مسئلہ غلامی کی اصل حقیقت

ابتدا میں ہی اگر ہم چند باتیں ذہن میں رکھ لیں تو آگے کی بات سمجھنا آسان ہو جائے گا !
1 – اسلام سے سلیبس کے اندر کا سوال کیا جائے آؤٹ آف سلیبس سوال بد دیانتی ہو گی ! اسلام سے یہ سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ اس نے غلامی کو پروموٹ کیا یا ایسے اقدامات کیئے کہ نہ صرف غلاموں کو انسانی سطح کی زندگی دی جائے بلکہ یہ بھی قانون سازی کی کہ غلام کی اولاد غلام نہیں ہو گی اگرچہ وہ غلام اور لونڈی کی آپس کی شادی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ھو !!
2- اسلام غلامی کا موجد یا فاؤنڈر نہیں ہے ! البتہ اس کا پالا صدیوں سے قائم غلامی کے ادارے سے پڑا جو اس قدر قوی تھا کہ پوری دنیا کی معیشت اس نظام پر چلتی تھی،قوموں کی قومیں غلام بنائی جا رہی تھیں جو دوسری قومیں کی معیشت کی ریڑھ کر ہڈی بنی ہوئی تھی !
3- جس طرح تیل کے لئے کچھ معروف ممالک اور علاقے ہیں ، اسی طرح غلامی کے لیئے بھی مخصوص علاقے اور ممالک تھے،جہاں سے ہرنوں کی طرح انسانوں کا شکار کر کے انہیں غلام بنایا جاتا تھا ! اور یہ کام قبل مسیح سے جاری و ساری تھا،، امریکہ اور یورپی ممالک کی بنیادوں میں غلاموں اور لونڈیوں کا خون اور عصمتیں دفن ہیں !
4 – اسلام جب آیا تو غلام اسی طرح ایک بین الاقوامی کرنسی تھے،جس طرح ڈالر اور یورو ہیں !
اصل سوال یہ بنتا ہے کہ اسلام نے اس عفریت کا سامنا کس طرح کیا ؟
اسلامی اقدامات کے نتیجے میں غلامی کا ادارہ زوال پذیر ہو کر ختم ہو گیا یا اسلامی اقدامات نے اس بزنس کو طاقتور بنایا ؟
غلامی کو یکمشت حرام کرنے کے مضمرات ـ
اسلام اگر آتے ہی تمام غلاموں اورلونڈیوں کو آزاد کر دیتا ،خاص کر اس دور میں جب کہ عرب دنیا میں روزی روٹی کے ذرائع نہایت قلیل تھے، اور قبائل دوسرے قبیلوں کو تاراج کر کے اپنی معیشت چلاتے تھے، ہر آنے جانے والے کو پکڑ کر غلام بنا لیا جاتا ،، دو آدمی دوست بن کر چلتے اور راستے میں قوی کمزور کو مغلوب کر کے اسے باندھ کر اگلی بستی میں غلام کی حیثیت سے بیچ جاتا،، ان حالات میں ان غلاموں کو بیک قلم آزاد کر کے قبائل کو کرائے کے ہزاروں قاتل فراہم کرنا اور علاقے میں انارکی پھیلانا ہوتا ! نیز لونڈیوں کے پاس روٹی کے لئے پیشہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا،، کیونکہ ان غلاموں اور لونڈیوں کی اخلاقی اور دینی تربیت تو ہوئی نہیں تھی ۔لہٰذا ان کا فوراً ان قباحتوں میں مبتلا ہو جانا یقینی تھا، اب بھی جب حکومتیں بہت سارے لوگوں کو کام سے نکال دیتی ہیں تو اسٹریٹ کرائمز میں فوری اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔جن بستیوں کے قریب آ کر جھگیوں والے آکر جھگیاں لگاتے ہیں،،وہاں کی اردگرد کی بستیوں کے لونڈے اور اوباش ان جھگیوں کے گرد ہی منڈلاتے رہتے ہیں اور اخلاقی گراوٹ کا نظارہ کھلم کھلا نظر آتا ہے ! کیریاں اور رکشے رات بھر بکنگ پر آتے جاتے دیکھے جا سکتے ہیں !
اسلامی حکمت !
اسلام سے پہلے غلام بنانے کے بہت سارے راستے تھے، جبکہ رھائی کا صرف ایک رستہ تھا اور وہ بھی سوئی کے ناکے کی طرح تھا یعنی یہ کہ مالک راضی ھو کر آزاد کر دے،اور چونکہ انسان میں لالچ کا مادہ رکھا گیا ھے لہذا سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو کون چھوڑتا ھے !
اسلام نے سب سے پہلے Inlets کو محدود کر کے ایک کر دیا ! جبکہ Outlets کو کھول دیا اور اس کے مختلف طریقے مشروع کر دیئے،مثلاً قتلِ خطا کی صورت میں غلام کو آزاد کرنا ! جھوٹی قسم کے کفارے میں غلام آزاد کرنا، بیوی کو ماں کہہ دینے پر غلام آزاد کرنا،، روزے کی حالت میں ھمبستری پر غلام آزاد کرنا، اگر غلام چاھے تو اپنے آقا سے رقم اور وقت طے کر کے مکاتبت کر لے اور آزاد ھو جائے اس صورت میں مالک کو کہا گیا کہ وہ اپنی زکوۃ بھی غلام کو دے سکتا ھے،، اور مسلمانوں کو بھی ترغیب دی گئ کہ وہ اس کی مدد کریں !
اس کے علاوہ مخیر اور نیک لوگوں کو اللہ پاک نے ترغیب دی کہ وہ جانیں آزاد کرا کر اپنی گردن عذاب سے بچا سکتے ھیں !
نیز دنیا میں تو غلام کی اولاد بھی غلام در غلام ھوتی تھی یوں غلام اصل میں غلام پروڈیوس کرنے کی فیکٹریاں تھے، جن کی موجودگی میں غلامی کا ختم ھونا ناممکن بات تھی، امریکہ میں بھی اسے 1865 میں غیر قانونی قرار دیا گیا ھے !
مگر اسلام نے غلام کی اولاد کو ایک مکمل آزاد انسان کا رتبہ دیا ! نیز لونڈی جب کسی کو دی جاتی تھی تو وہ اس آدمی کی نصف بیوی ھوتی تھی، یعنی چونکہ وہ اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتی تھی ،، اس وجہ سے اسے لونڈی قرار دیا گیا،ورنہ اس کی اولاد ھو جانے کے بعد وہ آقا کی ام ولد یعنی بچے کی ماں بن جاتی تھی اور اس کا بچہ اپنے باپ کا نسب اور قبیلے کا نام پاتا تھااور اس کا شرعی وارث ھوتا تھا !،اولاد کے بعد ماں بیٹے کو جدا نہیں کیا جا سکتا تھا اور ام ولد کی فروخت منع تھی، یوں غلاموں کے یہاں آزاد پیدا ھوتے گئے اور غلام ختم ھوتے چلے گئے !
ایک لونڈی جب کسی کو دی جاتی تو صرف وھی اس کا جنسی پارٹنر ھو سکتا تھا،، جبکہ کافروں کے یہاں وہ وراثت میں تقسیم ھو کر سب کی جنسی بھوک مٹاتی تھی ! اور وہ اس سے پیسہ کمانے کے لئے پیشہ بھی کراتے تھے،جسے اللہ نے ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء،، کے حکم سے منع کر دیا !
جب آقا اپنی لونڈی کو کسی غلام سے بیاہ دیتا تھا تو پھر وہ اس کے لئے مطلقاً حرام ھو جاتی تھی اور صرف اسی غلام کی بیوی کی حیثیت سے رھتی تھی اور ان کی اولاد آزاد ھوتی تھی !
جو لوگ غلامی کا یورپی تصور اور مثال دیکھتے ھیں اور اسے گوگل سرچ سے لے کر دیکھتے ھیں وہ اسلام کے تصورِ غلامی کو سمجھ ھی نہیں سکتے !
سوال یہ ھے کہ اسلام نے چائنا سے لےکر سارے افریقہ پر اور ھندوستان سے لے کر پورے اسپین اور نصف فرانس تک صدیوں حکومت کی ھے، اس لحاظ سے دنیا کی منڈیاں غلاموں سے بھری ھوئی ھونی چاھئیں تھیِ ! کیا وجہ ھے کہ دنیا میں یورپین اور امریکی اور اسکینڈے نیوین ملکوں کے غلاموں کی داستانیں تو ملتی ھیں،، مسلمانوں کے بنائے ھوئے غلاموں کا کوئی سراغ نظر نہیں آتا !
اسلامی حکمتِ عملی !
اسلامی حکومت سب سے پہلے ان ھی لوگوں کو اپنی کسٹڈی میں لیتی ھے جو اسے میدانِ جنگ میں ملتے ھیں،، وہ بستیوں اور گھروں کی تلاشی لے کر غلام نہیں بناتی !
ان قیدیوں کا تبادلہ پہلی ترجیح ھوتی ھے ! تبادلے مکمل ھونے کے بعد تاوان دے کر قیدی چھڑانے کی باری آتی ھے اور پھر احسان کرتے ھوئے اللہ کی خاطر چھوڑنے کی باری آتی ھے،،
اب اگر مسلمانوں کو تو پابند کر دیا جائے کہ تم قیدی نہیں رکھ سکتے ! تو ظاھر ھے دشمن کو تو آسانی ھو گی کہ انہوں نے تو ھمارے قیدی چھوڑنے ھی چھوڑنے ھیں،، البتہ ھم آزاد ھیں اور پیسے لے کر ان کے قیدی چھوڑیں گے یا چھوڑیں گے ھی نہیں اور ان کو غلام بنائیں گے جیسا کہ اس وقت دنیا کا رجحان تھا،،لہذا اللہ نے غلامی کو بیک قلم حرام نہ کر کے مسلمانوں کے ھاتھ باندھنے اور اسلام دشمنوں کے ھاتھ مضبوط کرنے سے اجتناب کیا ھے !
البتہ اب یہ بات طے ھے کہ ساری دنیا سے غلامی کا رجحان ختم ھو جانے کے بعد صرف قیدیوں کا ھی کانسیپٹ باقی ھے،،غلامی کا ادارہ بین الاقومی ضمیر کے مطابق ختم ھو کر رہ گیا ھے ! اسلام نے نہ پہلے اسے ایجاد کیا تھا اور نہ اب اس کو reborn کرنا چاھتا ھے !
لونڈی کے بعض پہلوؤں سے ھمیں ایک اور سبق بھی ملتا ھے کہ شادی شدہ لونڈی کو آزاد ھوتے ھی جو سب سے پہلا تحفہ ملتا ھے وہ اس کا اختیارِ نکاح ھے ! وہ سب سے پہلا فیصلہ یہ کرتی ھے کہ اب وہ اس نکاح کو جاری رکھنا چاھتی ھے یا نہیں ! یہ حق اسے اسلام نے دیا اور حضرتِ بریرہؓ نے اسے نبیﷺ کے دربار میں استعمال کر کے دکھا دیا ،جب انہوں نے حضرت مغیث اپنا نکاح فسخ کردیا اور اس سلسلے میں یہ اسلام کی دی گئ بے مثل آزادی ھے کہ جس کی مثال دنیا کا کوئی مذھب پیش نہیں کر سکتا کہ۔۔ اللہ کا رسولﷺ اپنی بیوی کی آزاد کردہ لونڈی کو بھی اپنے صحابی سے نکاح برقرار رکھنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ جب آپ نے اس سے کہا کہ بریرہ تجھے اس شخص پر ترس نہیں آتا؟ تو اپنا نکاح جاری کیں نہیں رکھتی ؟ تو بریرہؓ نے پلٹ کر فرمایا کہ اللہ کے رسولﷺ کیا یہ آپ کا حکم ھے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ تیرے حق کو اپنے حکم سے ختم نہیں کرتا،، یہ تو صرف میری سفارش ھے! اس پر حضرت بریــرہؓ نے فرمایا پھر مجھے اس سفارش یا مشورے کی حاجت نہیں !
یہ تو ایک لونڈی کا آزاد ھوتے ھی پہلا حق تھا کہ نکاح اپنی مرضی سے کرے اس کے سارے اختیارات اور آپشنز آزاد ھو گئے تھے،، ھم لوگ جو اپنی بیٹی کی پسند اور ناپسند پوچھنا اپنی چودھراھٹ کی توھین سمجھتے ھیں اور بیٹی کا اپنی پسند بتانا ایک گستاخی سمجھتے ھیں،، کیا ھم نے آزاد پیدا ھونے والی کو ایک آزاد کردہ لونڈی کا حق دینا بھی پسند نہیں کیا !مسئلہ غلامی ، ایک اھم پہلو
لوگ ھمیشہ آزادی اور غلامی کے درمیان تقابل کرتے ھیں اور یہیں سے وہ ٹھوکر کھاتے ھیں !
حقیقت میں تقابل موت اور غلامی کے درمیان ھے !
ایک شخص میدان جنگ میں مغلوب ھو جاتا ھے جہاں وہ بہت سے لوگوں کی جان لے چکا ھے ! مغلوب ھو جانے کے بعد وہ غالب کی مرضی کے تابع ھے ،غالب چاھے تو تلوار کے ایک وار سے اس کا سر اڑا دے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ، وہ اپنے ھر مرنے والے ساتھی کی موت کا ذمہ دار اس مغلوب شخص کو گردان سکتا ھے ! اس خونی ماحول میں جہاں ھر طرف کٹے پھٹے لاشے بکھرے پڑے ھیں،، شریعت آگے بڑھتی ھے اور اس غالب کے نفس میں رکھے لالچ کے دیئے کو جلاتی ھے ،، اس بٹن کو دباتی ھے ! اسے مت مار ،، اسے قید کر لے اور اپنے نفعے کا سامان کر ! اس کو مار کر تمہیں کیا ملے گا،، اسے بچا لے اور اپنے کام میں لے آ ،، شریعت اس کے اندر لالچ کی جوت جگاتی ھے کہ وہ اس ماحول کے خونی ٹرانس سے ایک دفعہ نکل آئے ! یہ ھے موت اور غلامی کا آپشن ،، مار دے یا غلام بنا لے ! آزادی یہاں کوئی آپشن نہیں ھے ! اسے یا مرنا ھے یا قید ھونا ھے ! یہاں جب آپ تقابل کریں گے تو آپ شریعت کو اس غلام کا حامی اور ساتھی پائیں گے جو اس نازک وقت میں مداخلت کر کے اس کی جان بچاتی ھے ،جب انسان سگی ماں کی بھی نہ مانے !
جب جنگ ختم ھوتی ھے وہ ماحول وہ خونی فضا ختم ھوتی ھے تو اب شریعت اسے آئستہ آئستہ غلام کو آزاد کرنے پر آمادہ کرتی ھے،، ٹھیک ھے تم نے اسے اپنے فائدے کے لئے قید کیا تھا،مگر فائدے بھی دو ھیں،، ایک عارضی اور فانی فائدہ ھے ، دوسرا دائمی اور باقی رھنے والا فائدہ ھے ! تو اسے آزاد کر کے آگے آخرت میں کیوں نہیں بھیج دیتا، کہ وھاں اسے پیش کر کے اپنی جان چھڑا لے،، یوں وہ بندہ بچ بھی جاتا ھے اور آزاد بھی ھو جاتا ھے !
اگر شریعت قید کرنا بیک قلم حرام قرار دے دیتی تو یقین جانیں میدان جنگ سے مغلوب قوم کا کوئی فرد زندہ نہ پلٹتا ! اور یوں زندگی کو کوئی دوسرا موقع نہ ملتا !
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ،،
جو لوگ غلامی کو لے کر اسلام پر حملہ آور ھوتے ھیں انہوں نے غالبا انگلش فلموں میں غلاموں کا حال دیکھ کر اسلام کے غلاموں کو قیاس کر لیا ھے جبکہ حقیقت یہ ھے کہ اسلام کے آقا اور غلام میں اس سے بھی کم فرق تھا جتنا آج کل کے پارلیمنٹیرینز اور عوام میں ھے ، اسلام نے غلاموں اور کنیزوں کو جو اختیار دیا ھے اور جو قوت ارادی بخشی ھے اس کا مظھر حضرت بلال ، حضرت عمار ، حضرت زید بن حارثہ ، رضوان اللہ علیھم اجمعین کے علاوہ کنیزوں میں سے حضرت بُرَیرَہ رضی اللہ عنہا ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ھو کرآپ کی سفارش کو رد کرتی ہیں اور جبینِ رسالت پہ بل تک نہیں پڑتا بلکہ بریرہؓ کا فیصلہ بسر وچشم قبول فرما کر لاگو کر دیتے ہیں، یہ حق تو بڑے بڑے علماء اپنی آزاد بیٹی کو دینے کو تیار نہیں کہ وہ ان کی رائے اور سفارش کو رد کر کے زندہ رہ سکے،
حضرت عائشہؓ کے خریدنے سے پہلے وہ ایک شخص کی کنیز تھیں لیکن وہ اس ذلت سے جان چھڑا نا چاہتی تھیں ؟ انہوں نے اس سے کہا کہ تم مجھے آزاد کرنے کا کیا معاوضہ لوگے ؟ اس نے بتایا کہ میں نواوقیہ سونا پانچ سال کی قسطوں میں لونگا۔ انہوں نے بات پکی کرلی ،اس نے یہ سوچا تھا کہ نہ اتنا سونا وہ جمع کر سکیں گی نہ آزادی کی صورت پیدا ہوگی؟ حضرت بریرہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے کاشانہ مبارک کا رخ کیا ؟ اور وہاں انہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ملیں ان سے درخواست کی آپ میری جان میرے مالک سے چھڑا کر اپنی کنیز بنا لیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سے کسی ذریعہ سے بات کی اور اس کو ایک مشت ادائیگی پر راضی کر لیا ؟ مگر وہ ان پر اپنا حق وراثت قائم رکھنا چاہتا تھا۔ جبکہ اس دور کا قانون یہ تھا کہ وراثت اسی صورت میں ساقط ہو سکتی تھی کہ اس کو خرید نے والا آزاد کر دے۔ لہذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خرید کر آزاد کردیا۔ مگر جس طرح حضرت زید نے حضور ﷺ کے آزاد کر نے کے باوجود بھی حضور ﷺ کے پاس ہی رہنا چا ہا اور اپنے والد کے ساتھ نہیں گئے اسی طرح انہوں ﷺ نے بھی حضرت عائشہ صدیقہ کی کنیزی میں ہی رہنا پسند کیا اور پوری زندگی ان کے قدموں میں گزار دی۔ ان کی شادی ایک صحابی حضرت مغیث رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی جو کہ حبشی غلام تھے اور حضور کے صحابہ کرام میں شامل تھے ۔ مگر ان کی آپس میں نہیں نبھی تو آزاد ہونے کے بعد ان سے طلاق چاہی۔ جب کہ یہ ان کو بری طرح چاہتے تھے لہذا ان کی حالت غیر ہو گئی اور وہ روتے ہوئے گلیوں میں ان کے پیچھے چلا کرتے ، صحابہ سے ان کی یہ حالت دیکھی نہ گئ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سفارش کی کہ کسی طرح بریرۃ کو راضی کیا جائے کہ وہ مغیث کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم رکھیں ،، اس پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم طلاق نہ لو ، حضرت بریرہ نے سوال کیا کہ یہ آپ ﷺ کاحکم ہے یا آپ کی سفارش ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں یہ تو بس میری سفارش ہے؟ تب انہوں نے سفارش کو قبول کرنے سے معذرت کرلی اور عرض کیا کہ میری ان کے ساتھ نبھ نہیں سکتی ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان میں علیحد گی کرا دی۔ غالبا ً یہ سوال انہوں نے ا س لیئے کیا کہ اس سے پہلے حضرت صفیہ کے معاملہ میں یہ آیت نازل ہو چکی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول جو حکم دیں اس کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ واللہ عالم
دوسرے۔ یہ مسئلہ بھی انہیں کے ذریعہ سامنے آیا کہ اگر کنیز شادی شدہ ہو اور وہ آزاد ہو جائے تو اسے خلع لینے کا حق ہے۔
ان کی باقی زندگی بڑی کسمپرسی میں گزری اس لیے کہ انہوں نے خود کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خدمت اور دین سیکھنے اور سکھانے کے لئے وقف کر دی تھی ان کی گزر اوقات اکثر صدقات پر ہوتی جو کہ انہیں لوگ بھجوا دیتے تھے۔ اور وہ اس میں سے اکثر امہات مومنین رضوان اللہ علیہن کو دے دیتیں ایک دن ایسا ہی گوشت گھر میں پک رھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی دوسرا سالن پیش کیا گیا جس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں جی میں نے وہ ہانڈی دیکھ نہیں لی جس میں گوشت ابل رھا ھے ، اس پر عرض کیا گیا کہ وہ تو کسی نے بریرہؓ کو صدقہ دیا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ بریرہؓ کے لئے تو صدقہ تھا مگر ہمارے لئے بریرہؓ کی طرف سے ہدیہ ہے ۔ اسی سے یہ نص نکالی گئ کہ کوئی زکاۃ وصول کر لینے کے بعد اس میں کچھ کسی غیر مستحقِ زکاۃ کو دینا چاہے تو وہ دے سکتا ہے اور لینے والے کو تردد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر تاریخ میں حضرت بریرہؓ کا کردار اسوقت نظر آتا ہے کہ جب حضرت عائشہؓ پر تہمت لگی تو رسول اللہﷺ نے حضرت زیدؓ بن حارث اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مشورہ کیا۔ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ کیوں نہ ان کی کنیز بریرہ (رض) سے پوچھ لیا جا ئے! جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا “ واللہ میں نے ان کے اندر خیر کے علاوہ کچھ نہیں پایا میں عائشہ (رض) پر کسی عیب کا سوچ بھی نہیں سکتی البتہ وہ نیند کی کچی ہیں کہ میں اکثر انکا آٹا گوندھ کر رکھ جاتی اور وہ سوجاتیں آٹا بکری کھا جاتی اس کے علاوہ میں نے ان میں کوئی خامی نہیں پائی ۔ بعد میں ان کے اس گمان کی تصدیق اللہ سبحانہ نے حضرت عائشہؓ کی براءت میں آیات نازل فرماکر کردی؟
حضرت بریرہؓ ماضی میں کنیز کا اسٹیٹس رکھنے کے باوجود اسلام لانے کے بعد کسی سے کبھی مرعوب نہیں ہوئیں اس کا ثبوت یہ ہے جب دوربدل گیا اور عبد الملک بن مروان جوکہ بنو امیہ کے سرداروں میں سے تھا وہ اکثر انؓ کے پاس آنے لگا ۔ توایک دن انہوں نے اسے دیکھ کر فرمایا میں تم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھ رہی ہو ں کہ تم حاکم بنو گے! اگر تم حکمراں بن جاؤ تو قتل و غارت سے بچنا ! میں یہ اس لیے کہہ رہی ہوں کہ میں نے اپنے کانوں سے خود اللہ کے رسول ﷺ کوفرماتے ہو ئے سنا ہے کہ جس کسی نے کسی مسلمان کو ناحق قتل کیا تو اسکو دھکے دے کر جنت کے دروازے سے پیچھے دھکیل جائے گا “ تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ پیش گوئی بھی پوری کی اور عبد الملک بعد میں خلیفہ بنا۔ وہ بڑی رقیق القلب تھیں وہ جب حدیث بیان فرماتیں تو ان پر رقت طاری ہو جاتی ۔ اس معاملہ ان کی ہم صفت صرف ام المومنین حضرت صفیؓہ بنت حیی تھیں کہ جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جا تا تو رقت طاری ہو جاتی ایک دن کچھ صحابہ کرام ان کے حجرے میں بیٹھے ہو ئے تھے اور رسول اللہ ﷺؑ ان کے سامنے قرآن کا کوئی حصہ تلاوت فرمارہے تھے۔ جب انہوں نے صحابہؓ کو خاموشی سے سنتے دیکھا تو بہت حیران ہوئیں اور رسول اللہ سے پوچھا کہ یہ کیسے مومن ہیں جن پر قرآن سننے سے رقت طاری نہیں ہوتی؟
۔حضرت بریرہؓ کے اقوال زریں ،،
1-ہمیشہ بات ایسی کہو کہ کسی کو کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو
2-کسی سے کبھی بدلہ کی امید رکھ کر اپنی نیکی برباد مت کرو
3-فضول گوئی سے انسان جھوٹ بولنے کا عادی ہو جاتا ہے اور جھوٹ بولنے سے دل سیاہ ہو جاتا ہے لہذا جھوٹ مت بولو
4- مالدار وہ ہے جو حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرتا ھے
5- کسی کو دین کی بات بتانے میں بخل کرنا امانت میں خیانت کرنے کے برابر ہے۔
6- اپنا کام خود کرو دوسروں پر پر انحصار مت کرو
7 – پیٹ رزقِ حلال سے بھرو اللہ تعالیٰ برکت نازل فرمائے گا۔
8- کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا ذلت سے دوچار کرتاہے۔
*********

Facebook Comments

قاری حنیف ڈار
قاری محمد حنیف ڈار امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply