سنو لیک اور خوردوپن پاس۔ پاکستانی شمال کے عجیب وغریب راستے۔

پاکستان کے شمال میں سکردو سے پرے جو علاقے ہیں وہ عجیب و غریب ہیں۔ وہاں جو پہاڑ اور گلیشئر ہیں وہ منفرد ہی نہیں مشکل ترین بھی ہیں۔ جو پہاڑی درے ہیں زیادہ تر ناقابل عبور ہیں۔ اس علاقے میں موجود پہاڑوں کو سر کرنا اور پہاڑی دروں کو عبور کرنا تو درکنار ان تک پہنچنا ہی جان جوکھوں کا کام ہے۔ دنیا میں قطب شمالی کے بعد جتنے بڑے گلیشئر ہیں وہ اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ ان پہاڑوں میں ایک گلیشئر”بیافو” نام کا ہے جس کی لمبائی 63 کلومیٹر ہے۔ بیافو گلیشئر سکردو کے آخری گاؤں اشکولی سے ذرا آگے سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں بیافو ختم ہوتا وہیں سے ہسپر گلیشئر شروع ہوجاتا ہے۔

دونوں گلیشئر مجموعی طور پر 120 کلومیٹر لمبائی کے ساتھ دنیا کا سب سے لمبا راستہ بناتے ہیں۔ جو ہنزہ کے سامنے نگر وادی میں ہسپر نامی گاؤں کے پاس ختم ہوتا ہے۔ ہسپر کا شمار بھی پاکستان کے لمبے ترین گلیشئرز میں ہوتا ہے جس کی لمبائی 49 کلومیٹر ہے۔ بیافو اور ہسپر گلیشئر جہاں آپس میں ملتے ہیں وہاں برف کا ایک بہت بڑا میدان بنتا ہے، جسے” سنو لیک” یعنی برف کی جھیل کہتے ہیں۔ مقامی زبان میں سنو لیک کو” لُک پے لاؤ”( Lukpe Lawo) کہتے ہیں۔ سنو لیک تقریباً 4877 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور 10 کلومیٹر چوڑی ہے۔ سنولیک کا بلند ترین مقام قریب ہی واقع ہسپر پاس ہے جو کہ 5151 میٹر بلندی پر ہے۔ مارٹن کنووے وہ پہلا شخص تھا جو 1892 میں سنو لیک تک پہنچا اور اس نے ہی اس جگہ کو سنو لیک کا نام دیا تھا۔ آخری گاؤں اشکولی سے سنو لیک تک پہنچنے میں چار سے پانچ دن لگ جاتے ہیں۔

سنو لیک برف کی بنی جھیل کا ایک گول میدان ہے جس کے ہر طرف فلک بوس پہاڑ اور ان پہاڑوں کے درمیان بلند ترین درے واقع ہیں۔ سکردو سے بیافو گلیشئر پر چلتے ہوئے سنو لیک تو پہنچ جاتے ہیں پھر مزید آگے جہاں بھی جانا ہو ہر طرف سے کوئی نا کوئی 5000 میٹر سے زیادہ بلند پاس عبور کرکے ہی جانا پڑتا ہے۔ سامنے ہسپر پاس ہے تو بائیں طرف 5073 میٹر بلند سوکھا پاس اور 5256 میٹر اونچا جمال پاس ہے۔ دائیں طرف سم پاس ہے جس کی بلندی 5385 میٹر ہے ساتھ ہی 5675 میٹر بلند” سکم پاس” ہے اور 5700 میٹر اونچا” لُک پے پاس “اور”خوردوپن پاس” واقع ہیں۔ خوردوپن پاس پاکستان ہی نہیں دنیا میں مشکل ترین اور خطرناک ترین پاس مانا جاتا ہے۔ اس کی بلندی 5790 میٹر ہے اور لوکیشن 22’7’36 اور 5’34’75 ہے۔

خوردوپن پاس کا راستہ اور دریافت بھی تاریخ کا ایک معمہ ہے۔ کچھ کتابوں میں درج ہے کہ برطانیہ نے سب سے پہلے 1885 میں W.S Lockhart کو ہنزہ میں بھیجا تھا اس کے بعد 1888 میں کشمیر ہنزہ اور نگر میں ایک جنگ لڑی گئی تھی۔ یہ سارا علاقہ جو مغربی قراقرم کا حصہ کہلاتا ہے۔ انسانی نظروں سے اوجھل تھا اور شمالی علاقہ جات کی چین و روس کے ساتھ سرحدیں متعین نہ ہونے کی بنا پر برٹش گورنمنٹ نے اس جنگ کے بعد پورے علاقے میں سروے کےلیے 1892 میں Lieutenant George Cockerill کو بھیجا۔” جارج کوکریل” شمشال پاس کو عبور کرکے شمشال میں آیا جبکہ اس سے پہلے وہ وجراب گلیشئر اور خوردوپن گلیشئر کا سروے بھی کرچکا تھا۔ جارج کوکریل نے شمشال آنے کےلیے کون سا راستہ استعمال کیا یہ وضاحت طلب بات ہے، کچھ محققین کے مطابق وہ خوردوپن پاس اور خوردوپن گلیشئر سے شمشال پہنچا جبکہ کچھ کے مطابق وہ لُک پے پاس عبور کرکے آیا تھا۔ تاریخ میں جتنے بھی سروے کرنے والے اس خطے میں آئے وہ جارج کوکریل کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ اس کے کیے ہوئے سروے آج بھی سب سے مستند ماننے جاتے ہیں اور تمام جدید سروے جارج کوکریل کی بتائی ہوئی بنیادوں پر استوار ہیں۔

پرانی کتابیں بتاتی ہیں کہ خوردوپن کے گردونواح اور شکسگام وادی میں ایرک شپٹن نے 1937 میں خوب آوارہ گردی کی اور تمام تر کارگزاری اپنی کتابوں میں لکھ ڈالی۔ ایرک شپٹن خوردوپن لُک پے پاس سارپولاگو پاس اور برالڈو وادی پر آج بھی اتھارٹی مانا جاتا ہے۔ ایرک شپٹن کے بعد سے ایک لمبی خاموشی چھا جاتی ہے۔ 1986 میں کینیڈا سے Barry Roberts اور Cameron Wake آئے۔ شمشال کے دو عظیم فرد رجب شاہ اور شمبی خان اس ٹیم کے ہمراہ خوردوپن پاس گئے۔ اس ٹیم کے پاس منفرد اعزاز ہے کہ یہ ایک باری میں شمشال سے سنو لیک اور سنو لیک سے شمشال کی طرف گئے گویا دو بار خوردوپن پاس کو عبور کیا۔ یہ کارنامہ دنیا میں اور کوئی انجام نہیں دے سکا۔ 1987 میں برطانیہ کی ایک ٹیم نے بغیر کسی پورٹر کی مدد سے خوردوپن پاس کو عبور کیا اس ٹیم میں Stephan Venables, Duncan Tunstall, Jerry Gore, Philip Barlet شامل تھے۔ ایک اور نیوزی لینڈ کی ٹیم نے خوردوپن پاس کو 1991 میں کراس کیا تھا۔ اس ٹیم میں Dave Bamford, Matt Comeskey, John Cocks, John Wild and John Nankervi شامل تھے جبکہ پاکستان کی طرف سے میجر عارف خان بھی بطور ٹیم ممبر شامل تھے۔

ایک اور غیرملکی ٹیم 1980 کی دہائی میں شمشال پسو اور حسینی گاؤں کے چند پورٹرز کے ساتھ خوردوپن پاس کو عبور کرنے گئی لیکن ایک حادثے کی وجہ سے واپس آگئے۔ کافی عرصہ پہلے میں بتورہ گلیشئر سے ورتھم پاس کے راستے میں اس ٹیم کے ایک بندے سے ملا تھا جس کا تعلق پسو سے تھا۔ انہوں نے مجھے کافی دلچسپ کہانی سنائی تھی۔ بدقسمتی سے ان کا نام اور وہ واقعہ بھول گیا۔ بہت کوشش کے باوجود کچھ یاد نہ آیا تو اندازے سے لکھنے کی بجائے اسے چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔ اس کے بعد بہت سی غیرملکی ٹیموں نے کوشش کی لیکن خوردوپن عبور نہ ہوسکا۔ اس کوشش میں بہت سے پاکستانی بھی شامل رہے جن میں سب سے نمایاں لاہور سے رضی صاحب ہیں جو خوردوپن پاس کے دامن میں زخمی ہوئے اور کئی دن تک پھنسے رہے۔

خوردوپن پاس کو عبور کرنے میں سب سے نمایاں نام بیلجئیم کے Jeff Houben کا آتا ہے جس نے بہادر شمشالی نوجوانوں کی مدد سے یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ 2011 جون میں آنے والی جیف ہاؤبن کی ٹیم میں شمشال سے قدرت علی لالی شاہ بلبل کریم محمد عبدل اور عید محمد شامل تھے۔ یہ ٹیم سکردو سے بیافو گلیشئر پر آئی اور سنو لیک سے خوددوپن پاس کے دامن میں کیمپ کیا۔ اگلے دن 25 جون کو خوردوپن پاس کو کراس کرکے شمشال کی طرف اتر گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی سال 2017 کی سردیوں میں دو منفرد کام وقوع پزیر ہوئے۔ ایک جب پہلی بار کسی پاکستانی خاتون نے خوردوپن کو کراس کرنے کی ٹھانی۔ اور دوسرا جب یہ مہم سردیوں میں گئی۔ تاریخ میں یہ پہلی مہم تھی جو خوردوپن کو سردیوں میں عبور کرنے گئی تھی۔ صائمہ ملک اور شمشال سے قدرت علی تین مزید شمشالی پورٹرز کے ساتھ کامیابی سے خوردوپن پاس کے دامن تک پہنچ گئے۔ شدید ترین برف باری کے باعث بیس کیمپ پر کئی دن تک پھنسے رہنے کے بعد واپس آنا پڑا۔ لیکن پھر بھی تاریخ میں اپنا نام منفرد انداز سے درج کروا گئے۔ خوردوپن پاس کی خطرناکی ہی وہ ایڈونچر ہے جس کے باعث ٹریکر اس کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں۔ اس سال گرمیوں میں لاہور سے جاوید عمر اور اس کی ٹیم نے خوردوپن پاس کو عبور کرنے کی ٹھانی ہے۔ ان کیلے نیک خواہشات ہیں کامیابی ان کے قدم چومے۔ خوردوپن پاس آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے ٹریکروں کےلیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔…

Facebook Comments

محمد عبدہ
مضمون نگار "محمد عبدہ" کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور حالیہ کوریا میں مقیم اور سیاحت کے شعبے سے تعلق ہے۔ پاکستان کے تاریخی و پہاڑی مقامات اور تاریخ پاکستان پر تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔ "سفرنامہ فلپائن" "کوریا کا کلچر و تاریخ" اور پاکستانی پہاڑوں کی تاریخ کوہ پیمائی" جیسے منفرد موضوعات پر تین کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply