جن عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابیں ان کی تحریف سے محفوظ نہیں رہ سکیں آج کے معترض لوگوں کو پھر بھی ا ن کی لکھی ہوئی تاریخ پر اعتماد ہے اور جن مسلمانوں کا قرآن تازہ بہ تازہ موجود ہے بغیر تحریف کے، معترض لوگوں کو ان کی لکھی تاریخ پر شبہ ہے؟۔۔۔۔بہت معذرت مگرمعترض لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے مجھے اتفاق نہیں۔آج کے معترض لوگ اگر ہر خلافِ مرضی دلیل اور بات کو رد کرکے میں نہ مانوں پر ڈٹے ہوئے ہیں تو کوئی بات نہیں وہ ان کا حق اور فعل ہے مگر ان کو خود کو ہر حال میں درست ثابت کرنے کی غرض سے سب پر انگلی نہیں اٹھانی چاہیئے۔وہ اگر سب سے مختلف ہیں تو اپنے اختلاف کو سچ ثابت کریں ،کسی ٹھوس دلیل اور حوالے سے۔وہ دے دیں اپنی رائے یا تعریف جو سب کا منہ بند ہوجائے۔جب رد کے لیئے دلیل نہیں تو اس کا ایک مطلب ہے کہ وہ لاجواب ہو کر خاموش ہوگئے ہیں۔
جب معترض لوگوں کو ہر دلیل ہر بات کا حوالہ درکار ہے تو صحیح، لیکن خود بھی بات پھر حوالے سے ہی کریں تا کہ ابہام اور فساد کا عنصر باقی نہ رہے۔علمی مباحث اور مکالمے علم کی نئی راہیں نکالنے میں مدگار ثابت ہوتے ہیں نہ کہ ہم ان کو کوئی میدان جنگ یا محاذ سمجھ کر درخود اعتناء کریں اور یہ کہتے ہوئے خود کو الگ کرلیں کہ جناب یہ تو ایک محاذ چھڑ گیا ہے سو اب میرا یہاں کیا کام۔اب تو بیٹھ کر تماشہ دیکھیں گے کہ بات کہاں تک جاتی ہے۔اس کا مطلب تو پھر ایک ہی نکلتا ہے کہ لوگ بحث برائے بحث اور تخریبی بحث و مکالمے شروع کروانے کے شوقین ہو گئے ہیں جس نے معاشرے کا توازن خراب کردیا ہے اور مخالفت و عدم برداشت جیسی قباحتیں پیدا ہو رہی ہیں ۔بہرحال علم ایک دریا اور سمندر کی مانند ہے۔اس میں غوطہ وہی لگائے جو تیراکی جانتا ہو ورنہ اس میں ڈوب مرنے کا احتمال بہت زیادہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں