انتخابات اور ہمارا سیاسی شعور۔۔۔عمار یاسر

انتخابات کی آمد آمد ہے اور ملک کی مجموعی سیاسی فضا ویسی ہی ہے جیسے پچھلے ستر برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ سیاستدان آپسی کشاکش اور سیاسی ہلڑ بازی میں مصروف ہیں اور میڈیا اپنی شعبدہ بازی میں سرگرداں ہے۔ ایسے میں ہمیشہ کی طرح عوام کے بنیادی اور حقیقی مسائل سے روگردانی کی روایت بدستور برقرار رکھی جا رہی ہے۔ ہمیشہ انتخابات کے نزدیک ایک نعرہ سننے میں آتا ہے کہ “چہرے نہیں نظام بدلو”۔ مگر یہاں نظام بدلنا تو کجا چہرے بدلنے کی بھی زحمت نہیں کی جاتی۔ وہی سیاستدان، وہی چہرے ایک جماعت چھوڑ کر دوسری جماعت کا حصہ بن رہے ہیں ۔ غربت، افلاس، مہنگائی، تعلیم اور صحت عامہ کی خراب صورت حال بلکل نہیں بدلی۔ اگر کچھ بدلا ہے تو چہروں کے پیچھے پوسٹرز کا رنگ اور انتخابی نشان۔ ایک بات تو مسلم ہے کہ جمہوریت کے پنپنے اور پروان چڑھنے کے لئے جمہوری و سیاسی شعور کا ہونا بہت ضروری ہے۔

ہمارا مجموعی سیاسی شعور برادری، ذاتیات ، شخصیت پرستی اور خاندانی سیاست تک محدود ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی نوجوانوں کی اکثریت کو ان بحثوں میں الجھا دیکھتا ہوں کہ عمران خان کی کتنی شادیاں ہیں؟ اس نے شادی کیوں کی؟ اور دوسری طرف مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟

غرض یہ کہ ایک طوفان بدتمیزی ہے جو برپا رہتا ہے اور ایسے میں فقط کف افسوس ملنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی اکثریت ہے جو ملکی تعریف کے مطابق تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ جو شخصیت پرستی میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ انکے نزدیک اپنے بنیادی شہری و آئینی حقوق سے محرومی پر آواز بلند کرنے، کسی بھی جماعت کے منشور اور سیاستدانوں کی کارکردگی کو زیر بحث لانے کی بجائے مسخرے پن کی زیادہ اہمیت ہے۔ یہ سب باتیں تب ہی ممکن ہیں جب سماج کے تعلیم یافتہ افراد اپنے ملک کے آئین اور کسی بھی جماعت سے منسلک ہونے سے پہلے اس کے منشور کو پڑھنے کی زحمت کریں۔ مگر ہمارے ملک میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کیونکہ ہمیں سیاسی و جذباتی وابستگیاں بھی ورثے میں ملتی ہیں۔

میں ہمیشہ حیران ہوتا ہوں کہ ایک ایم این اے یا ایم پی اے ایک بار منتخب ہو کر جب کوئی کارکردگی نہیں دکھاتا بلکہ اپنی زیارت بھی پانچ سال بعد ہی کرواتا ہے وہ اگلے انتخابات میں دوبارہ کیسے منتخب ہو جاتا ہے ؟ اسکا جواب شخصیت پرستی ، برادری اور پیسوں کے عوض اپنا حق رائے دہی بیچنےمیں پنہاں ہے۔

آج کوئی مڈل کلاس یا محنت کش طبقے سے انتخاب نہیں لڑ سکتا اور اگر لڑ بھی لے تو اس کا جیتنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ انتخابات کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ بڑے بڑے جلسے منعقد نہیں کروا سکتا۔ دوسری طرف سیاسی جماعتیں بھی مجموعی طور پر انہی  کو پارٹی ٹکٹ دیتی ہیں جو یہ سب کر سکتا ہو۔ اسی لئے جب سیاستدان ایک جماعت کو چھوڑتے ہیں تو دوسری جماعت انھیں بخوشی قبول کرتی ہے کیونکہ وہ ان کو نشست جیت کر دے سکتے ہیں۔ کیونکہ انھیں صرف اقتدار میں آنے سے غرض ہےاور عوام بھی انہیں نمائندوں کو دوبارہ منتخب کرنے کے لئے راضی ہو جاتے ہیں  کیونکہ شاید انھیں لگتا ہے کہ جماعت بدلنے سے انکا کردار بھی بدل جائے گا۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ سیاستدان جو افلاس کے الف سے بھی واقف نہیں وہ کس طرح ہماری نمائندگی کر سکتے ہیں- جو انتخابات کے دنوں  میں عوامی مسائل کی شماریات بھی اس لئے ازبر کرتے ہیں کہ انھیں اپنے جلسوں میں Rhetoric کے طور پر استعمال کر سکیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جمہوری نظام میں چیزیں ون مین شو نہیں ہوا کرتیں ۔ ہمیں اپنے حلقے میں جب کسی مسئلے کا سامنا ہوگا تو ہمارا واسطہ اسی ایم این اے اور ایم پی اے سے پڑے گا جسے ہم نے منتخب کیا ہوگا۔ اور اسے ہی Devolution of power کہا گیا ہے ۔ لیکن یہ سب تب ہی ممکن تھا جب عوام کو سیاسی تعلیم دے کر ان میں سیاسی و جمہوری شعور اجاگر کیا جائے ۔

لیکن سیاسی تعلیم ہے کیا ؟ فرانز فینون اپنی کتاب “The wretched of the earth “ میں لکھتا ہے کہ
“دراصل ہم ایک مجرمانہ سطحیت سے کام لیتے ہوئے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ عوام کو سیاسی طور پر تعلیم یافتہ کرنے کا مقصد محض یہ ہے کہ انھیں کبھی کبھی کوئی پرجوش تقریر سنا دی جائے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی رہنما یا اسکا کوئی نائب شاندار لہجے میں انھیں روز کے خاص واقعات سنا دے تو وہ عوام کو سیاسی تعلیم دینے کے عظیم فرض سے سبکدوش ہو جاتا ہے۔سیاسی تعلیم کا مقصد عوام کے ذہن کو کھولنا ، انھیں بیدار کرنا اور ان میں شعور پیدا کرنا ہے ۔

جیسا کہ سیزئر نے کہا کہ یہ کام “روحوں کو ایجاد کرنے” کے مترادف ہے ۔عوام کی سیاسی تعلیم کا مطلب نہ تو سیاسی تقریر ہوتی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ اسکا دراصل مطلب یہ ہے کہ عوام کو سکھایا جائے کہ ہر بات کا انحصار ان پر ہے۔ ہم جامد ہیں یا ترقی کر رہے ہیں تو یہ سب ان کے باعث ہے ۔ تقدیر کا کوئی وجود نہیں اور اگر کوئی طلسمی ہاتھ ہے تو وہ عوام کا اپنا ہاتھ ہے۔ ان سب باتوں کو عملی جامہ پہنانے اور لوگوں کو صحیح معنوں میں زندہ انسان بنانے کے لئے انتہا سے زیادہ عدم مرکزیت ہونی چاہیے”

سوا ل یہ ہے کہ یہ سیاسی تعلیم ہمیں کون دے گا ؟ موجودہ حالت میں موجودہ سیاسی جماعتیں ؟ تو اسکا جواب نفی میں ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے جو ہر وقت ہمیں Normalize کرنے کے درپے ہیں۔؟ اگر کوئی استاد یا طالب علم اس normalityکو بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے نکال دیا جاتا ہے یا جانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ شاید اسی لئے فوکو انھیں “جیلوں “سے تشبیہ دیتا اور اقبال احمد انھیں “Mini governments” کہتا ہے۔ ایسےمیں کچھ ساتھی طالب علموں اور اساتذہ نے مل کر “حقوق خلق موومنٹ” کے نام سے لاہور میں ایک تحریک کا آغاز کیا ہے جس کا بنیادی مقصد بستیوں میں جا کر عوام کے مسائل پر بات کرنا اور انھیں ان کے آئینی حقوق کے متعلق آگاہی دینا ہے۔

شاید یہی ایک طریقہ ہے کہ چند تعلیم یافتہ لوگ جو سوچتے ہیں اپنے سماج اور اس نظام کے جامد سمندر میں کچھ ارتعاش پیدا کر سکیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا اور جمہوریت کی بساط باربار الٹ دی گئی تو سیاسی شعور کیسے پنپ سکے ؟ تو میں کہوں گا کہ جمہوریت کی بساط الٹنے میں ان سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کہ آمروں کا۔ آج اگر ایک پارٹی زیر عتاب ہے تو آج بھی کئی سیاسی جماعتیں اپنی روش بر قرار رکھتے ہوئےغیر جمہوری قوتوں کی پشت پر کھڑی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ سب اپنے مفادات سے وفادار ہیں۔ ہمیں اپنے نمائندے وہ چننے ہوں گے جو ہم میں سے ہوں۔ اب ضرورت ہے کہ نوآبادیات کی ان باقیات کو رد کیا جائے۔ ورنہ بقول جون ایلیاء وہی ہوگا کہ
“گزشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا
یہ حا دثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انتخابات اور ہمارا سیاسی شعور۔۔۔عمار یاسر

  1. ایک طالبعلم کی حیثیت سے اچھی اور مثبت سوچ ھے مگر مسائل کی حقیقت کو سمجھنے کیلیے مزید مطالعه اور غوروخوض کی ضرورت هے

Leave a Reply