروں کو
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے

ایسے ہی درج بالا تخلص بھی بخوبی استعمال کر سکتے ہیں۔

مجھے جو ذاتی طور پر تخلص پسند آیا وہ بیوقوف جرثوموی ہے۔ان کے دیوان کو جراثیم لگ چکے ہیں،لہذا وہ کھولنا نہیں چاہتا۔اور جناب ، امام المعانی حضرت گداگر ہڈ حراموی پر آتے ہیں۔کیا معانی آفرینی   ہے کلام مبارک میں۔۔ ان کا ایک شعر تو ضرب المثل ہے۔

؎”سو پشت سے ہے پیشہ آبا گداگری
کچھ کام کاج ذریعہ عزت نہیں مجھے”

واللہ میں شاعری کا مفصل مطالعہ کر چکا ہوں مگر ایسا جامع طور پر تخلص کا استعمال کہیں نہیں دیکھا،نام سے کافی میل کھاتا ہے یہ شعر۔۔مومن نے اپنا تخلص اردو کے تمام شعرا میں سب سے عمدہ استعمال کیا ہے۔یہ میرا خیال ہے مثلاً

؎کیوں سنے عرض مضطرب مومن

صنم آ خر خدا نہیں ہوتا ،

یا؎مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم ۔۔۔۔

لیکن گداگری اور ہڈ حرامی کا جو لطف گداگر ہڈحراموی کے شعر نے دیا ہے،ویسا مومن کے ہاں بھی نہیں۔ایک اور شعر ان کی قادر الکلامی ظاہر کرتا ہے۔

؎مجھ کو گداگری کا تجربہ نہیں ہنوز
گاہک کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

میں تو انہیں غالب کا ہم عصر مان چکا ہوں۔ایک شعر نے تو میری جان نکال دی۔۔فرماتے ہیں

؎ ہیں گداگر اور نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

ان کا یہ قصیدہ سارے کا سارا بہت عمدہ ہے،اپنی ہی شان میں لکھا ہے۔

مطلع تو قیامت ہے۔۔

؎صبح دم دروازہ مسجد کھلا
کس نے کھولا کب کھلا کیونکر کھلا

اگر ہم اسے گداگری کی نظر سے دیکھیں تو مسجد کا در گداگر کے لیے ورلڈ بینک سے کم نہیں۔یہی بات ، یہی دور اندیشی ان کے مطلعے میں ہے۔
ایک شعر ان کے ہڈحراموی ہونے پر مہر لگاتا ہے۔

؎دشت بے کاری میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
“کچھ نہ کچھ دے ” کی صدا ، اور ملنے کے سراب”

ساری اشعار اچھے نظم کیے ہیں،آخری اشعار تو کیا خوب ہیں۔۔

گداگر ہڈحراموی ایک انقلابی شاعر تھے۔۔ہمیشہ آمریت کے خلاف لڑتے رہے،ستر کی دہائی میں جب آمریت آئی اور بھیک مانگنے پر پابندی لگا دی گئی تو گداگر ہڈ حراموی کی بعض نظمیں اتنی مشہور ہوئیں کہ فیض احمد فیض کو بھی اس زمین میں کلام کہنا پڑا۔گداگر ہڈحراموی کی نظمیں ‘ حلقہ گداگران ذوق ‘ اور ‘ انجمن ترقی پسند گداگرین ‘ کی ادبی محافل میں زور و شور سے پڑھی جاتیں۔بھیک مانگنے پر لگی پابندی کو ہٹانے کے لیے انہوں نے ایک ایسی نظم لکھی کہ واللہ۔۔۔ذرا دیکھیے

؎ دو روپے ، جان شوریدہ کافی نہیں
باقی پیسے بھی پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں بمع کاسہ چلو
دست افشاں بمع دست کاسہ چلو
بھیک ہم کو ملے گی سبھی سے ضرور
حاکم وقت سے ، مجمع عام سے
چچا تیزگام سے ، بھائی انعام سے
بھائی دلشاد سے ، رام اور شیام سے
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
ہم فقیروں میں اب باصفا کون ہے
رخت دل باندھ لو ، بھک منگاروں چلو
پھر ہمی بھیک مانگ آئیں ، یارو چلو!

یہ نظم تو انقلاب لے آئی۔۔۔ن م راشد نے ایک نظم انہی کی چرائی تھی،انہوں نے سبا کو دنیا اور سلیماں کو انسان سے تشبیہ دی تھی جبکہ گداگر صاحب نے سبا سے مراد کنجوس دنیا سے لی تھی اور گداگر سربزانو سے مراد فقیروں کو لیا تھا۔

؎سبا ویراں ، گداگر سر بزانو
کنجوس اس دشت کے
اور دست زیر جیب
و
سرمہ در گلو انساں
سبا کنجوسوں کا مسکن
سبا کنجوسوں کا انبار بے پایاں
خیرات و بھیک و پیسے سے
جہاں خالی
ہوائیں تشنہ بھیکاں
گداگرسر بہ زانو ترش رو، غمگیں، پریشاں مو
جہانگیری، جہانبانی، فقط طرارۂ آہو،
محبت شعلۂ پراں، ہوس بوئے گل بے بو
ز راز دہر کمتر گو!

گداگر سر بزانو
اب کہاں سے قاصد فرخندہ پے آئے؟
کہاں سے، کس سبو سے کاسۂ فقیری میں مے آئے؟

ن م راشد نے یہ نظم چرا کر گداگر ہڈ حراموی کی قابلیت کو سراہا ہے۔گداگر ہڈ حراموی کی ڈیل ڈول کا علم کسی کو نہیں لیکن جو چند گواہیاں ملتی ہیں ان کے مطابق ان کی شرٹ پر لکھا ہوتا تھا ‘ آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا ‘۔۔

ان کی ایک فارسی غزل تو کسی نے ہوبہو چرالی ۔۔ صرف رقصم ( ناچنا ) کا اضافہ کر دیا
اصل میں بھیک مانگنے کے لیے انہیں کوئی صیغہ نہ مل رہا تھا اور انہوں نے بھیکم ( بھیک مانگنا ) کا صیغہ خود ہی ایجاد کر کے استعمال کیا۔

مطلع ہے۔۔۔

نمی دانم کہ آخر چوں سر بازار می بھیکم
مگر نازم با یں ذوقے کہ پیش یار می بھیکم

میں نہیں جانتا کہ سربازار کیوں بھیک مانگ رہا ہوں مگر مجھے ناز ہے کہ اپنے یار کے سامنے بھیک مانگ رہا ہوں.

تو آں کنجوس از بہر تماشا خون کنجوسی
من آں بسمل کہ زیر سکہ جھنکار می بھیکم

تو وہ کنجوس ہے جو محض تماشے کے لیے کنجوسی دکھارہا ہے  اور میں وہ بسمل ہوں جو سکوں کی جھنکار کے نیچے بھیک مانگ رہا ہوں۔۔

؎بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ کنجوساں
بہ صد سامان رسوائی سر بازار می بھیکم

آ میرے محبوب دیکھ ، کنجوسوں کی بھیڑ میں سیکڑوں رسوائیوں کا سامان لیے میں بھیک مانگ رہا ہوں۔۔

؎تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می بھیکم
بہر طرزے کہ بھیکانی ، منم اے یار می بھیکم

تو ہر وقت مجھے نغمیں سنا کر بھیک منگواتا ہے اور میں مانگتا ہوں۔۔اور جس طرز سے بھی کہتا ہے،میں اسی طرز سے بھیک مانگتا ہوں۔۔

منم عثمان باتونی ، کہ یار شیخ باتونم
ملامت می کند کنجوس ، من بر ، دار می بھیکم

میں عثمان باتونی ہوں،اور شیخ باتونم کا دوست ہوں،بہت بولتا ہوں بھیک مانگنے کے لیے۔۔اور کنجوس لوگ مجھے ملامت کرتے ہیں ( چل پراں مر ، جا بابا معاف کر ، بھلا ہووے ) لیکن میں بہت بڑا بھکاری ہوں کہ تختہ دار پر بھی بھیک مانگتا ہوں۔

خواجہ عثمان ہارونی نے گداگر ہڈحراموی کی یہ غزل چرا کر استعمال کی ہے۔جو پڑھنا چاہے وہ نیٹ پر ( نمی دانم کہ آخر چوں ) لکھ کر سرچ کر سکتا ہے۔

فارسی تو فارسی۔عربی شعرا نے بھی ان کی شاعری چرائی ہے،امر القیس کا مطلع انہی سے سرقہ شدہ ہے

ان کا مطلع تھا کہ

قفا نبک من ذکرا کنجوسا ومنزل
بسقط الوی بین الدخول فحومل

اے دوست زرا دیر رک۔۔۔ اس کنجوس کے گھر کو یاد کر کے رولیں جہاں ہمیں بھیک نہیں ملی تھی،جو ہے یہی حومل اور دخول کے درمیان۔۔

گداگر ہڈ حراموی نے انگریزی شاعری بھی کی ہے۔۔ان کی نظمOde to miser ( کنجوس سے خطاب )خاص شہرت کی حامل ہے،حتی کہ جان کیٹس نے یہ خیال بھی چرا لیا اور ode to nightingale , ode to autumn , ode on grecian urn
لکھیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر گداگر ہڈاحراموی کی شاعری کی فکری پرتیں کھولی جائیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں سماجی بے راہ روی ، بخل ، سخاوت کی کمی ، کنجوسی جیسے عالمی مسائل پر جو منطقی اثبات پسندی سے کشید دلائل اور کنجوسیات اور پس کنجوسیات کی بحث کی گئی ہے ،وہ گداگر کو باقی شعرا میں ممتاز کرتی ہے،اسی وجہ سے میں گداگر ہڈ حراموی کو بہت بڑا شاعر مانتا ہوں.ٓ،یہ ان کا تعارف تھا،ان کا کلام وقتاً  فوقتاً  پوسٹ کرتا رہوں گا۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply