اسے کہنا محرم آ گیا ہے

اللہ نے ہمارے “ڈھاری” بھائیوں کو حس لطافت فطری دی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے موسیقی کو بطور فن اپنایا اور اسکی میراث قائم رکھی۔ اسے لیے میراثی بھی کہا جاتا ہے۔ آج جب شاید ہی کوئی اپنے آباء کے پیشے پر ہو(گو اس پیشے کی وجہ سے ملنے والی ذات پہ تفاخر اب بھی قائم ہے) ہمارے یہ دوست اب بھی اپنے آباء کی میراث سنبھالے ہوے ہیں۔ خیر، کہتے ہیں کہ ایک بوڑھا میراثی مرنے والا تھا اور اسکے بیٹے سب کام دھندے چھوڑ کر اس کے اردگرد جمع تھے۔ اب پرانی خوراکوں والے بابے جلدی مرتے بھی کہاں ہیں سو فراغت کا یہ دور بڑھتا جا رہا تھا۔ اتنے میں ایک نے دوسرے بھائیوں سے کہا “یار ویلے بیٹھے آں، ابے دے مرن تک مَٹھی مَٹھی ڈھولکی نہ ہو جائے؟”(یار فارغ ہی بیٹھے ہیں تو ابا کے مرنے تک ہلکی ہلکی ڈھولکی نہ بجا لیں)۔

محرم کی آمد آمد ہے، عاشورہ کے دس دن پاکستان میں تقریباً چھٹی ہی شمار ہوتے ہیں۔ اور ایسے میں آپ کو اپنے اردگرد کئی دوست “ہلکی ہلکی ڈھولکی بجاتے” نظر آ جائیں گے۔ کسی کو اچانک یاد آئے گا کہ وہ تو شیعہ پیدا ہوا تھا اور اگر ان دس دنوں میں اس نے فیس بک پر غم کربلا نہ کیا تو بخشش کیسے ہو گی، کسی کو یہ ساری تاریخ ہی “چرسی تاریخ” لگے گی، کوئی یزید لعین کے بہانے بنو امیہ پر حملے کرتا دِکھے گا تو کوئی بنو امیہ کی محبت میں یزید لعین کو بھی تابعی کہہ کر تاویلات کرے گا۔ عین محرم سے قبل ایسے ایسے شگوفے چھوڑے جائیں گے جیسے کربلا ابھی کل کا واقع ہے اور یہ دوست اس کے چشم دید گواہ۔ کئی تو یزید لعین، شامی اور ہاشمی فوجوں یا امام الشہدا(ر) کے بیانات بھی ایسے لکھتے ہیں جیسے سیدھا ان ہی سے کہے گئے ہوں۔ کسی کا بس نہی چلتا کہ بیس کروڑ پاکستانی سڑک پر “یا حسین”(ع) کہتے نکل آئیں تو کوئی تلا ہے کہ صدیوں سے جاری یہ جلوس چار دیواریوں میں مقید کر دے۔ ان کی ایسی پوسٹوں کے نیچے آپ کو وہ لوگ تاریخ اور مذہب پہ فتوے دیتے، مفتی بنے نظر آئیں گے جن کو ماسٹر نے دوران تعلیم مرغے کے علاوہ کچھ بننے ہی نہیں دیا۔ صاحبو، سمجھ جائیے، کہ یہ سب بس “ہلکی ہلکی ڈھولک بجا” رہے ہیں، سو آپ بھی می رقصم سے گریز کیجیے۔

محرم، مذہبی کے علاوہ ہمارا ایک تاریخی ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ صدیوں سے یہاں امام عالی مقام (ر) کی عظیم قربانی کی یاد منائی جاتی رہی ہے۔ اس ورثے میں آپکو شیعہ رنگ کے ساتھ ساتھ سنی رنگ حتی کہ ہندو رنگ بھی ملیں گے۔ یہ تہوار انگریز کی آمد تک شاید ہی کبھی وجہ نزاع رہا ہو کہ امام(ر) تو سب کے سانجھے اور قربانی اور حریت کا استعارہ تھے اور ہیں۔ یہ جو نفرت کی تازہ لہر چلی، اس کے چلنے سے زرا پہلے تک، میں نے خود دیکھا کہ احترام محرم سب کرتے تھے۔ گو میں فرقے نہیں مانتا مگر ایک سنی گھرانے کا بیٹا ہوں اور ہمیشہ دیکھا کہ دس دن کا احترام سکھایا گیا۔ یہ دس دن ٹی وی پر ڈرامے، فلمیں یا گانے نہیں دیکھے جاتے تھے۔ شیعہ دوستوں کے سامنے ہنسی ٹھٹھے کی بات نہیں کی جاتی تھی، شیعہ دوست اپنی مجالس میں جو بھی کہتے پھریں، ہمارے سامنے کوئی غلط بات نہیں کرتے تھے، سبیلیں ماتمی جلوسوں میں اکثر اہل سنت کی ہوتی تھیں اور کئی جگہ تو شاید اب بھی جلوس کا “لائسنس” کسی سنی بھائی کے ہاتھ میں ہو۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ دونوں طرف سے وہ لوگ حب اہل بیت اطہار اور ناموس صحابہ کے نام پر سامنے آئے، جو اہل بیت اطہار کیلیے بھی اور صحابہ کیلیے بھی کبھی باعث فخر نہیں ہو سکتے۔ محرم سمٹ کر شیعہ ہو گیا اور امت واضح تقسیم۔

محرم کے یہ دس دن، کربلا کی یاد ہیں۔ وہی کربلا جہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے نے بھوک اور پیاس کی حالت میں اپنا گھر لٹا دیا، کسی ہوس اقتدار میں نہیں، اللہ کا حکم نافذ کرتے ہوے، طاغوت کی اطاعت سے انکار کرتے ہوے، دور ملوکیت کی پہلی حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے ہوے۔ امام کی یہ قربانی صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ کل انسانیت کا اثاثہ ہے۔ اسی کربلا سے ہمیں سیدہ زینب(ر) کی وہ شجاعت اور حریت ملتی ہے جو آج بھی عورت کا فخر ہے، اسلام پر عورت کو دبانے کے الزام کا بہترین جواب ہے۔ ہم چودہ اگست مناتے ہیں، چھ ستمبر مناتے ہیں، پچیس دسمبر مناتے ہیں؛ تو اس اسلامی تاریخ کے اہم ترین دنوں میں سے ایک کو بھی منا لیجیے۔

وقت نے جہاں بہت کچھ بدلا ہے وہاں ماتمی روایات بھی بدلیں ہیں۔ آج اس میں ایسا بہت کچھ ہے جو مقصود نہ تھا اور اہل تشیع میں سے ہی صاحبان فکر اسکی مخالفت میں بہترین کردار ادا کرتے ہیں۔ میرے بھائی مفتی امجد عباس جیسے کئی دوست غالی روایات کے خلاف علم اٹھائے اپنوں کے تیر کھاتے ہیں۔ عاشورہ کا احترام نہ کر کے، کربلا کو متنازعہ کرنے کی کوششوں سے اور اس واقعہ کے ذمہ داروں کی تاویلیں کرنے سے، آپ انکے ہاتھ کمزور کرتے ہیں۔ عاشورہ کا اتنا احترام ضرور کر لیجیے جتنا ہم اپنے ہمسائے میں ہونے والی کسی مرگ کا کر لیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فیس بک پر شرارتی لوگوں سے دور رہیے۔ یہ مباحث علمی ہوں تو مضمون بن کر کسی مجلے یا سائیٹ پر نظر آئیں گے؛ اگر پوسٹ بنا کر تفرقے کو جنم دے رہے ہیں تو یقین کیجیے، بابے کے مرنے کے انتظار میں ہلکی ہلکی ڈھولکی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”اسے کہنا محرم آ گیا ہے

  1. بہترین تحریر…

    بقول قبلہ غالب…
    دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
    میں نے یہ جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

Leave a Reply