• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایران کی طبقاتی جدوجہد بیسویں صدی میں (حصہ دوئم)

ایران کی طبقاتی جدوجہد بیسویں صدی میں (حصہ دوئم)

وقت اور زمانہ بدلا دنیا کے دیگر خطوں کی طرح بیسویں صدی میں ایران میں بھی طبقاتی جنگ سائنٹفک سوشلزم کے پرچم تلے لڑی گئی۔ ایران کی جدید کمیونسٹ تحریک کا بانی کامریڈ حیدر خان عمواوغلی تھا ۔روس کی سرزمین پر پیدا ہونے والا یہ انقلابی کامریڈ لینن کا ہم عصر’’رشین سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘(RSDLP)کا رکن اور اسٹالین و نریمان نریمانوف کا قریبی ساتھی تھا۔ روسی انقلاب میں سرگرم حصہ لینے والے اس انقلابی نے ایران میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے بطن سے ایران کی کمیونسٹ پارٹی’’ حزبِ کمیونسٹ ایران‘‘ اور پھر ’’تودے پارٹی‘‘ کا جنم ہوا ۔حیدر خان عمواوغلی 1920میں رجعت پسندوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔کامریڈ حیدر خان عمواوغلی کے بعد جس انقلابی نے ایران کی کمیونسٹ تحریک کو نئی توانائی فراہم کی وہ ممتاز مارکسی دانش ور ڈاکٹر تقی ارانی تھے۔ان کے انقلابی جریدے ’’دنیا‘‘ نے ایران کے محنت کش عوام میں مارکس ازم،لینن ازم کی ترویج میں کلیدی کردار ادا کیا ۔انھیں اپنی سرگرمیوں کی پاداش میں متعدد بار قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔انھیں 4فروری 1940کو زندان میں زہر دیکر قتل کیا گیا ۔تودے پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن کامریڈ خسرو روزبہ ایک روشن دماغ دانش ورتھے جن کی نظریاتی تصانیف کی تعداد 35سے زائد ہے۔وہ 1958میں گرفتار ہوئے اور 11مئی کو شاہ کے قاتل دستے نے انھیں گولیوں کا نشانہ بنا دیا ۔تودے پارٹی کے دو رہنماؤں کامریڈ پرویز حکمت جو اور کامریڈ علی خاور 1966میں گرفتار ہوئے، انھیں آٹھ سال کی سزائے قید سنائی گئی مگر جب انھوں نے قید کا یہ عرصہ مکمل کر لیا تو جیل میں ہی قتل کر دیے گئے ۔ تودے پارٹی کے ایک اور رہنما ظفر قہرمانی نے مسلسل 32سال شاہ کی جیل میں گزارے ۔تودے پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی قربانیوں کی تفصیلات کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں کہ تودے پارٹی کی جدوجہد اوراس کی قربانیاں عالمی کمیونسٹ تحریک کا شاندار باب ہے ۔

شاہ ایران کو تاریخ کے اسٹیج سے رخصت کرنے میں تودے پارٹی کا ناقابل فراموش حصہ اور قربانیاں تھیں مگر ایران کی کمیونسٹ تحریک صرف تودے پارٹی کی جدوجہد کا ہی نام نہیں ہے۔ شاہ کے خلاف ایران کے محنت کش عوام کی جدوجہد کے دوران بائیں بازو کی بہت سی جماعتیں اور گروپ قائم ہوئے ۔ ان میں سے بہت سوں نے شاہ کے خلاف گوریلا جنگ بھی کی ۔ایران کی گوریلا تنظیموں میں سب سے زیادہ شہرت پانے والی ’’ سازمان چریکائی فدائی خلق‘‘ تھی جو ’’فدائینِ خلق‘‘ کے نام سے معروف ہوئی ۔1971میں قائم ہونے والی یہ تنظیم کامریڈ امیر پرویز پویاں کی کوششوں کا نتیجہ تھی جو بعد ازاں ایک گوریلا جھڑپ میں شہید ہو گئے تھے ۔یہ دو گوریلا گروپوں ’’جنگل گروپ ‘‘ اور جزانی گروپ‘‘کے آپس میں مدغم کر کے بنائی گئی تھی ۔’’ جزانی گروپ‘‘ کی بنیاد جزانی ظریفی نے 1963میں رکھی تھی جو 1975میں ساواک کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ فدائینِ خلق روس ،چین جھگڑے سے قطعِ نظر جدوجہد پر یقین رکھتی تھی۔ اس کے اہم رہنماؤں میں علی اکبر، مسعود احمد زادہ اور بژن جزانی شامل تھے ۔یہ تنظیم نہ صرف ایران میں فعال تھی بلکہ اس کے ویتنامی انقلابیوں، فلسطین کی PLOاور جمہوریہ یمن وغیرہ سے قریبی تعلقات تھے ۔ اس کے اکثر گوریلوں نے کیوبا اورPLOکے تربیتی مراکز میں گوریلا جنگ کی تربیت حاصل کی تھی ۔فدائینِ خلق نے انتہائی بہادری سے ساواک کے مظالم کا سامنا کیا اور شاہ کے فرار تک اس کے خلاف جدوجہد کا پرچم بلند رکھا ۔ فدائین خلق کی ایک گوریلا خاتون کامریڈ اشرف دہقانی جو جیل سے فرار ہو گئی تھی نے اپنی یاداشتوں میں ان مظالم کا ہولناک نقشہ پیش کیا ہے۔دیگر تنظیموں میں ’’ارمانِ خلق‘‘،’’ستارۂ سرخ‘‘ اور ایک ماؤئسٹ گروپ ’’آزادی ء خلق ایران ‘‘ شامل تھا۔

شاہ کے خلاف جدوجہد میں ایک گروپ جس نے شہرت حاصل کی وہ ’’مجاہدینِ خلق‘‘ تھا ۔اس کی بنیاد 1965میں رکھی گئی تھی ۔اس کے بانیوں میں محمد حنیف نزہد، سعید محسن ،علی اصغر بادی زدگان، وغیرہ شامل تھے لیکن اس کے اصل نظریہ دان ریڈیکل کہلانے والا آیت اللہ محمود طلیقانی اور ڈاکٹر علی شریعتی تھے جنھیں ساواک نے لندن میں قتل کر دیا تھا ۔ ’’مجاہدین خلق‘‘ کے پروگرام میں ہر قسم کے استحصال کے خاتمے اور سوشلسٹ معیشت کی بات کی گئی تھی مگر یہ جدلیاتی مادیت پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ بہت سے ایرانی علما ء اور خود شاہ نے بھی اسے ’’اسلامک مارکسسٹ ‘‘ قرار دیا تھا ۔ مگر یہ کوئی کمیونسٹ یا مارکسسٹ تنظیم نہیں تھی بلکہ مابعد الطبعیات پر یقین رکھتی تھی۔یہ مابعد الطبعیات کی ان قدیم روایات کی امین تھی جس کی بنیاد عوام دوست جدوجہد پر استوار تھی ۔ایسا ہی ایک رحجان ہمیں لاطینی امریکا میں ’’لبریشن تھیالوجی‘‘ کی شکل میں بھی نظر آتا ہے ۔ بہرکیف یہ مابعد الطبعیات مجاہدینِ خلق کو شاہ کے بعد اس کی جگہ لینے والے خمینی کے قہر وغضب سے نہ بچا سکی۔ اس نے بعد ازاں عراق سے خمینی کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا ۔ ماضی میں شاہ اور خمینی کے مظالم کا نشانہ بننے والی یہ تنظیم اب گوریلا جنگ وغیرہ سے توبہ تائب ہوکر امریکی سامراج کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہے ۔امریکا نے اسے 1977میں دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا البتہ 2008میں برطانیہ نے اور ستمبر2012 میں امریکا نے اسے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا ۔

شاہ کے خلاف جدوجہد میں بائیں باز وکی جماعتوں اور گروپوں نے بھرپور حصہ لیا اور انہوں نے پورے سماج کو شاہ کے خلاف متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ایرانی مزدوروں ،کسانوں اور محنت کاروں سمیت دانشوروں اور متوسط طبقے میں ان کی گہری جڑیں تھیں لیکن وہ حالات کے جس جبر کا شکار تھے اس میں انھیں اپنی ساری قوت ایک جگہ مرکوز کرنے کا کبھی موقع ہی نہیں مل سکا ۔ جب کہ خمینی کی قیادت میں ایرانی ملاؤں نے ترقی پسندی کے خوب سوانگ بھرے اور اس کی آڑ میں ایران کے محنت کش عوام کی طبقاتی جدوجہد کو محض شاہ مخالف اور سامراج مخالف جدوجہد تک محدود کر کے اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔خمینی کی شاہ مخالفت اور سامراج مخالفت سے ایران کے سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقات کے مفادات کوکوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ الٹا ملاؤں نے انھیں ’’ اشتراکیت کے خطرے‘‘ سے محفوظ کر دیا ۔شاہ کے فرار کے بعد اقتدار پر خمینی کی مضبوط ہوتی گرفت ایرانی کمیونسٹوں اور محنت کش عوام کے لیے ایک المیہ ہی ثابت ہوئی جس کا اس وقت کوئی بھی ادراک نہ کر سکا تھا ۔ ایرانی کامریڈوں نے ’’ترقی پسند ملاؤں‘‘ کا تجزیہ کرنے میں غلطی کی جس کا ازالہ کرنے کی نہ تو انھیں مہلت مل سکی اور نہ ہی اس وقت وہ اس کے اہل تھے۔

ایک ایران کے قدیم انقلابیوں کی مابعد الطبعیات تھی جس مرکز ومحور محنت کش عوام تھے تو دوسری جانب بیسویں صدی میں ایرانی ملاؤں کی مابعد الطبعیات تھی جس نے بالا دست طبقات کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے شانوں سے سروں کا بوجھ ہلکا کیا اور آج تک ان کے کاندھوں پرسوار ہے۔رضا شاہ پہلوی نے اگر ایرانی عوام کے سروں پر ’’ساواک ‘‘ کی تلوار لٹکا رکھی تھی تو خمینی نے ساواک ہی کے طرز پر ’’ساواما ‘‘ اور ’’پاسدارانِ انقلاب ‘‘ بنا کر انھیں ان باقی ماندہ حقوق سے بھی محروم کر دیا جو شاہ کے دورِ استبداد میں انھیں حاصل تھے۔ایران ایک کثیر القومی اور مختلف ثقافتوں کا ملک ہے جن میں کرد، عرب اور بلوچ وغیرہ شامل ہیں لیکن خمینی کی لغت میں ایسا کوئی لفظ شامل نہ تھا سو قومی جبر نے شاہ کے زمانے سے بھی بھیانک صورت اختیار کر لی۔اگرشاہ کو ایران میں ہر جگہ سوویت یونین کے ایجنٹ نظر آتے تھے تو خمینی کو بھی سارا ایران ’’طاغوتی قوتوں‘‘ اور ’’روس کے ایجنٹوں ‘‘ کے نشانے پر نظر آتا تھا ۔شاہ کے بعد تختِ ایران پر متمکن ہونے والے آیات اللہ خمینی نے شاہ سے بھی زیادہ اختیارت حاصل کیے اور اس کی راہ میں جس نے بھی رکاوٹ بننے کی کوشش کی اس کا سرمہ بنا دیا گیا ۔ بالخصوص وہ ساری انقلابی تنظیمیں ، ٹریڈ یونینز، طلبا اور عورتوں کی تنظیمیں خمینی کے جور وستم کا نشانہ بنیں جنہوں نے شاہ کے خلاف جدوجہد میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں تھیں، مگر اب خمینی برسرِ عام کہتا تھا کہ ’’ایرانیوں نے مذہب کے لیے خون کی قربانی دی تھی سستے تربوزوں اور مکانات کے لیے نہیں‘‘۔

شاہ کے خلاف جدوجہد میں خمینی مزدوروں، کسانوں ، عورتوں اور طلباء کی جدوجہد کا معترف تھا لیکن برسرِ اقتدار آتے ہیں مزدوروں پر تشدد کی روش اپنائی گئی اور یکم مئی کے تہوار پر بھی پابندی عائد کردی۔ زرعی اصلاحات غیر اسلامی قرار دی گئی ،گھر سے باہر نکلنے والی عورتوں کو شیطان کی چیلیاں قرار دیتے ہوئے ان کے لیے ’’چادر اور چار دیواری‘‘ کے احکامات جاری ہوئے اور کالجوں اور یونیورسٹوں کو ’’طاغوتی مراکز‘‘ کہہ کر طلباکی مذمت کی گئی ۔ تودے پارٹی، فدائینِ خلق اور دیگر انقلابی تنظیموں جنہوں نے شاہ کے بدترین جبر اور تشدد کے دوران بھی خود کو قائم اور منظم رکھا تھا خمینی نے ان کا شیرازہ کچھ اس طرح بکھیرا کہ ایران میں ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا ۔ ان کے بہت سے رہنماملاؤں کی جیلوں اور اذیت گاہوں کی خاک میں مل کر خاک ہو گئے،کچھ کسی نہ کسی طرح ایران سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور طویل جلاوطنیاں ان کا مقدر ٹھہریں۔پورے ایران کو کمیونسٹوں کے لیے ایک ایسے مقتل میں تبدیل کر دیا گیا جس کے سامنے شاہ دور کے مظالم بھی معمولی معلوم ہونے لگے۔تودے پارٹی کے جنرل سیکریٹری کامریڈنور الدین کیانوری جن کی عمر 65سال تھی انھیں بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ٹیلی ویژن پر لاکر سوشل ازم کی مذمت اور سوویت یونین کے ایجنٹ ہونے کا اقرار کرنے پر مجبور کیا گیا ۔کمیونسٹوں کے خلاف ایسا ’’لکڑ ہضم ،پتھر ہضم ‘‘نسخہ تو شاہ ایران اور ’’ساواک‘‘ کو بھی نہیں سوجھا تھا۔کیانوری اس کے بعد طویل عرصے تک زندہ رہے مگر انھیں مرتے دم تک( 5نومبر 1999)نظر بند رکھا گیا ۔

یہ تھی ایران میں عہدِقدیم سے جدید تک کی طبقاتی جدوجہد کے خدوخال۔ مزدک کی تحریک جیسا کہ ہم نے ابتدا میں لکھا کہ یہ اس زمانے کی دیگر طبقاتی تحریکوں کی طرح مابعد الطبعیاتی رنگ کی حامل تھی مگر یہ امر قابلِ غور ہے کہ قباد، نوشیرواں اور زرتشتی علماء ہوں یا بعد کے حکمران،یہ سب کے سب مابعد الطبعیاتی ہی تھے مگر مانی سے مزدک اور مقنع بابک خرمی تک حکمران طبقات کے لیے ان میں سے کسی کے مابعدالطبیعاتی افکار اور تعلیمات قابلِ قبول نہ تھیں کیوں کہ یہ ان کے طبقاتی مفادات کے خلاف تھی ،اس سے ان کی ذاتی ملکیت کا تقدس پامال ہوتا تھا اور ان کی عیش وآرام کی زندگی میں خلل پڑتا تھا ۔سو ان انقلابیوں کا قتل روا رکھا گیا ،ان کے پیرؤں کو چن چن کا مارا گیا ،ان کی تعلیمات کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ مذہب یعنی مابعد الطبعیات ہی کے نام پر کیا گیا ۔ایک مزدک اور اس سے قبل و بعد کی مابعد الطبعیات تھی جو اپنے جوہر میں عوام دوست اور ترقی پسند تھی ایک آج کی ایرانی، طالبانی،القاعدہ ،داعش، صہیونی، ہندواور بدھا مابعد الطبعیات ہے جوعوام دشمن اور انسان کش ہے جس کی وحشت اور سفاکیت کے مناظر آج ایشیا سے لے کر افریقہ تک دیکھے جا سکتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے طبقاتی دشمنوں سے نجات کی جدوجہد میں ان کے خلاف ناگزیر جدوجہد بھی محنت کش عوام اور ان کی جماعتوں کاتاریخی فریضہ ہے ۔ عالمی کمیونسٹ تحریک کئی نشیب وفراز سے گزر چکی ہے اس کے دامن میں اگر بے پناہ کامیابیاں ہیں تو یہ بدترین ناکامیوں اور شکستوں سے بھی دوچار ہوئی ہے مگر یہ سب دنیا بھر کے محنت کشوں کا ورثہ ہے ۔نوعِ انسانی کے پاس اگر نجات کا کوئی راستہ ہے تو وہ جدید سائنسی افکار یعنی سائنٹفک سوشلزم ہی ہے نہ کہ مابعد الطبعیات جس نے فی زمانہ انتہائی رجعتی اور بھیانک شکل اختیار کر لی ہے ۔جلد یا بدیر محنت کش عوام انسانیت سوز سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ساتھ اسے بھی تاریخ کے اندھیر غاروں میں اٹھا پھینکیں گے ۔کیوں کہ یہ مابعدالطبعیات ،چاہے یہ خود کو جتنا بھی سامراج مخالف کہے اور کوئی اس کا جتنا بھی معذرت خواہ بنے، یہ سرمایہ داری ہی کا ایک آلہ اور سامراج کی پیداوار ہے۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply