“گشتی” کیوں نہ لکھا جائے؟ ۔۔۔ امجد خلیل عابد

معاذ بن محمود نے “گشتی” کے نام سے اک افسانہ لکھا۔ افسانہ کیسا تھا یہ الگ موضوع ہے مگر اس کے چھپتے ہی زلزلہ آ گیا۔ احتجاجی و تنقیدی کمنٹس تو قاری کا حق مگر گالی گلوچ والے کمنٹ ہوئے، پھر انعام رانا اور انکی والدہ، معاذ اور انکی بیٹی کی تصاویر لگا کر ایک بدبو دار شخص نے انتہا کر دی اور اپنے تئیں دین اور مدارس کی خدمت کی۔ شکر ہے کہ دینی طبقے میں سے ہی اس کی شدید مخالفت ہوئی۔ چند ایسے لوگ جن کو کوئی جانتا بھی نہیں یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مذکورہ افسانہ ہٹایا جائے کیونکہ یہ “مدارس کی توہین” ہوئی۔ واہ اب جانے کون کون سی توہین اس ملک میں قابل تعزیت ہو گی۔

اوّل تو یہ افسانہ ڈیلیٹ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسے مذہب فروشوں سے ڈر کر جیے تو کیا جیے!

دوم انہیں یہاں جازت کیوں دیں کہ جس چیز کو چاہیں مقدس کا درجہ دے ڈالیں اور اس جھوٹی مقدس چیز کے نام پہ لوگوں کو بلیک میل کرتے چلے جائیں- معاذ کے افسانے پہ مذہب فروشوں کا الزام یہ ہے کہ خدانخواستہ معاشرے کی تمام برائیوں کی جڑ علماء کرام کو قرار دیا گیا ہے- حالانکہ معاذ کی دیگر تحریریں بھی ریکارڈ پہ ہیں جن میں دیگر معاشرتی برائیوں پہ چوٹ ہے- مکالمہ پر کس قدر دینی مضامین لگے، ان کی تعریف تو یہ کرتے نہیں، مدارس اور مولویوں کا منفی پہلو سامنے لانے پہ تلواریں سونتے سب ہی باہر نکل آئے ہیں، کیوں؟

مدارس اور مولویوں میں کیا کوئی برائی نہیں پائی جاتی ؟ پائی جاتی ہے، جب برائی پائی جاتی ہے تو وہ برائی تنقید کی زد میں آئے گی- اب یہ رزیل حرکت آپ کو کون سا مذہب سکھاتا ہے کہ تنقید کرنے والوں کی ذات، خاندان پہ رکیک حملے شروع کردئے جائیں؟ ہم مذہب اسلام کے ماننے والے ہیں ہمیں تو اسلام سے ایسا کوئی درس نہیں ملا-

کہا جارہا ہے کالجز، یونیورسٹیز کی چاردیواریاں بھی “برائی” کی گواہ ہیں- بالکل ہیں، آپ لکھیں افسانے، جی جان سے تراشیے کہانیاں، کوئی بدلے میں آپ کو ماں کی گالی اس وجہ سے نہیں دے گا کہ آپ نے کالج اور یونیورسٹی کی چاردیواری کے پیچھے ہوتے جنسی جرائم پہ افسانہ لکھا ہے-

خدیجہ صدیقی اور شاہ حسین یونیورسٹی میں ہی پڑھتے ہیں، شاہ حسین پہ تنقید یونیورسٹی میں پڑھنے والوں نے ہی کی ہے۔ حضور کیا آپ میں اتنی جرات ہے کہ آپ مدارس میں ہونے والے جنسی جرائم کی کتھا لکھ سکیں؟ آپ ہر گز نہیں لکھ سکتے، آپ تو وہ ہیں جو بینگن کا دفاع کرتے کرتے ہانپنے لگے تھے-

اسلام آباد کی معروف یونیورسٹی کے طالب علم نے صحافی گل بخاری کے لیے جب سوشل میڈیا پہ نازیبا الفاظ لکھے تو اس لپاڈے کی تادیب کرنے میں پیش پیش وہی لوگ تھے جو یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے تھے- بلکہ یونیورسٹی نے لڑکے کو نہ صرف معافی پہ مجبور کیا بلکہ تربیتی کورس لیکر عورت کی عزت کرنا سیکھنے کا عہد کرنے کا پیغام بھی جاری کروایا گیا-

کیا مدارس میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا؟ کیا بس ہوسٹس قتل نہیں ہوئی؟ آپ کو اعتراض کس چیز پہ ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ مدارس میں ہونے والے جنسی جرائم کو تو افسانوں اور کہانیوں میں بیان نہ کیا جائے مگر سکول، کالج اور یونیورسٹیز کی کہانیوں کے پوسٹر لگتے رہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ مدارس میں بیٹھے جنسی بھیڑیوں کا چہرہ سامنے نہیں آنے دینا چاہتے؟ بچوں کی معصومیت کیساتھ کھلواڑ ہوتا رہے اور آپ اس پہ بات اس وجہ سے نہ کرنے دیں کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ اس طرح دینی شخصیات بدنام ہوتی ہیں- اس طرح کے جرائم میں ملوث لوگ دینی رہتے ہی نہیں تو دینی شخصیات کی بدنامی کا سوال کیسے پیدا ہوا؟

دین اور دینی شخصیات جتنی آپ کو عزیز ہیں اتنی ہی ہمیں بھی ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی معصومیت کی قربان گاہوں کو دینی مدارس اور دینی شخصیات کا سٹیٹس انجوائے کرتا نہیں دیکھ سکتے- جو لوگ قرآن سامنے رکھ کر ہماری ماؤں بہنوں کا ذکر بینگن میں ڈال لے اسے ہم دین کی نمائندہ شخصیت نہیں مانتے-

مولوی وہ فرد ہے جس نے ہر حال میں اپنے قبیلے کے دفاع کی قسم اٹھائی ہوتی ہے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ بچوں کی معصومیت سے کھیلنے والے انسان نما درندے پہ بات کی جارہی ہے، یہ بس مولوی کے دفاع میں پہنچ جاتے ہیں، اپنی اپنی تاویلوں کا جھاڑ کھنڈ اٹھا کر- آپ تجربہ کرکے دیکھ لیں، کسی مولوی کے سامنے کہیے کہ جی مدارس میں بھی بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، منہ جھاگ اڑاتے آپ کو مَرمُنڈا سا نہ بنادیں تو بات رہی!

Advertisements
julia rana solicitors london

حق بات کہنے کا رواج ہمارے مولویوں کی اکثریت میں سے ایسے اٹھ گیا ہے جیسے گھوڑے کا جنگ میں حصہ لینا۔

Facebook Comments

امجد خلیل عابد
ایک نالائق آدمی اپنا تعارف کیا لکھ سکتا ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply