میں اور مایا…سلیم مرزا

یقین کریں شیطان کی رہائی میں اور نواز شریف کی نااہلی میں میرا کوئی ہاتھ نہیں، میں کار سرکار اور عدالتی فیصلوں پہ کبھی اعتراض نہیں کرتا، مجھے اس بات پہ بھی کوئی اعتراض نہیں کہ کون کس کا جہاز لیکر ابے کی قبر ڈھونڈنے گیا اور کون زلفی بخاری کو عمرہ کروا کے لایا۔ میں مست ملنگ ٹائپ آدمی ہوں ،کبھی حالات اور موقع ساتھ دے تو ترنگ میں آکر ملنگ سے شوخ وشنگ ہو جاتا ہوں، اس سے زیادہ شیطان سے اپنی سلام دعا نہیں مگر اس کے رہاہوتےہی جو کچھ اس نے میرے ساتھ کیا وہ انتہائی قابل مذمت تھا، بس آپ سے یہ التماس ہے کہ مصیبت زدوں کی حالت پہ ہنسنے سے گناہ ہوتا ہے۔
مجھے سال میں بیگم صرف تین شلوار قمیض سلوا کے دیتی ہے، دو چھوٹی عیدپہ اور ایک بڑی عید پہ، باقی سارا سال جینز اور شرٹوں میں گذرتا ہے، جب بھی کوئی نیا سوٹ عطا ہو تو ساتھ گذشتہ سوٹ کی ادھڑی جیبوں کے شکوے، سگریٹ کے سوراخوں کے گلے، اور جیب کے لٹکنے کے طعنے بھی دئے جاتے ہیں۔ اب کی بار خیریت گذری، نہ رمضان میں مجھے کہیں ناپ کشائی کو بھیجا گیا، نہ ہی سوتے میں اٹھا کر رنگ پسند کروایا گیا، اس عید پہ میں مکمل ممنون تھا، راوی ہر طرف چین تو کیا، جاپان بھی لکھ رہاتھا۔ عید کی صبح عائشہ نے مجھے مہندی دیکھانے کو اٹھایا، پانچ منٹ تک اس کے ہاتھ پہ بنے مصری تحریروں جیسے نقش و نگار کی تعریف کی، دوبارہاتھوں پہ بنے “کچ مچولوں “کو چوما۔
صحن میں نظر پڑی تو دو اجنبی باتھ روم میں آتے جاتے دکھائی پڑے، “اوہ تو پلمبر آگئے “۔باتھ روم کی سیٹ کافی دنوں سے خراب تھی، عائشہ گئی تو پھر لیٹ گیا، آنکھیں بند کر کے اپنی زیر التوا فرینڈ ریکوسٹ کا سوچا، اچانک ایک خیال آیا، آج تو عید ہے، مگر لاشعور مسلسل نوٹیفیکیشن پہ تھا کہ وجہ حیرانی عید نہیں کچھ اور ہے؟ “اوہ ۔پلمبر عید کے دن بھی کام پہ آگیا “؟
اس بات پہ اٹھ کر اسے پوچھنا چاہئے تھا، لیکن ازلی کاہلی نے جواز دیا کہ بیگم سے کچھ بعید نہیں، جب ایک آرٹسٹ برتن دھو سکتا ھے، شاعر سے فیڈر بنوا سکتی ہے، رائیٹر سے کریلے براؤن کروا سکتی ہے تو عید پہ پلمبر بھی بلوا سکتی ہے۔ “مگر معمولی کام کیلئے دو پلمبر ؟”پتہ نہیں کب یہی سوچتے سوچتے سو گیا، آنکھ تیز وائبریشن سے کھلی، “اٹھ جائیں، آدھ گھنٹہ رہ گیا ہے ”
چشم خوابیدہ سے فنکار شدیدہ نے دیکھا کہ ہمیشہ پینٹ شرٹ میں رہنے والا چھوٹا بیٹا شلوار قمیض پہنے مجھے جھنجھوڑ رہا تھا، جسے میں پلمبر سمجھ رہا تھا اپنا فیضان تھا۔ فزکس کی رو سے دوسراپلمبر اس کے پیچھے کھڑا تھا۔چنانچہ اس کی شناخت ریحان کی حثیت سے ہوئی۔میری اولاد اتنی بدل جائے گی سوچا نہیں تھا۔بھاگ کر باتھ روم میں جاکر خود کو بھگویا، پھر باتھ روم کے دروازے کی جھری سے آواز دی “صابن کہاں ھے ” کہ شیمپو سے تعلق بھری جوانی میں ہی ٹوٹ گیا تھا
ریحان نے جھری سے صابن پکڑایا، بیک گراؤنڈ میں کوئی اینکر جنگی تجزیہ کر رہی تھی، مجھے اس پہ تبصرہ نہیں کرنا تھا، ورنہ عید کی نماز رہ جاتی “تولیہ کہاں ھے؟ “اب جھری سے تیز تیز چیخنے کی آواز، بھی آئی، جو مسلسل قریب آرہی تھی یوں محسوس ھوا کہ اینکر خود لائن آف کنٹرول کراس کر کے دم لے گی، میں دروازے کے پیچھے چھپا گھبرا گیا، سمجھ نہیں آرھا تھا کہ اگر حملہ ہوا تو عزت بچانی ھے یا ٹنڈ؟”تولیہ پکڑنے سے، دروازہ بند کرنے تک “آدھا لیٹر خون اور چھٹانک بھر شرم سوکھ گئی، اس عمر میں شرم ہوتی بھی چھٹانک بھر ہی ہے۔نہا کر باہر نکلنے سے پہلے، پھر جھری سے فنکاردشمن عناصر کی پوزیشن کا جائزہ لیا۔
کچن میں سے کچھ جلنے اور بہت کچھ ابلنے کی آوازیں آ رھی تھیں،
میں دبے پاؤں کمرے تک پہنچا،، شرٹ نکالی، استری کرنے ھی لگا تھا کہ ریحان ھینگر پہ شلوار قمیض لئے آگیا، ابھی میں کچھ کہنے ھی والا تھا کچن سے شیرنی کی دھاڑ جیسا کچھ سنا،
فورا پہننے کی کوشش کی،
قمیض کا آگے پیچھے کا حصہ علیحدہ ہونے سے انکاری تھا اسے ایک طرف سے ریحان نے دوسری طرف سے میں کھینچا، تو ایک تین فٹ قطر کے پاٰئپ جیسا کچھ بن گیا۔اب اس پائپ کو اپنے اوپر چڑھانے کی کوشش کی، گردن نکل گئی تو بازو “تننے” کو جگہ نہیں مل رھی تھی، خیر ریحان نے باھر سے کوشش کر کے دو پائپ اور دریافت کئے جس میں میرے بازو فٹ ھوئے، اب میں کھیتو ں میں کوے بھگانے والا جوکر لگ رھا تھا، جس کے سر پہ ھانڈی رکھی ھوتی ھے، گنج ھانڈی کی جگہ پرفیکٹ تھا،
مجھے ریحان نے ھمت دلائی کہ بازو نیچے کرلیں، مجھے ڈر تھا کہ سوٹ پہلے دن ھی نہ ٹوٹ جائے،
اب شلوار کی باری تھی، اس کے بھی دونوں پائپ گذشتہ سے پیوستہ تھے، اس میں سے گذرگاہ بنانے میں تھوڑی آسانی رھی،
اب اس ٹن پلیٹ کے سوٹ میں میں خود کو آئرن مین محسوس کر رھا تھا، میرے رکھ رکھاؤ میں ایک عجیب سی اکڑاور تمکنت پیدا ھوگئی تھی نماز عید کےدوران لاکھ عاجزی اختیار کی مگر وہ شیطانی سی اکڑ، رکوع و سجود میں بھی چھائی رھی، دائیں بائیں کسی کو دیکھنے کو دل نہیں تھا،
اگر گردن گھماتا تو کالر کی دھار محسوس ھوتی
“جسے ھو جان ودل عزیز وہ منہ گھمائے کیوں ”
کالر کی ایک اٹھی سائڈ گال پہ مسلسل کچوکے دے رھی تھی، یہ سر اٹھا کر جینے کی تنبیہہ تھی
نماز عید کے بعد،اکثر مسلمانوں کو اسی ٹن پلیٹ میں اکڑے پایا،
گلے ملتے تو یوں ڈر رھے تھے جیسے گاڑی کو ڈینٹ کا خدشہ ھو، اب گرمی نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا، دوسو سے گلے مل کر جب عیدگاہ سے نکلا تو پسینے نے کام دکھانا شروع کر دیا، اس آھنی لباس میں ھوا کا گذر تحریک انصاف میں میرٹ جتنا تھا، دیدہ اور نادیدہ جگہوں پہ پانی کا بہاؤ، محبت کے پھیلاؤ سے بھی بڑھ گیا،
شلوار میں جہاں الاسٹک تھا وھاں گیلا ھو کے خارش ھونے لگی ،ارد گرد سے نظر بچا کے اسے اوپر کیا، اب نئی جگہ پہ اس نے پانچ منٹ میں اثر، دکھانا شروع کر دیا تو میں اسے اوپر نیچے کرتاوھاں سے بھاگ نکلا،
بڑے بھائی کے گھر ائیر کنڈیشنڈ روم میں پہنچ کر پسینہ خشک ھوا،
اب سینے پہ عجیب سی فیلنگ شروع ھوگئی، میں نے چپکے سے باتھ روم میں جاکر دیکھا تو چھاتی کے بال قمیض سے چپک گئے تھے، قمیض اتار کر دوبارہ پہننے کے عمل میں ویکسنگ کی تکلیف کا پتہ چلا،
“عورتیں واقعی باھمت ھوتی ھیں ”
واپس پھر ڈرائنگ روم میں آیا تو صوفے پہ بیٹھتے شلوار کی “آسن “والی جگہ سے کوئی چیز پھر گئی،
پتہ نہیں چھری خربوزے پہ گری یا خربوزہ چھری پہ مگر کوئی بہت بڑا نقصان ھو چکا تھا،
اس کو نظر انداز کر کے ناشتہ کرنے ھی لگا تھا کہ اندرون خانہ کچھ چپکنے کی اطلاعات موصول ھوئیں، ریڈار کی پوزیشن بدلنے کی کوشش کی ۔مگر اطلاعات مصدقہ تھیں، بھیگ کر جو بھی خشک ھوا، چپک گیا،
اس پہ مصداق کپڑے میں ایک ریگماری خاصیت بھی پیدا ھو چکی تھی،جہاں بے دھیانی سے بیٹھتا، ریگ مار چمکا دیتا،
مجھے یقین تھا کہ اگر میں یہ اتار کر سنی لیون والے کپڑے پہن لوں تو جتنا چمک چکا تھا،
بے بی ڈول میں سونے دی، والا گانا مجھ پہ بھی ھٹ ھوتا۔
جیسے تیسے ناشتہ کر کے وھاں سے بھاگا، گاڑی کے پاس پہنچ کر دل کھول کر خود کو کھجایا، آپس میں الجھے ھوئے سامان کو ایک دوسرے سے بزور بازو علیحدہ کیا، ھر شئے پہ کوٹنگ جیساکچھ تھا
چلتا تو ایک ران دوسری ران سے چپک جاتی، جیسے میرے شہر کے رانے الیکشن کے دنوں میں ایک دوسرے سے چپک جاتے ھیں،
کبھی رانوں سے کوئی ووٹر چپک جاتا، اسے علیحدہ کرتا تو ووٹر اور سپورٹر مل جاتے،
ایک فقیرنی نے اسی دوران صدا،، دی مگر میرے ھاتھوں کی پوزیشن دیکھ کر نکل لی،
گھر پہنچ کر، اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کیا، بیگم کو سامنے بٹھایا اور، انتہائی محبت سے پوچھاکہ اس “مائع “لگی نوازش کی وجہ؟
اس نے بتایا کہ درزی نے سوٹ لیٹ سی کردیا تھا، اسے دھونے کا ٹائم نہیں تھا، لہذا، ۔۔۔۔۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply