• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • استاد عبدالرّحمٰن سندھو اور طعامِ شادی خانہ آبادی۔۔۔۔ عبدالرّحمٰن قدیر

استاد عبدالرّحمٰن سندھو اور طعامِ شادی خانہ آبادی۔۔۔۔ عبدالرّحمٰن قدیر

اردو کی کلاس تھی اور میری پسندیدہ ترین کلاس تھی۔ کیوں کہ واحد مضمون تھا جس کی سمجھ آ جاتی تھی۔ استاد قاری عبدالرّحمٰن صاحب پڑھاتے تھے جو کہ آج بھی ان چند اساتذہ میں شامل ہیں جنکی تعلیمات نے ذہنی اور اخلاقی تعمیر میں مرکزی کردار ادا کیا ورنہ حالات زمانۃ الحجارہ میں بھٹک رہے ہوتے۔
اب یہ نہیں یاد کہ کیسے، مگر کسی طرح شادی بیاہ پر کھانا کھلتے افرا تفری کے موضوع پر بات چل پڑی  اور جتنا مُجھے یاد ہے استاد جی نے بتایا کہ وہ ایک تقریبِ شادی خانہ آبادی میں شریک تھے کہ اچانک کھانا کھلنے کی آواز آئی اور دوسروں کی طرح میز کی طرف چل پڑے تو ایک بزرگ نے کہا کہ “بیٹھ جا، نہیں جاتا کہیں کھانا” تو وہ بیٹھ گئے، اور واقعی جب میز کے گرد بھیڑ کم ہوئی  تو کھانا ابھی بھی موجود تھا۔ اور پھر انہوں نے انتہائی  پرسکون انداز سے مکمل طور پر مطمئن ہو کر طعام نوش فرمایا۔

استاد جی کی زبان سے سماعتِ واقعہ ہٰذا میرے قلب و ذہن میں عقابی روح بیدار ہو چکی تھی، اور بیتابی سے کسی تقریبِ بیاہ کا انتظار شروع ہوگیا کہ ہم بھی اپنے راہنما کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعادت حاصل کر سکیں۔
اللہ اللہ کر کے وہ دن بھی آیا، اور پھر دو گھنٹوں کے دوران دو صدیاں گزار دیں کہ اچانک ڈھکن سے ڈھکن ٹکرانے کی آواز فضا میں بلند ہوئی۔ بھگدڑ مچ چکی تھی، کسی کو جان، مال، یا اولاد کا ہوش نہ  رہا، بالکل جیسے وائکنگ فوج طبلِ جنگ بجنے کے بعد مخالفین پر ٹوٹ پڑی ہو۔۔۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہاں مخالفین زندہ انسانوں کی بجائے شوربے اور چاولوں میں لپٹے ذبح شدہ مرغ تھے۔

ہمارے دل میں بھی آندھیاں آندھیاں اٹھ رہی تھیں، جسم کی ایک ایک رگ میں خون کے ایک ایک قطرے میں ہیموگلبن کے ایک ایک مالیکیول میں فولاد کا ایک ایک ذرّہ صرف ایک ہی لفظ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔۔۔ کھانا۔۔۔ کھانا۔۔۔ کھانا۔۔۔ دل میں ایک ہی تمنّا تھی، اٹھ کر تھالی بھر لانے کی۔۔۔ اس سے پہلے کہ طشتریوں میں کچھ نہ رہے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ آخر دل و دماغ کی جنگ میں دماغ جیت گیا اور ہم وہی تھے کھڑے، تھے جہاں سے چلے۔۔۔
اُدھر گھمسان کا رن پڑا، کوئی آٹھ منٹ کے بعد وائکنگز۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ “بھوکے انسان” جنگ جیت چکے تھے۔ بھیڑ منتشر ہوئی تو ایسا منظر دیکھا کہ استاد جی کے لیے دل میں عقیدت بے بہا سے والہانہ میں بدل گئی۔۔۔
مال غنیمت۔۔۔ میرا مطلب ہے کھانا ابھی بھی باقی تھا اور بہت باقی تھا۔۔۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا، سیر ہو کر کھانا کھایا اور گھر کی راہ لی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ یہی معمول ہے۔ ہاں۔۔۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بھیڑ کم ہونے تک “سویٹ ڈش” میں اتنی ہی مقدار رہ جاتی ہے جتنی ہمارے حکمرانوں میں حیا ہے۔۔۔ مگر زیادہ میٹھا بھی تو صحت اور دانتوں کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔

Facebook Comments

عبدالرحمن قدیر
ایک خلائی لکھاری جس کی مصروفیات میں بلاوجہ سیارہ زمین کے چکر لگانا، بے معنی چیزیں اکٹھی کرنا، اور خاص طور پر وقت ضائع کرنا شامل ہے۔ اور کبھی فرصت کے لمحات میں لکھنا، پڑھنا اور تصویروگرافی بھی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply