• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • آر ایس ایس کا مسلمانوں کیلئے تین نکاتی مشروط فارمولہ (2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

آر ایس ایس کا مسلمانوں کیلئے تین نکاتی مشروط فارمولہ (2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

2007میں سمجھوتہ ٹرین دھماکوں کے بعدجب ہندو دہشت گردی کی بازگشت سنائی دینے لگی، تو میں نے جنوبی دہلی میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ویشیو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ہیڈ کوارٹر میں ہندو قوم پرستوں کے شعلہ بیان لیڈر ڈاکٹر پروین بائی توگڑیا کا انٹرویو کیا۔ وہ اسوقت تنظیم کے انٹرنیشنل جنرل سیکرٹری تھے۔ میں نے چھوٹتے ہی پہلا سوال کیا، کہ ‘‘آپ توایک ڈاکٹرہیں اور وہ بھی کینسر سپیشلسٹ۔ آپ انسانوں کے جسم سے کینسر دور تو کرتے ہیں، مگر سوسائٹی میں کیوں کینسر پھیلاتے ہیں۔‘‘ تو ان کا جواب تھا۔ ‘‘کہ ہم بھارتی سوسائٹی میں مدرسہ اور مارکسزم کو کینسر مانتے ہیں اور ان دونوں کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے وچن بند ھ ہیں۔ چاہے اسکے لئے سرجری کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑے۔ــ‘‘ کئی اور سوالوں کے بعد میں نے ان سے پوچھا، کہ بھارت میں تو تقریباً 15کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ اور ان سبھی کو تو آپ ختم نہیں کرسکتے۔ کیا کوئی شکل نہیں ، کہ ہندو اور مسلمان شانہ بہ شانہ پرامن زندگی گزارسکیں۔تو اپنے مخصوص انداز میں میز پر مکہ مارتے ہوئے انہوں نے کہا،‘‘ ہاں ہاں کیوں نہیں،ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھارت کے کلچر اور تہذیب کو پروان چڑھانے میں اعانت کی ہے۔مگر ہمیں شکایت مسلمانوں کے رویہ سے ہے۔ وہ اپنے مذہب کے معاملے میں احساس برتری کا شکار ہیں۔ وہ ہندوئوںں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں اور ہمارے دیوی دیوتاوں کی عزت نہیں کرتے۔ ہمیں مسلمانوں سے کوئی شکایت نہیں ہے ، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں۔‘‘ میں نے ان سے پوچھا ، کہ آیا ہندو جذبات سے ان کی کیا مراد ہے توان کا کہنا تھا۔ ‘‘کہ ہندو کم و بیش 32کروڑدیو ی دیوتاوں پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے لئے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلامﷺ کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں ۔ مگر مسلمان اسکی اجازت نہیں دیتے ہیں، اور نہ ہی اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘‘ اپنے دفتر کی دیوار پر سکھ گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، توگڑیا نے کہا، کہ دیگر مذاہب یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندو ئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا۔اور تو اور مسلمان محمود غزنوی، اورنگ زیب، محمد علی جناح، اور دہلی کے امام احمد بخاری کو اپنا رہنما مانتے ہیں، یہ سبھی ہندو رسوم و رواج کے قاتل تھے۔ شاید ہی کوئی مسلمان عبدالرحیم خانہ خاناں، امیر خسریا اسی قبیل کے دانشورں کو قابل تقلید سمجھتا ہے۔ یہ سبھی شخصیتیں ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔ اسی طرح ایک روز بھارتی پارلیمان کے سینٹرل ہال میں، میں نے صوبہ اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ، جو ان دنوں ممبر پارلیمنٹ تھے ،سے پوچھا، کہ ’’ آپ آئے دن مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی کروڑوں میں ہے۔ ان کو تو ختم کیا جاسکتا ہے نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے ۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے، کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان شانہ بہ شانہ پرامن زندگی گزارسکیں؟ تو انہو ں نے کہا، ’’کہ ہندو کبھی متشدد نہیں ہوتا ہے۔‘‘ تاریخی حوالے دیکر وہ کہنے لگے ’’ہندو حکمرانوں کے کبھی بھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں۔مگر اب و ہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔کیونکہ ان کا مذہب ، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں۔ اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ ہندوئو ں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں۔ ہندوئو ں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں اور ہمارے دیوی دیوتاوں کی عزت نہیں کرتے اور ہندو جذبات کا خیال نہیں رکھتے۔ــ‘‘ لوک سبھا کی کارروائی شروع ہونے جارہی تھی، مسلسل کورم کی گھنٹی بجائی جا رہی تھی۔ یوگی جی اب ایوان میں جانے کیلئے کھڑے ہوگئے۔ مگر جاتے جاتے پروین توگڑیا کا جملہ دہرایا ، ’’ کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ دیگر اقلیتوں سکھوں، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہیں۔‘‘ اسی طرح غالباً گجرات فسادات کے بعد 2002 میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر فتر ناگپور چلا گیا۔ جس میں اعلیٰ پایہ مسلم دانشور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے آرایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم کے لیڈر شپ کو قائل کرنا تھا اور اُن کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے نظریہ کو رکھنا تھا۔جب اس وفد نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟اس کے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ ضرور آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ ’’آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجئے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے۔اسلام ہی حق ہے کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جارہا ہے۔ آرایس ایس علمائو دانشوروں پر مبنی اُس وفد کواُس وقت قائل نہیں کرسکی کیونکہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے تھے اور اُس مطالبے کو ماننے سے ایمان کا کیا حشر ہوجائے گا، اس بات کی بھی وہ بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ اپنی سوانح حیات’’ یادوں کی بارات ‘‘میں معروف شاعر جوش ملیح آبادی بھارت کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کے ساتھ اپنی میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ انہوں نے انگریزی میں مجھ سے کہا، آپ نے سنا ہوگا کہ میں مسلمان کا دشمن ہوں آپ جس قدر برہنہ گفتار آدمی ہیں، اسی قدر میں بھی ہوں، اس لیے آپ سے صاف صاف کہتا ہوںمیں آپ کے ان تمام مسلمانوں کی بڑی عزت کرتا ہوں ، جن کے خاندان باہرسے آکر، یہاں آباد ہو گئے ہیں، لیکن میں ان مسلمانوں کو پسند نہیں کرتا ، جن کا تعلق ہندوقوم کے شودروں اور نیچی ذاتوں سے تھا، اور مسلمانوں کی حکومت کے اثر میں آکر انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، یہ لوگ دراصل نہایت متعصب، شریر، اور فسادی ہیں، اور اقلیت میں ہونے کے باوجود، ہندو اکثریت کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ سردار پٹیل کا یہ جملہ ہندو قوم پرستوں کی پوری ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ انکو امت کے تصور سے زیادہ اسلام کے آفاقی سماجی انصاف کے نظام سے خطرہ لاحق ہے ، جو حج کے وقت یا امت کے تصور چاہے وہ تخیلی ہی کیوں نہ ہو، سے ظاہر ہوجاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلے ایک ہزار برسوں سے اس خطے پر حکومت کرنے کے باوجود مسلمان جنوبی ایشیا میں اس سماجی انصاف کے نظام کو لاگو نہیں کرپائے، بلکہ خود ہی طبقوں اور ذاتوں میں بٹ گئے، ورنہ شاید اس خطے کی تاریخ اور تقدیر ہی مختلف ہوتی۔بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply