ابا کا انتقال۔۔محمد وقاص رشید

ابا  امید ہے جنت میں ہونگے ، بلکہ دل کہتا ہے لازمی ہو نگے ۔ کیونکہ آپ کو شوق ہی بڑا تھا جنت میں جانے کا ۔یہ میں دیکھتا تھا تو کیا خدا نہیں دیکھتا ہو گا۔ ؟ یقیناً ہاں۔
آج کا دن تھا،  یہی آج کا دن،اس دن تک زندگی کے ہر راستے پر آپ مجھے لے کر نکلے تھے ۔۔ مگر پھر یہ دن آیا تھا ۔ مجھے ،آپکو لے کر نکلنا پڑا تھا، کیونکہ اس سے پہلے آپ کبھی لیٹے ہی نہیں تھے۔ پہلی اور آخری بار آپ لیٹے اور میں نکلا آپکی ڈوبتی سانسوں اور مرتی دھڑکنوں کا خدا سے ادھار لینے ۔ وہ جس نے زندگی میرے نام لگا دی اسکے لیے چند گھڑیاں مستعار لینے۔  عجیب کاروبارِ حیات ہے ابا۔۔ ۔مگر آپ سے کاروبار کی بات کیا کرنی دو جمع دو چار میں آپ پہلے دو ہی کے آدمی تھے ۔دینا سے دو۔  اقدار دو ،افکار دو ، کردار دو وقار دو۔  جو پاس ہے دو اور چلتے بنو ۔

جب آپکے طبیب نے مجھے کہا تھا کہ انہیں لاہور لے جاؤ تو میرے ذہن میں تب تو لاہور کی سڑک کے علاوہ کچھ نہیں تھا لیکن اب ضرور آتا ہے کہ کتنی قیمتی جانیں یہاں سڑکوں پر بڑے شہروں میں بکتی زندگی کی جانب دوڑتے دوڑتے تھک جاتی ہیں، وقت پر سانسیں بانٹنے کی جگہ پر نہیں پہنچ پاتیں لیکن سانسیں پوری ہونے کے مقام پر بروقت پہنچ جاتی ہیں ۔یہ جملہ اس دن میرے اور آپکے بخت میں لکھا گیا تھا جس دن آپ نے بیٹی اور مٹی کی محبت میں ملکوال میں اپنی سکونت کی بنیاد کی پہلی اینٹ رکھی تھی۔ مٹی کی محبت کی قیمت یہاں زندگی ہوتی ہے ابا جی ۔۔کیونکہ امیر ہو نہ ہو غریب انسان یہاں مٹی کا ہی بنا ہوتا ہے۔

ابا ! کیا بتاؤں لاہور کا راستہ کتنا طویل تھا، ایک ایک لمحہ ایک صدی تھی،اُمید اور یاسیت کے درمیان لٹکتی زندگی کی لاش کی طرح ۔ابا لاش میرے بچپن کی، مجھ پر ٹھنڈی چھاؤں کی ۔میری خوشیوں کی، میری فرزندگی کی، میری راہوں میں جلتے قطبی چراغ کی۔  ہاں جی ہاں جفا کے رستے پر مقدر کے ستارے نہیں ہمت کے چراغ رہبری کرتے ہیں ،ہم جیسوں کی۔  اب آپکے دیے سبق آپ ہی کو کیا سنانے۔ سورج کو یہی قطبی چراغ اٹھا کر کیا دکھانا ۔غصہ کر جائیں گے  ۔ سچ پوچھیں تو آپکے غصے کو بھی ترسے ہم آپکے بعد ۔ اللہ جانتا ہے!

دوبارہ بھی جنم لوں تو لاش نہیں لکھ سکتاآپ کو ۔  جتنی بھی ہمت حوصلہ اور طاقت آپ نے دی سب کو جمع کر کے بھی نہیں۔۔۔ نہ ابا نہ ۔۔ باپ نہیں مرتا ابا۔۔۔ نہیں مرتا۔۔۔۔ آپکے اندر سے آپکا مرا تھا کبھی۔؟اور آپ جیسے لوگ صرف زندہ رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ خط آپ کو خدا کے توسط سے جنت کے ڈاکخانے کے پتے پر ملے تو آپ پڑھ کر ازل کی عاجزی کا شاہکار بندہ یقین نہ کریں ۔  پر پوچھ لیجیے اپنے یار خدا سے ابا کہ کیا واردات ہوئی آپ کے بعد یہاں۔

اچھا میرا بچپنا دیکھیں دور دور تک سوچا ہی نہیں تھا کہ لاہور کا ڈاکٹر میرے بچپن کا دوست ڈاکٹر سبحانی مجھے وہ کہے گا جو سنا ہے خدا نے موسی سے کہا تھا کہ آیندہ زندگی کی ذمہ داری اپنی ۔دعاؤں کی ڈھال اب کوئی نہیں۔  پکڑ یہ سرٹیفیکیٹ یتیمی کا اور چلتا بن۔  تیرے والد کا انتقال ہوا ۔۔

ہاں ابا آپ جیسے لوگ مر نہیں سکتے، انتقال کرتے ہیں، منتقل ہوتے ہیں ۔آپ بھی نہیں مَرے۔  منتقل ہوئے۔۔ دنیا زندہ ہی مادیت کے راستے میں نظریات کے بندھ باندھنے والوں کے دم سے ہے۔ اس ظلمت کدے میں یہ روشنی ہے ہی جفا کی ہواؤں میں جلتے وفا کے چراغوں کی پھڑپھڑاتی لو سے۔ خود میں کانٹوں کی ٹوٹی ہوئی نوکیں لیے باغبان ہاتھ ہی گلشن میں گلابوں کی خوشبو کے امین ہیں ۔جستجو پرست آنکھوں کو منزل ملے نہ ملے مگر منزل پانے والوں کو اسی بصارت کا خراج ملتا ہے،  منزل کی صورت میں۔ اور خواب دیکھتے نینوں میں معلوم ہے کہ تعبیر سے پہلے سراب کا موتیا اترتا ہے لیکن خواب کاوش اور تعبیر کی تکون کے سِرے اسی موتیے پر آکر ملتے ہیں ابا ۔

آج تک اگلے جہان کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا ۔ آپکے انتقال پر آیا ابا ۔آپ کا اگلا جہان آپکی اولاد ہے بابا، آپ یہاں منتقل ہوئے اُدھر۔   یہاں ایک بیٹی میں جو میری بڑی بہن ہے ۔ جس کی محبت آپ کے خون میں رچی بسی تھی۔  فرشتہ اجل نے جسے آپ کے جسم سے نکال کر پیامِ مرگ تھمایا تھا وہ روح آپکی بیٹی ہی تو تھی،بتاؤں کیسے یقین آیا۔؟ جب مجھے چھوڑیے آپکے بڑے بیٹے نے میری اور میرے جڑواں دونوں کی بیٹیوں کو یوں دل سے چاہا روح میں بسایا کہ جیسے “ابی اور تاملوش”۔ ہارون صاحب نے اپنے بیٹے ثوبان سے تعلق کی خلش اور حسرتوں کی وہ پیوندکاری بھی کی جو رہ گئی تھی۔ وقار کا ریموٹ کنٹرول ریحاب نے جب اسکے حسین چہرے کی مسکراہٹوں اور آنکھوں کے آنسؤوں کا چارج سنبھالا تو پتا چلا کہ آپ گئے نہیں آئے ہیں ۔باپ بیٹی کی محبت کائنات کی سب سے مقدس آسمانی کالی کملی کی اپنی بیٹی کے لیے زمین پر بچھنے کی میراث ہے۔

ہارون صاحب آج شاید دبئی میں اپنی کمپنی چلا رہے ہوتے اگر آپ نے چالیس سال پہلے ریلوے اسٹیشنوں پر نوالہ حرام سے کیے گئے انکار کی تجدید انکے اندر آ کر دبئی میں نہ کی ہوتی ۔جفا کش وقار کو قبولیت کے ہنگام وفا کیشی کا ہنر کس نے سکھایا۔   یقین مانیں اسکی نیک نیتی پر تو راج ہے آپ کا۔ آپکی بیٹی کیا کہوں ابا جی کوئی تمغہ حسن کارکردگی ہے آپکا۔  آپکی عمر بھر کی کمائی ہے، اسکا خیر اور اخلاصِ نیت کا شاہکار ہونا، ناچیز میں بھی آپ یوں تشریف لائے کہ بڑی مہربانی بڑی عنایت۔ زندگی کے بیشتر مواقع پر خود میں آپکو سوچتے پایا۔  یہ میری نظمیں یہ تحریریں یہ مضامین یہ اس علمیت اور زورِ قلم کی عطا ہے جو آپ کے پاس تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موت آپ جیسوں کو مار نہیں سکتی ابا ۔ موت تو ماں باپ کو اولاد میں منتقل کرنے کے لیے آتی ہے۔ آپ ورثے کی طرح ہم چاروں میں منتقل ہوئے، ترکے کی طرح تقسیم ہو گئے ۔آپ کی روح ہم میں حلول ہوئی ابا۔ اب آپ کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کا فرض جاری و ساری ہے وہ انتقال جسکا آغاز آج کے دن ہوا تھا، زمین پر آپکی پندرھویں برسی،  جنت میں پندرھویں سالگرہ،کیونکہ امید،  آں ہاں۔۔  یقین ہے کہ آپ جنت ہی میں ہونگے کیونکہ جنت میں جانے کا آپ کو شوق ہی بڑا تھا۔ ۔ابا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply