ایک تھا شاعر، ایک تھی اس کی بیوی۔۔۔روبینہ فیصل

وہ ایک من موجی شاعر ہوا کرتا تھا مگر اب دن بدن زندگی کا دائرہ اس کے گرد تنگ ہو تا جا رہا تھا۔ اور اس کی ایک بڑی وجہ اسے اپنی بیوی لگتی تھی جو اس کے حلق میں پھنسا ایسا کانٹا بن چکی تھی جسے نہ نگلا جاسکے اور نہ اگلا،ایسے کانٹے کو سمیٹے حلق کی اذیت کا اندازہ اسے آج سے پہلے کبھی نہیں ہو ا تھابلکہ وہ سوچا کرتا تھا زندگی سے کسی کو بھی نکالنا کونسا مشکل کام ہے مگر اب اسے اس محاورے کی سنگینی کا اچھی طرح اندازہ ہوچکا تھا۔

کینیڈا کے طرزِ زندگی اور نظام میں ایسی طاقت تھی کہ کسی بھی سادہ اور معصوم سی لڑکی کو ایک سخت اور خونخوار عورت میں تبدیل کر دے۔ اور اس کی تو حرکتیں بھی ایسی تھیں کہ اسے برداشت کرتے کرتے نیک پروین عورت بھی غنڈی رن بن جائے یا وہ ہمیشہ کی طرح اپنا دامن بچانے کے لئے یہ سوچ رہا تھا کہ شاید  بچپن سے ہی یہ عورت بددماغ ہو گی، اور بس دلہن کے گھونگٹ میں چہرے کے ساتھ یہ روپ بھی چھپا یا ہوا ہو گا، ورنہ کوئی ایسے تھوڑی ہی بدل سکتا ہے؟ یہ تو ماسک گرتا ہے تو اصلی شکل نظر آنے لگتی ہے ۔۔تو اس عورت کا ماسک کینیڈا آکر جھڑ گیاتھا۔

اس کی سوچ ٹھیک تھی یا غلط؟اس سب کا فیصلہ کر نے سے پہلے ہمیں ان دونوں یعنی کہ شاعر اور اس کی بیوی کے تھوڑے بہت حالات جاننا ضروری ہیں۔ یہ شاعر شروع سے ہی دل پھینک ہو ا کرتا تھا۔ نہ نہ کرتے ہو ئے بھی کالج،محلے، یا رشتہ دار۔۔ ہر دوسری لڑکی پر اس کا دل آجایا کرتا تھا اور ہر دفعہ اس شدت سے آتا تھا کہ لگتا تھا کہ یہی آخری بار ہے اور دل اب کے گیا تو واپس نہیں پلٹے گا۔ مگر ہر زور،کم سے کم ایک مہینہ اور زیادہ سے زیادہ سال بھر تک ٹھہرتا اور اسے سمجھ ہی نہ آتی کہ وہ لڑکی جو اسے خوش نما تتلی لگتی کچھ عرصے بعد سنڈی کیسے بن جاتی تھی؟ ہروہ لڑکی جس کے پیروں میں بیٹھ کر وہ شروع شروع میں عمر بھر وفا نبھانے کی باتیں کیا کرتا،کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسے کچھ پل بھی برداشت کرنا مشکل کیسے لگنے لگ جاتا تھا۔۔

یہ نہیں کہ وہ اپنی اس طبیعت سے آگاہ نہیں تھا، اسے سب پتہ تھا۔گو شروع شروع کے ایک دو ایسے ہی “دل کی تبدیلی” کے سانحات کی ذمہ داری وہ لڑکیوں کے رویے پر ڈالتا رہا،کیونکہ وہ لڑکیاں بھی پیار محبت کے کچھ دنوں بعد ہی عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیتی تھیں جیسے کہ کبھی اسے بے تحاشا پیار کرنے لگتیں اور کبھی اسی سے بے تحاشا نفرت۔ وہ اسے ان کا پاگل پن سمجھتا رہا مگر جب ہر مرتبہ ہر عشق کا انجام اسی طرح ہو نے لگا کہ لڑکی پاگل اور وہ اکتایا ہو ا۔۔تو پھر اس نے سوچا کچھ تو گڑبڑ ہے،یا تو سب لڑکیاں پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکا ر ہیں یا وہ خود پرست دماغی مریض ہے۔ یہ خیال بھی اس کے ذہن میں نہ آتا، اگر وہ اس دماغی الجھن سے تنگ آکر یہ سب اپنے ایک لنگوٹیے کے ساتھ ڈسکس نہ کرتا۔۔”یار! میں لمبے عرصے تک کسی ایک ہی لڑکی سے محبت کرنا چاہتا ہوں۔ میں بسیں بدل بدل کر تھک گیا ہوں اب بس منزل تک پہنچنا چاہتا ہوں۔کوئی لڑکی مستقل طور پر نگاہوں میں جچتی ہی نہیں۔”

“تو مزے مار اللہ نے تجھے نوازا ہے کہ تجھ جیسا گھونچو،جس لڑکی کے پیچھے لگ جا تا ہے اسے حاصل کر کے ہی چھوڑتا ہے۔ میں تو حیران ہوں ایک ہی خاندان، ایک ہی محلے اور ایک ہی یو نیورسٹی میں ایک ہی لڑکے سے ہر دوسرے روز ایک نئی لڑکی پھنس کیسے جاتی ہے۔۔ خدا کا کوئی خاص کرم؟ کسی پیر کی سپیشل آفر؟” دوست بھی شاید  کافی عرصے سے دل میں غبار چھپائے بیٹھا تھا۔
میں سنجیدہ ہوں، بلکہ مصیبت میں ہوں، یار یہ جو دھڑا دھڑ بت ٹوٹتے ہیں میرے دل کے صنم خانے میں، ان کی کرچیاں میری صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہیں۔ مجھے بچا لے یار۔۔ کوئی حل بتا کمینے۔۔ تنگ نہ کر۔۔”

“دوست” کو اپنا آپ بہت معتبر محسوس ہوا۔وہ کلاس کا ایک بدذات سا لڑکا تھا، جس کا کام ہر ایک کے معاملے پر نظر رکھنا اور ٹانگ اڑانا تھا۔ ان سب سماجی خدمات کے بدلے میں اس کا تجربہ اور مشاہدہ عالمگیر حیثیت اختیار کر چکا تھا۔زیادہ تر کلاس کے لڑکے اور لڑکیاں اس سے جان بچاتے پھرتے تھے اور اسے دیکھ کر راستہ بدل لیا کرتے تھے۔ شاعر خود بھی جب، اس کا کوئی عشق عروج پر ہو تا تو اسے زیادہ منہ نہیں لگاتا تھا۔مگر آج شاعر کوپوری یو نیورسٹی میں اس سے زیادہ سمجھدار اور ہمدرد کوئی نہیں لگ رہا تھا۔۔ اور” دوست” شاعر کی طرف سے ملنے والی ایسی عزت افزائی پر پھولے نہیں سما رہا تھا۔کیونکہ شاعر صرف ان کے ڈیپارٹمنٹ میں ہی نہیں بلکہ اپنی زبردست شاعری اور طلسماتی کشش کی وجہ سے، پوری یونیورسٹی میں کافی مشہور تھا۔اور ہر وقت کوئی نہ کوئی حسینہ اس کے جال میں پھنسی تڑپتی نظر آتی تھی اوراس اضافی خصوصیت کی وجہ سے سب لڑکے اس کا دبدبہ دلوں میں محسوس کر تے تھے۔

“یار مزے کر۔۔پریشانی کیا ہے؟” دوست ابھی تک اس کا مسئلہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
“میری صحت ہے مسئلہ۔۔۔”شاعر نے جھنجلا کر کہا۔
“کیا؟ وہ چلایا۔۔۔۔۔۔۔۔خدا نخواستہ ایڈ زہو گیا ؟۔۔۔بیڑہ ہی تر جائے۔۔”دوست نے دونوں ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے کہا جیسے کھیل ہی ختم۔۔۔
“اوہ نہیں کھوتے دے پتر، ایڈز ہو تیرے۔۔۔۔۔ یار دماغی صحت، سکون،سب خراب ہو رہا ہے۔۔ جس کو بھی چھوڑتا ہوں وہی بڑی بڑی بددعائیں دیتی ہے۔۔شاعر نے آسمان کی طرف دیکھتے ہو ئے کہا۔۔پتہ نہیں اللہ ہے کہ نہیں پر کسی کو تو منہ دکھانا ہی ہے نا۔۔ یا ر کارما سے ڈر لگتا ہے۔ کسی کی بددعا لگ نہ جائے۔۔ پہلے اتنا ڈر نہیں لگتا تھا مگر وہ جو چار مہینے پہلے فرسٹ ائیر کی وہ معصوم سی لڑکی کو چھوڑا ہے نا۔۔ یار اس کی وحشت اور حیرانی بھری آنکھیں کلیجے میں کھب گئی ہیں۔۔۔اس نے۔۔۔۔”
“اس نے بھی مرنے کی بددعا دی تھی؟ دوست نے خوفز دہ نظروں سے دیکھتے ہو ئے کہا۔
“نہیں یار، اس نے کہا تھا تمھیں اتنی لمبی زندگی ملے کہ تم موت مانگو بھی تونہ ملے،بس اس بددعا سے ڈر گیا ہوں۔۔ لیکن قسم اللہ پاک کی یہ سب میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں اسے مسلسل پیار کرنا چاہتا تھا۔ مگردل عجیب گرگٹ ہے ایکدم بدل جاتا ہے۔ اور ایک دفعہ تتلی سنڈی بنتی ہے تو پھر دیکھی بھی نہیں جاتی اورمیں اسے وہیں اسی جگہ چھوڑ کر کسی اور تتلی کے پیچھے بھاگ جاتا ہوں۔۔ مجھے قسم سے کسی کے دل ٹوٹنے کا احساس بھی نہیں ہو تا۔۔اور یار بڑا گلٹ فری کھیل تھا میرا۔۔ اس فرسٹ ائیر والی لڑکی نے کچرا کر دیا ہے۔ سب کچھ میری پلاننگ اور میرے پیٹرن کے مطابق ہو رہا تھا۔۔لیکن یار۔۔ اب بس تھوڑا سا ڈر گیا ہوں۔۔ مدد کر یار۔ اب واقعی تبدیل ہو نا چاہتا ہوں،اس کھیل کے گھناؤنے پن کا احساس ہو رہا ہے،مگر بے بس محسوس کرتا ہوں،کمزور انسان ہوں یا نفس کا غلام۔۔نہیں جانتا ”

ہممم۔۔۔۔دوست نے کانوں کے پیچھے اڑسی پنسل نکالی، اپنی ناک کھجائی اور چہرے پر جتنا فلسفہ لا سکتا تھا لا کر بولا: یار میرا تجربہ زیادہ سے زیادہ ایک مرد کا تین چار محبتیں کرنے تک کا ہے، لیکن تیرے جتنا چوکس اور پارہ صفت انسان، میرے تو تجربے کی حدود سے باہر ہے۔ اس لئے مجھے یہ کوئی گہرا نفسیاتی مرض لگتا ہے۔۔ چل کسی سائیکالوجسٹ کو ملتے ہیں۔۔ تو تو ایک وقت میں دو دو تین تین محبتوں کو مختلف لیولز پر رکھ کر بھی نبٹا رہا ہو تا ہے۔ کہا ں ایک کے بعد دوسری۔۔ یہاں تو ایک ہی وقت میں کئی کئی۔۔۔ہے نا؟”

“ہاں ایسے ہی ہے۔۔تجھ سے کیا چھپانا۔۔لیکن یار سائیکالوجسٹ کے پاس جا کر کیا ہوگا؟کثرت ِ تبدیلی آبجیکٹ نے میری یاداشت پر بھی اثر کیا ہے۔ نئی والی کچھ پو چھ رہی ہو تو دو تین سال پہلے والے کسی اورلڑکی کے پو چھے ہوئے سوال کا جواب دینے لگ جا تا ہوں۔۔ ایک لڑکی میری ہم عمر تھی، وہی جو ہماری کلاس فیلو زرینہ،یاد ہے نا؟ اس سمسٹر سے ڈراپ بھی ہوگئی تھی بچاری، میری بے وفائی کے بعد۔۔ اس سے بات کرتے کرتے اسے ایک دن کہہ بیٹھا تم میرے سے پانچ سال چھوٹی ہو۔۔ ایسی ہی کئی چیزیں مکس اپ کرنے لگ گیا ہوں یار،بددعائیں تو نجانے کب کام دکھائیں یہ زبان کی بد حواسیاں مروا دیں گی۔۔ بتاؤ کیا کروں؟ اور تیرا خیال ہے کسی سائیکٹرسٹ کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل یا دوائی ہو گی؟یار حرام  زدگیوں، وعدہ خلافیوں اور بے وفائیوں کا کیڑا مارنے کی کوئی دوائی ہو تی تو سب سے پہلے عوام زبردستی اسے حکمرانوں کے معدوں میں انڈیل چکے ہو تے۔۔ “شاعر نے مایوسی سے سر جھکاتے ہو ئے لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی۔

“تو چل پھر کسی پیر کے پاس چلتے ہیں، تجھے خطِ مستقیم پر رکھنے کا کو ئی تعویذ لاتے ہیں۔ گلے میں پہن کر گھومنا، اور نظریں جھکا کر چلنا”۔۔دوست کی عقل جواب دے رہی تھی۔۔
“یار!!۔۔ مذاق نہ کر، بچپن میں ابا نے قرآن  ترجمعے کے ساتھ پڑھوایا تھا،وہ میرا کچھ نہیں سنوار سکا تو ایک چھوٹا سا تعویذ میرا کیا بگاڑ لے گا؟
ان تعویزوں کو بس محبوب قدموں میں،لانے تک محدود رکھو۔۔ محبوب کو دھوکہ نہ دینے کا، کوئی تعویذ سنا ہے کیا۔؟”

“میرے دلبر!! تیرا مسئلہ نہ صرف گھمبیر ہے بلکہ انتہائی لعنتی بھی ہے۔۔۔ میں تو چلا۔۔۔ اچھا نہیں ٹھہر سموسے کھلا پھر شاید  کوئی ترکیب آجائے۔ دماغ کو کھاد ڈالے بغیر تجھے کوئی حکمت کا پھول پھل نہیں ملنے والا۔۔ سموسے کے ساتھ ایک پیسی۔۔ بس۔ورنہ تیری دماغی صحت کو کثرت نہیں بلکہ تیری بے ایمانی چاٹ جا ئے گی۔ ”
“وعظ نہ دے، یہ سننا ہوتا تو کلاس کے جماعتیے کے پاس چلا جاتا، جو آگے ہی میری جان کے دشمن ہیں۔۔ چل کینٹین چلتے ہیں،شاید تجھ ندیدے کا پیٹ بھرے تو کوئی کام کی بات اگل ہی دے۔۔ ”
آنکھیں بند کر کے،سموسے کی پہلی بائیٹ حلق سے اترتے ہی، دوست چلا یا، سن!!
“بول؟۔۔۔۔۔۔۔بول۔۔۔ شاعر نے بے تابی سے پر امید نظروں سے اسے دیکھتے ہو ئے کہا تھا۔۔
“شادی۔۔ ہا ں! شادی کر لے، ایک کھونٹے سے بندھے گا تو یہ بھاگم دوڑ ختم ہو جائے گی۔ کسی کم عمر اور معصوم سی لڑکی کو دیکھ کر۔۔کر لے قسم سے۔۔اور میری ماں کہتی ہے کہ نکاح کے بولوں میں بڑی طاقت ہو تی ہے، بڑے سے بڑے منہ زور گھوڑے کو قابو کر لیتی ہے۔ سچی سے۔۔آزما کے دیکھ لے۔۔۔”دوست کولگ رہا تھا کہ اس سے اچھا آئیڈیا اس پارہ صفت کو قابو کر نے کا ہو ہی نہیں سکتا۔۔ لہذا وہ بار بار دہرانے لگا۔

“اچھا بریک تو مار ۔۔ سوچنے دے۔۔ “شاعر حواس باختہ ہو گیا مگر مکمل انکا ری نہیں ہورہا تھا، کیونکہ اس کو بھی یہ دلیل متاثر کر رہی تھی کہ شاید  ایک مستقل کھونٹا ہی اس کو مستقل باندھ سکے اور وہ بددعاؤں کے حصار سے بچ جائے۔ وہ مذہبی نہیں تھا، مگر کارما پر اسے یقین تھا، خاص کر کے اس معصوم لڑکی کی آنسوؤں میں بھیگی معصوم آنکھیں۔۔۔ اف!!
“مگر سن جو مجھے ایک سے زیادہ عورتوں کی تعریف بلکہ خالص محبت میں لتھڑی تعریف چاہیے  ہو تی ہے؟ اس کا کیا کروں گا؟ ”

“اچھا تو پھر یوں کر کہیں جا کے دیوتا لگ جا۔۔۔ داسیاں تیرے قدموں میں محبتوں کے ساتھ ساتھ پھول بھی نچھاور کر یں گی۔۔ پاک کا پاک اور حسرتیں بھی پو ری۔۔سیف پلے۔۔۔”
“دفعہ ہو جا یار۔۔ایسے نہ کر۔۔ یہ ثابت نہ کر کہ تو اصلی کمینہ ہے، کیونکہ کمینے سے ہی جب کام پڑے تو وہ اگلے پچھلے حساب برابر کرتا ہے،کینہ پرور انسان ہے تو ۔۔”
“کیا کہنے؟ کیا کہنے۔۔” دوست گنگنانے لگا۔”شادی!! شاید یہی تجھے بچا سکے۔
“ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں؟ اچھا؟

شاعر،ایک لڑکی سے دل اوبنے اور اگلی کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہو نے کے درمیانی وقفے میں، پہلی والی لڑکی کو آہستہ آہستہ خود سے دور کر نا شروع کر دیتا تھا اور وہ بچاری پاگلوں کی طرح،اتنی ذلت اور ریجکیشن سہنے کے بعد اسے گالیاں اور بددعائیں دینا شروع ہو چکی ہو تی تھی۔ اور وہ اسے بدتمیز اوربد دماغ مشہور کر کے اسی غریب کے کندھوں پر بریک اپ کا الزام دھر کر بڑے سکون سے دوسری لڑکی کو اپنی مظلومیت اور محبت کا یقین دلا چکا ہو تا تھا۔۔ کئی سالوں سے وہ اسی پیٹرن پر چل رہا تھا۔۔۔ مگر اب وہ معصوم دل کی لڑکی اسے خوابوں میں آکر تنگ کر تی تھی، باقی تو گالیاں بکتیں اور اسے بدنام کر نے کی دھمکی دے کر غائب ہو جاتی تھیں۔ لیکن وہ لڑکی اس کی محبت کے جھوٹ کو جان کر بھی اس کے قدموں میں بیٹھ کر فرش سے سر ٹکراتی رہی تھی(اور وہ اپنی پیدائشی بے حسی،جو شاید  اس کے باپ کی طرف سے اس کے جینز میں تھی یا بچپن میں ماں باپ کی بھر پو ر توجہ نہ ملنے کی وجہ سے تھی، وجہ جو بھی تھی) وہ اپنے دل میں اس کے ٹوٹے ہو ئے بت کو، اس معصوم کے بہتے آنسوؤں سے بھی نہ جو ڑ سکاتھا حالانکہ اسے ہلکا ہلکا ترس آرہاتھا مگر ترس کا جذبہ اتنا مضبوط نہیں ہو تا کہ کسی بکھری لڑکی کو مستقل سنبھال سکے، سو، وہ اسے ویسے ہی بکھرا ہوا دیکھتے ہو ئے بھی، خالی آنکھوں سے ڈھیٹ بنا بیٹھا، دل میں نئی لڑکی کے عشق کا جوش محسوس کر رہا تھا۔۔۔محبت کے جھولے پر یہ روتی دھوتی لڑکی زمین والے پنگھوڑے پر آبیٹھی تھی اور سب سے اونچے پنگوڑے پر بٹھائی جانے والی کے لئے شاعر کے دل میں محبت ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔۔۔

اتنی بے   حسی،تو کیا میں جانور ہوں؟ یہ سوال اب اسے تنہائی میں ڈسنے لگا تھا۔۔ کیا کوئی نارمل انسان ایسا کر سکتا ہے مگر وہ انسانیت اور محبت کا ماسک پہنے دلوں کا سیریل کلر تھا۔اس کے ایسے ظالمانہ رویے کے برعکس اس کی شاعری میں محبت اور انسانیت کا پرچار ہو تا تھا، ایک حساس دل کے ٹوٹے جذبات ہو تے تھے۔یہ سب پڑھ کر لوگ اسے نرم دل کا انسان سمجھتے اور محبت کا شاعر کہتے تھے۔مگر حقیقت میں وہ ایک گرگٹ سے بھی بدتر تھا۔اس کا دوست شائد ٹھیک کہہ رہا تھا کہ محبتوں کے اس عار ضی پن کا علاج کسی مستقل بندھن میں بندھنے میں ہی ہو۔

“شادی۔۔ اماں میری شادی کر ادو، اپنی بھانجی کے ساتھ۔۔ “وہ اس سے کافی چھوٹی تھی اور ابھی ابھی جوان ہو ئی تھی اس لئے ابھی تک شاعر کے شر سے محفوظ تھی۔وہ سوچ رہا تھا کہ ایسی ہی کسی سادہ سلیٹ پر اپنا مستقل نام لکھوں تو یہ کچے رنگ میرے پکے رنگ کو فنا کر دیں اور میرا ایک نارمل انسان بلکہ ایک مسلمان جیسا جنم ہو جائے۔
یہ فرمائش سن کراماں پہلے حیران اور پھر خوش ہو ئی تھی۔اس طرح یونیورسٹی ختم ہو تے اور جاب ملتے ہی اس کی شادی ہو گئی۔
شادی کے وقت وہ 25سال کا اور لڑکی 16سال کی تھی۔
دوست نے پیشن گوئی کی تھی کہ: “یار اس لڑکی کا کچا پن اور معصومیت تجھے باندھے ہی باندھے۔۔۔۔”
وہ بھی بہت پر امید تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شروع شروع میں سب ٹھیک چل بھی رہا تھامگروفا کے اس پکے رشتے کو نبھانے کے چکر میں اس کی شاعری کے کاروبار کا نقصان ہو نے لگا۔ محبت کے خمار کے چسکے اور خود ساختہ جدائیوں کے کرب جب غائب ہو ئے تو شاعری پھیکی پڑ گئی۔ اور اس کی مانگ گرنے لگی۔ مشاعروں میں، داد توکیا جگہ ملنی مشکل ہو گئی۔۔اس “کولیٹرل ڈیمیج “کا تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔

دوست کو یہ مرثیہ سنایا تو وہ جیسے اس خبر کے لئے تیا ر ہی بیٹھا تھا، فوراً  سے پہلے بولا: یار شاعری میں محبت اور فرقت کے رونے بہت ہو گئے، تو ٹرینڈ سیٹر بن جا اور بین الاقومی انسانی،سیاسی اور سماجی مسائل پر لکھ۔ اور اس کے لئے قسم لے لے مجھ سے کسی محبت کی ضرورت نہیں بلکہ نفرت کا میڑیل چاہیے  اور اس کا تجھے اس دنیا میں گھاٹا نہیں ہو نے لگا۔۔ منوں کے حساب سے ملے گی۔ بس اسی کو ڈھال دے شاعری میں۔۔ یوں۔۔دوست نے چٹکی بجاتے ہو ئے کہا۔

“کہتا تو تو ٹھیک ہے،”شاعر نے سمجھتے ہو ئے سر ہلایا” مگریار پھر بھی غزل میں محبت کا ایک آدھ پھڑکتا ہوا شعر ہو نا ضروری ہے اور “سپلائی” کے بغیر محبت کا تڑکا کہاں سے لگاؤں اور پھیکی دال کون کھا ئے گا؟ تم کھاؤ گے ؟ مجھے سب خبر ہے کہ اب تو مجھ پر اتنا برا وقت آگیا ہے کہ تو کمینہ بھی میرے شعروں پر داد نہیں دیتا،باقی طوطا چشموں کو تو چھوڑو۔”
“یار!کم بخت!سائنس کی ترقی سے فائدہ اٹھا، پھر تجھے پتہ چلے آرٹ لٹریچر اور سائنس کا کیسا گہرا تعلق ہے۔۔”
“مطلب؟ شاعر نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔ یہاں کون سی ٹیسٹ ٹیوب غزل کروانے لگا ہے۔۔۔؟”
“بھولے بادشاہ اصلی پھول نہیں ملتے تو کاغذی پھولوں سے کام چلا۔۔یعنی کہ فیس بک اور ٹوئٹر سے دور دراز بیٹھی محبت کی ماری حسیناؤں کو قابو کر اور اپنا کاروبار چلا۔۔”
“نہیں نہیں یارتجھے پتہ ہے,میں تصوراتی محبوب کی آرتی نہیں اتار سکتا۔وہ سب تصویریں ہیں۔۔۔”
“چل مان لیا پیارے تو پھر شاعری کے لئے بس نفرت ہی استعمال کر اور ساتھ ساتھ محبت کی اسی تشنگی کو بھر دے اپنی شاعری میں۔ ”
دوست کو اپنے مشورے پر خود غرور ہو نے لگا۔

“ہاں لیکن محبت کی شاعری کے لئے کچھ کچھ فورسڈ لیبر پین کا بندوبست بھی کرنا ہو گا۔۔۔کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔۔۔”شاعر نے شدید پریشانی سے کہا۔
“بیوی تو ٹھیک ہے نا؟ شک تو نہیں کر تی؟..”دوست کواچانک خیال آیا۔
“نہیں شک کیسا؟ میں پکا کھلاڑی ہوں، کچھ کیا بھی تو امید ہے پکڑا نہیں جاؤں گا، مگر ابھی تو کچھ کر بھی نہیں رہا۔۔ ”
“اچھا بتا وہ ابھی تک تتلی ہی ہے نا سنڈی تو نہیں بنی۔۔ ہمارا حلال اور نکاح کا تجربہ درست ثابت ہو رہا ہے؟”
“ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔ ابھی بس ٹھیک ہی ہے لیکن صرف تجھے بتا رہا ہوں کہ میری گرمجوشی کم ہو رہی ہے مگرخوشی کی بات یہ ہے کہ تین سال گزرنے کے بعد بھی اتنی نہیں جتنی دوسرے کیسوں میں پہلے سال بعد ہی ہو جاتی تھی۔۔۔ تو شاید۔۔ مگر ایک آدھ بیرونی سپلائی چاہیے  یار اور۔۔ اس کے ساتھ ساتھ بھی۔۔ ”
اور پھرجب اس کی پہلی بیٹی پیدا ہو ئی تورشتہ تو مضبوط ہوا مگرمحبت کمزور ہو تی گئی۔ اب شادی بھی کسی سنڈی کی طرح زمین پر پڑی تھی اور شاعری کا نقصان الگ ہو چکا تھا۔مشاعروں میں دوست یار تک داد دینے سے کترانے لگے تھے۔کیونکہ پھیکی شاعری پر داد دے کر وہ ادب میں اپنا مقام نہیں خراب رہ سکتے تھے۔ اس معاملے میں سب ادب نواز دوست مذہب سے بھی  زیادہ مذہبی ہوتے ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ شادی کی گھنٹی گلے میں باندھ کر وہ جدھر جاتا ٹن ٹن کی آواز سے سے حسینائیں چوکنی ہو جاتیں اور جو کام یعنی انہیں پھنسانے والا،وہ ایک آدھ گھنٹے میں کر لیتا تھا، اب کئی کئی مہینے لگ جاتے۔

کینیڈا آنے کا فیصلہ،شاعری و شکاری کی زوال کی اس داستان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ یہ بھی اس کی بیوی کی خواہش تھی، یہ تو اسے بعد میں پتہ چلا کہ سادہ اور کم عمر لڑکی، ماں بنتے ہی اندر ہی اندر پکنے لگ گئی تھی اور انتہائی کھوچل ہو چکی تھی۔ وہ اسے بھولی  بھالی سمجھتا رہا اور وہ بھولی اپنے مطلب کی تمام معلومات سمیٹ کر دل ہی دل میں صحیح مقام اور وقت کا انتظار کرتی رہی۔ اوپر سے سونے پر سہاگہ اس کی گھاگ اور جہاندیدہ ماں کی ٹریننگ۔ لڑکی نہ توجذباتی تھی، نہ بے صبری لہذا بڑے طریقے سے وہ اپنے دل پھینک شوہر کو بہلا پھسلا کر کینیڈا  لے آئی۔ کیونکہ جانتی تھی کہ پاکستان میں ایسے مردوں کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔ فیس بک کی ایک کینیڈین دوست نے اسے بتا یا تھا کہ وہاں مردوں کے لئے عورت کو طلاق دینا اتنا آسان نہیں ہو تا ان کا کباڑہ ہو جا تا ہے؛ گھر، مال خرچہ سب جیبوں سے نکلتا ہے۔ اور وہ مار پیٹ یا گالی گلوچ بھی نہیں کر سکتے، ایک کال پرپولیس آکر انکی کمر پرہاتھ الٹے کر کے ہتھکڑی لگا کر گھسیٹتے ہو ئے لے کر جاتی ہے اور جیل میں کپڑے اتروا کر نشے کے ٹیسٹ سے جو ذلت کا احساس لے کر آتے ہیں تو عمر بھر کے لئے،خوابوں میں بھی اٹھ اٹھ کر چیختے ہیں۔

یہ سب صرف سن کر ہی شاعر کی بیوی کو پاکستان میں بیٹھے بیٹھے ہی طاقت کا سرور آنے لگا تھا۔ لہذا اس نے بڑے پیار سے، اپنے خود پرست شوہر کو اسی کی ذات کے لئے فائدے گنوا کر کینیڈا جانے کے لئے راضی کر لیا تھا۔وہ اس کی نبض شناس اچھی طرح جانتی تھی کہ اپنے یا بچوں کے فائدے کی بات کی تو وہ کبھی نہیں مانے گا، اس نے اسی کی زندگی، صحت اور جاب میں ترقی کو ایسے طریقے سے بڑھا چڑھا کر کینیڈا میں حسین بنایا کہ وہ بلا کا شاطر اس چال کو سمجھ ہی نہ سکا اور چکمے میں آگیا۔

کینیڈا پہنچتے پہنچتے وہ تین بچوں کے والدین بن چکے تھے۔ رسی اور مضبوط ہو چکی تھی مگر محبت۔۔۔؟؟
شاعر کو یہ بھی گمان ہوا تھا کہ شاید کینیڈا میں ہی اس کی متلون مزاجی کو قرار آجائے۔ ہوا بھی یہی کچھ مہینے وہاں بقا کی دوڑ دھوپ میں کچھ ہو ش نہ رہی، مگر اچھی جاب ملتے اور سیٹ ہو تے ہی، شاعر پھر سے مچلنے لگا اور وہاں ہو نے والی ادبی محفلوں میں آنا جانا شروع کر دیا اس کے ساتھ ساتھ فیس بک پر شاعری دھڑا دھڑ ڈالنے لگا۔۔ مگر وہی بات بغیر روح کے شاعری، متاثر کن نہ رہی تھی۔۔ فیس بک اور ٹوئٹر والے رومانس اسی طرح ثابت ہو تے جیسے انسان کاغذ کی گڑیاں بنا کر کھیلنے لگ جائے مگر وہ انہی سے دل بہلانے لگا کیونکہ اس کے لئے اب کوئی چارہ نہیں تھا۔ بڑھتی عمر اور بیٹیوں کے بوجھ نے اس کو کم پر گذارا کرنا سکھا دیا تھا۔ سو زیادہ مشقت کئے بغیر جو بھی دانہ جھولی میں گر جاتا، اسے صبر شکر کے کے اٹھا کر پہلے آنکھوں پر لگاتا اور پھر دل میں بساتا اور پھر غزلیں کہنے لگتا۔

خالص عو رت کی کمی کو بئیر سے پو ری کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔ شاید دو ہلکے نشے مل کے ہی ایک زور آورنشے کی کمی پو ری کر دیں۔ اس سب کا فائدہ یہ ہوا کہ شاعری کچھ کچھ نکھرنے لگی ۔ مگر خالص عشق کی قلت، ہجرت کا کرب اور شراب کی کثرت نے مل جل کرپہلے اس کے دل اور دماغ کو کمزور کیا، پھر معدے میں السر بنایا، پھر مردانگی کو زن مریدی کے تابوت میں ڈال دیا۔
شاعرکے دودراز کے بہت سارے اور مقامی ایک آدھ کسی شاعرہ کے ساتھ معاشقے پکڑے جانے کے بعد، اس کی بیوی بہت نفسیاتی ہو چکی تھی۔ جن عورتوں کے مرد، انہیں سنبھال کر رکھنے کی قدرت نہیں رکھتے اور ان کے تحفظات دور کر نے کی بجائے، اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں، ان کی بیویاں ایسی ہی حواس باختہ اورہمہ وقت دماغی تناؤ کا شکا ر نظر آتی ہیں۔ اور جینے کے لئے وہ کوئی نہ کوئی سٹریٹیجی اپنا لیتی ہیں۔ تو شاعر کی بیوی،نے بھی اس پر نظر رکھنے اور خود کوزندہ رکھنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا تھا۔ بار بار پکڑے جانے کے بعد، وہ اس عورت کے سامنے اپنی عزت کھو بیٹھا تھا، اعتماد کی موت، تو ایک دفعہ ہی بہت ہو تی ہے، وہ بچاری تو ہر دوسرے دن یہ زہر پیتی تھی۔

پھر بھی وہ پوری جانفشانی اور ایمانداری سے گھر کے اور بچوں کے فرائض نبھاتی رہی، اب بیٹیاں بڑی ہو رہی تھیں اور شاعر،ویسے کا ویسا، اتنی بیماریاں لگنے کے بعد بھی، اسی طرح، شاعری، شراب اور عورت کے چکر میں رہتا۔۔ بیوی نے سوچا، لڑنے جھگڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ پتھر کی طرح خاموش ہو گئی۔ ویسے بھی اتنے سالوں کی اس ذہنی مشقت نے اس کے چہرے کی نرم و ملائم جلد کو پتھرا کر رکھ دیا تھا۔ کہاں اس کا بدن لچکیلی ٹہنی کی طرح ہو تا تھا کہاں اب وہ برگد کا درخت لگنے لگ گئی تھی۔ وہ ہنستی بھی تو چہرسے سے سفاکی چھلکنے لگتی، معصومیت تو دور کی بات ،اس کے چہرے سے انسانیت غائب ہو نے لگ گئی تھی۔ اسے نہیں یاد پڑتا کہ کب وہ دل سے ہنسی ہو۔ اس کی ہنسی اس کی ذات کی طرح بناوٹی ہو چکی تھی۔ شاعر کا فیس بک، ای میل، ٹوئٹر چیک کرتے کرتے اس کے ہاتھوں میں واقعی چھالے اور دماغ پر تالے پڑ چکے تھے۔ جیسے ہی کوئی ایسی ویسی چیز پکڑی جاتی، وہ چیخنے چلا نے لگتی، اب تو باقاعدہ تھپڑ بھی مارنے لگ گئی تھی لیکن جب سے بچیاں جوان ہو رہی تھیں وہ خود کو کنڑول کر نے کی کوشش کرنے لگی تھی۔جس سے اس کے اندر گھٹن مزید بڑھنے لگی تھی۔

اس سب سے تنگ آکر ایک دفعہ اس نے شاعر کے سارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی بند بھی کر دئیے تھے۔ مگر تب وہ شراب نہ ملنے پر جیسا شور مچاتا تھا، اس سے زیادہ شور مچادیا، تو اس نے اس خوف سے کہ اس صدمے سے اس کا دل ہی نہ بند ہو جائے  اور ڈس ایبلیٹی الاؤنس کا ہی نقصان نہ ہو جائے، اس کی سوشل میڈیا سپلا ئی چالو کر دی تھی، مگر اس شرط پر کہ فرینڈ لسٹ میں کوئی عورت نہ ہو گی۔ ایسے ہر عورت کو مظلومیت کی داستان سنانے والے دل پھینک مردوں کی بیویوں کے کرب کا اندازہ تب تک ہی کوئی لگا سکتا ہے جب تک کہ وہ خود بھی ایسے ہی کسی کم ظرف کی بیوی یا گرل فرینڈ نہ بن کے دیکھے۔ سوشل میڈیا پر کڑی نظر رکھنے کے بعد اس نے دوسرا کام یہ کیا کہ مشاعروں میں بڑی پابندی کے ساتھ خود جانا شروع کر دیا۔ اور جس عورت کی طرف شاعر ذرا بھی مائل نظر آتا، دھیرے دھیرے اس عورت کے قریب ہو جاتی اور اس سے ہنس ہنس کے باتیں کر نے لگتی۔ اور باتوں باتوں میں پہلی بات یہ بتاتی کہ میرا خاوند شراب اور زیادہ دوائیاں کھانے کی وجہ سے بالکل ہی” رہ گیا “ہے۔۔ جن عورتوں کو” رہ گیا “کی سمجھ نہ آتی انہیں اس کی مردانہ کمزوری کی پو ری تفصیل کچھ اس طرح بتاتی کی عورتوں کو ایسے معذور مرد کی ایسی صابر بیوی پر ترس آنے لگتا۔ اور وہ اسے اس سے طلاق نہ لینے اور اس حالت میں بھی اس کی عزت کرنے پر اس کی شجاعت کو سلام کرتیں۔۔ اور دل ہی دل میں ا سے ٹھرکی بڈھا کہہ کر اپنے آپ کو اس ناکارہ مردسے دور کھنے کا فیصلہ کر لیتیں۔۔

پھر ایک دفعہ یوں ہوا کہ ایک ایسے ہی کسی مشاعرے میں انہیں ایک معصوم سی لڑکی ملی، جس نے ابھی ابھی شاعری کرنا شروع کی ہی تھی۔ شاعر کو تو کینیڈا آنے کے بعد، ایسا تازہ اور معصوم شکار کبھی ملا ہی نہیں تھا۔ وہ تو آپے سے ہی باہر ہو گیا۔ آنکھوں میں چمک اورمنہ سے جھاگ اڑنے لگی۔ کمزور لوگ جذبات کو کنڑول کرنے میں بھی کمزور ہو تے ہیں، اس لئے اس کی بے اختیاری، محفل میں بیٹھے ہر شخص کو تو محسوس ہو ئی، اس کی بیوی کو تو آگ ہی لگا گئی۔ مگر وہ شاعر کے برعکس ایک مضبوط اور پلانر قسم کی خاتون بن چکی تھی۔۔آگ کو سینے میں دبائے اس نے لڑکی سے دوستی شروع کی۔وہی طریقہ کار اپنایا۔ شاعر کی کمزوری کا حال سنا یا۔۔ لڑکی کو واقعی ہی صرف شاعری سے دلچسپی تھی۔ وہ پیچھے نہ ہٹی اور شاعر کو بھی عزت دیتی رہی۔۔ یہ دیکھ کر بیوی بھی پیچھے نہ ہٹی اور وہ اس لڑکی سے دوستی کی پینگیں بڑھانے لگی۔
جب بیوی کو اسی لڑکی کی اخبار میں نظم کے ساتھ چھپی تصویر، شاعر کے تکیے کے نیچے ملی تو وہ ذرا نہ گھبرائی اور نہ ہی لڑی بس خاموش رہی۔

بیوی کی شاطر نظر نے بھانپ لیا کہ یہ لڑکی معصوم اور بے ضرر ہے۔پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی،کیونکہ اب اسے اپنے شوہر کی نفسیات پر مکمل گرپ ہو گئی تھی تو اس نے سوچا کیوں نہ اسی لڑکی کو استعمال کیا جائے۔۔اس کے لئے شاعرکی بے رخی سینے کا پھوڑا بن کر رہ گئی تھی۔ وہ اس کا پہلا اور آخری عشق تھا۔ مگر بہت سالوں سے وہ اسے کھو چکی تھی، نہ وہ اسے کبھی شاپنگ پر لے کر جا تا، نہ باہر کھانے پر، اور نہ کبھی بچوں کو سیر و تفریح پر۔ ہر وقت کسی فیوز بلب کی طرح بجھا رہتا اور بس ایک صوفے پر پڑا لیپ ٹاپ سے کھلیتا رہتا۔
اتنے خشک اور مایوس کن حالات میں بیوی کو اس لڑکی کی صورت ایک امید کی کرن نظر آئی اور اس نے تکیے کے نیچے اس لڑکی کی تصویر والے اخبار کو وہیں رہنے دیا۔ اور خود بھی لڑکی کی شاعری میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے لگی۔ اب وہ فیس بک سے لڑکی کی غزلیں نکال نکال کر شاعر کو دکھاتی اور کہتی کہ چلو اصلاح کر و۔۔ چلو اسے فون کرتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ وہ اپنی آواز میں غزل سنائے۔۔ لڑکی جو کہ نئی نئی شاعری کے میدان میں داخل ہو ئی تھی، ایسے منجھے ہو ئے شاعر کی سرپرستی، وہ بھی بیوی کے مکمل تعاون سے، تووہ تو خوشی سے پھولے نہ سماتی۔بیوی کی اس ساری حکمت عملی کا فائدہ یہ ہو ا کہ شاعر بہت خوش رہنے لگا او ر دوسری طرف اس لڑکی کویقین نہیں آرہا تھا کہ اسکی اچھی شاعرہ بننے کی خواہش ایسے شریفانہ طریقے سے بھی پو ری ہو سکتی ہے ، کیونکہ اس نے اس مختصر سے عرصے میں یہ جان لیا تھا کہ بغیرمطلب کے کوئی بھی سنئیر شاعر نہ تو اس کی راہنمائی کر ے گا نہ اصلاح۔۔

خیرشاعر کی بیوی اور لڑکی کی دوستی عروج پر تھی اور دوسری طرف شاعر اور وہ لڑکی بھی قریب ہو نے لگے اور ساتھ ساتھ شاعر اپنی بیوی کے بھی واری صدقے ہونے لگا۔ وہ تو جیسے دوبارہ سے جی اٹھا ہو۔اتنا مزہ تو اسے یو نیورسٹی کے رومانس میں نہیں آتا تھا اوپر سے بیوی سے ایسے غیرمشروط تعاون کی امید نہیں تھی۔ اب وہ حلق کا کانٹا نہیں بلکہ آنگن کا پھول لگنے لگی تھی جو خود بھی خوشبو دیتا ہو اور ساتھ دوسرے پھولوں کی خوشبو بھی اس تک لاتا ہو۔ وہ اسے بہت  زیادہ شاپنگ کروانے لگا، کیونکہ جب بھی وہ مال پر جاتے، اس کی بیوی، اسی لڑکی کو فون کرتی اور بتاتی کہ دیکھو ہم یہ یہ خرید رہے ہیں۔۔ دیکھو یہ مجھے ایک لپ اسٹک لے کر دے رہا ہے، اسے کہو، دو لے دے۔۔ تمھیں کون سا شیڈ پسند ہے۔ لڑکی بتاتی کلیجی تو ایک پنک اس کی اپنی پسند کا، اور ایک کلیجی لڑکی کی پسند کا لے لیا جاتا۔ اور شاعر کو لگتا جیسے اس نے لڑکی کو لپ اسٹک کا تحفہ لے دیا ہے پھر جب وہ اسے کھانے پر لے کر جا تا تو وہ اپنی اور شاعر کی تصویر کھینچ کر اسے وٹس ایپ کر دیتی، لڑکی کے کمنٹس آنے لگتے تو دونوں میاں بیوی مل جل کے پڑھتے اور خوب ہنستے۔۔اور شاعر کو لگتا جیسے وہ بیوی کے ساتھ نہیں لڑکی کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے۔ رات کو بیوی کن انکھیوں سے اسے اخبار والی تصویر پر ہاتھ پھیرتے دیکھتی اور اگنور کرتی اور ا س کے بعد جب وہ اس کے ساتھ شدت والا پیار کرتا تو وہ آنکھیں بند کئے اپنے آپ کو بہلاتی کہ جیسے اس کے شوہر کے تصور میں بھی وہ ہی ہے۔

وہ شاعرہ لڑکی بہت سادی تھی، وہ انجانے میں شاعر کی بیوی کے ہاتھوں کھلو نا بن رہی تھی، لیکن شاعر کی بیوی بھی اپنی جگہ ٹھیک تھی، ساری عمر لڑ جھگڑ کر اس نے گھر کا امن برباد کر کے بچوں کو متاثر کر کے دیکھ لیا تھا، کہ کتے کی دم ٹیڑھی ہی رہے گی۔ وہ مالی فائدوں اور بچوں کے باپ ہو نے کی وجہ کے ساتھ ساتھ شاعر کو اس لئے بھی نہیں چھوڑ سکتی تھی کہ وہ اس کی زندگی کی پہلی اور آخری محبت تھا۔ اس کے بعد اس کی دنیا ختم ہو جاتی تھی تو وہ اپنی دنیا کو اپنے طریقے سے بچانے کے لئے جو بھی کر رہی تھی، اسے جائز سمجھ رہی تھی۔

چیزیں اسی طرح حد میں چلتی رہتیں تو ٹھیک تھا، لیکن شاعر،اتنے سالوں کی گھٹن کے بعد، اس ضابطے کو برقرار نہیں رکھ سکا اور ایک دن اس نے اپنی بیوی کی غیر موجودگی میں، جب لڑکی، ایسے ہی ملنے آئی تھی اس کا ہاتھ تھام لیا اور کہا:
“تم میرے لئے دیوی ہو۔۔۔۔ میں تمھارے درشن کرنا چاہتا ہوں۔ آؤ میرے قریب آؤ۔۔ “لڑکی کو اس کی پیار بھری آنکھوں کا اندازہ تو بہت پہلے سے تھا، مگر وہ اس بات کو اپنے لئے خطرہ نہ سمجھتی تھی کہ اس کی بیوی درمیان میں کسی محا فظ کی طرح تھی۔
لڑکی اس اوچھے اور غیر متوقع وار سے گھبرا گئی اورہاتھ چھڑا کر بھاگ گئی۔۔ مگر گھر پہنچ کر دھیرے دھیرے اسے غصہ آنے لگا کہ کیا سوچ کر اس نامرد نے یہ حرکت کی ہے۔ اور چونکہ وہ اس کی بیوی کی بھی سہیلی تھی تو اسے دوستی کے نام پر یہ بہت بڑا دھبہ لگا اور اس نے بہت سوچ بچار کے بعد اس کی بیوی کو یہ سب بتا دیا۔۔ وہ بڑے تحمل سے سنتی رہی۔لڑکی حیران ہو ئی کہ اسے شدید رد عمل کی امید تھی مگر وہاں تو ایک گہرا سکون تھا۔۔

“اچھا سنو آج کے بعد یہاں فون نہ کرنا۔۔ “بیوی نے لڑکی کو انتہائی سپاٹ اور روکھے انداز سے کہا۔
“کیا؟ فون نہ کرؤں؟ میں آپ کی دوست ہوں۔۔۔۔۔۔”
“دوست ایسی ہو تی ہیں؟ تم انتہائی گھٹیا لڑکی ہو، میں تم پر اعتماد کر تی رہی اور تم میرے ہی شوہر پر ڈورے ڈالتی رہی۔ ”
“یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میں نے تو ہمیشہ آپ کی موجودگی میں ان سے بات کی ہے، آپ کی مرضی سے، بلکہ آپ دونوں تو مجھے آدھی آدھی رات کو خود کال کیا کرتے تھے۔۔۔۔اور اگر میں ایسی ہو تی تو آپ کو یہ بات خود کیوں بتاتی؟”
“میں تم جیسی عورتوں کو جانتی ہوں، شاعری کی آڑ میں مردوں کے ساتھ افئیر چلا تی ہو، شادی شدہ مردوں کا گھر خراب کرتی ہو۔۔ آج کے بعد یہاں فون کر نے کی ہمت نہ کرنا، ورنہ ساری کمیونٹی میں بدنام کر دوں گی۔۔۔ اور تمھاری جرات کیسے ہو ئی میرے شوہر کے منہ پر تھپڑ مارنے کی اور اس پر غلط الزام لگانے کی۔۔۔۔۔۔۔میں تمھیں جانتی نہیں کتنے مرد پیچھے لگائی پھرتی ہو۔۔میں تمھیں معصوم سمجھ کر تمھارے ساتھ نیکی کر رہی تھی مگر دیکھو تو ۔۔۔۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

لڑکی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔۔۔۔
اور شاعرہ کی بیوی نے فون رکھتے ہو ئے سوچا، “کم بخت کہیں کی اچھا بھلا اس کی وجہ سے گھر اور بیڈ میں امن اور لطف آگیا تھا۔ احمق کہیں کی، کیا تھا اصلاح دینے والے نے اگر ہاتھ پکڑ لیا تو۔۔ شاعری بھی تو اسی کی مشہور ہو نی تھی۔۔ لیکن ہو تی ہیں ایسی بھی بے وقوف عورتیں۔۔ میں بھی تو بہت سال پہلے کتنی بے وقوف تھی، دوسری عورتوں سے حسد کر نے والی۔۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ایسے مرد کے ساتھ رہنا ہے تو ایک دوسری عورت کا درمیان میں ہونا کتنی ضروری ہے وہ چاہے شاپنگ مال ہو یا یا پارک یا ریستوران یا بیڈ،ان جیسوں کے ساتھ زندگی کو پرلطف نہ سہی پر سکون رکھنا ہے توایک نئی عورت کی موجودگی ہر جگہ کتنی ضروری ہے۔اب ہماری گھریلو زندگی کا کیا بنے گا؟پھر سے وہی نگرانی کے چکر شروع، یہ تو بے ضرر دیکھی بھالی لڑکی تھی، اب نہ جانے کس چنڈال کے سا تھ منہ ماری کرے۔۔۔ شاپنگ، ہوٹلنگ، پکنک۔۔یہ سب بھی ختم۔۔ بورنگ اور انسیکیور لائف کا پھر سے آغاز۔۔ لعنت ایسی شریف  زادیوں پر، ٹھیک کیا میں نے منحوس کو کک آؤٹ کر کے۔۔لعنتی کہیں کی۔۔”

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ایک تھا شاعر، ایک تھی اس کی بیوی۔۔۔روبینہ فیصل

  1. ایک تھا شاعر، ایک تھی اس کی بیوی، روبینہ فیصل

    قلم کی جنبش روبینہ فیصل نے اپنی تحریر میں جو منظر کشی کی ہے اور جس طرح سے بے باک الفاظ سے اس میں رنگ بھرتی چلی گئی ہیں یقینا اس تحریر کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت کو سنا اور محسوس بھی کیا جا سکتا ہے!

    عورت اگر مرد کو تھوڑی سی سپیس دے، اور مرد اگر اپنی سپیس کا تھوڑا کم فائدہ اٹھائے تو بہت سے گھروں میں سکون پیدا ہو سکتا ہے!

    نہ ہی سارے مرد اس طرح کے ہوتے ہیں نہ ہی ساری عورتیں اس طرح کی ہوتی ہیں مگر ہم بہت سے رنگ اپنے اردگر کے کلچر سے لے کر اپنا لیتے ہے اور چلتی پھرتی زندگی کا ڈرامہ بن جاتا ہے۔

    زندگی میں تھوڑا بہت ڈرامہ بھی ضروری ہے مگر ہمیں اپنی حدود کا اتنا تحفظ ضرور کرنا چاہیئے تاکہ ہماری فلم نہ بنے۔

    انتہائی خوبصورت اور دلچسپ تحریر امید ہے کہ پڑھنے والے اس کے انتہائی مثبت اثرات لیں گے!

    ڈھیروں دعائیں، اس طرح کی تحریرں سامنے آنی چاہیں تاکہ ہر بال پر چھکا مارنے کی کوشش کرنے والے مردوں کو کلین بولڈ کیا جا سکے!

    زندگی میں رنگیناں بھرنے کی بجائے خدا کی قدرت کے خوبصورت رنگ بھرنے چاہیئں تاکہ کسی کی بھی زندگی بلیک اینڈ وائیٹ نہ ہو!

    میاں وقارالاسلام

Leave a Reply