• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مرد و عورت کا رشتہ صرف جنسیاتی نہیں، عمرانی بھی ہے۔۔۔عظمی عارف

مرد و عورت کا رشتہ صرف جنسیاتی نہیں، عمرانی بھی ہے۔۔۔عظمی عارف

کہتے ہیں پرانے زمانےمیں  بادشاہ ہرن کا شکار کرنے جایا کرتے تھے -یہ ان کے لیے بہت تفریحی سرگرمی تھی لیکن حقیقت میں بکرے اور ہرن کے گوشت میں انیس بیس کا فرق بھی نہیں ہے – ہرن چونکہ پہنچ سے دور ہے ، آسانی سے قابو نہیں آتا ہے ، اس لیے انسان کو اپناشکار کرنے کے لیے ابھارتا ہے اور اس طرح ہرن کا شکار کرنا ایک فینٹسی بن گیا ہے  جبکہ بکرا تو آپ کی پہنچ میں ہے روز جتنے مرضی بکرے گرا لو –

یہی حال موجودہ پاکستان کی نوجوان نسل کا ہے  -دن بدن مخلوط میل جول کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں ، نئے سے نئے قانون گھڑے جارہے ہیں جس کا نتیجہ صرف یہی نکلا ہے کہ نوجوانوں کی مخالف جنس کو لے کر فینٹسی بڑھ چکی ہے، مخالف جنس جتنی اپروچ سے باہر ہوگئی  ہے اتنا ہی اس کے بارےمیں فینٹسی بڑھتی جارہی ہے  جس کے نتیجے میں جنسی گھٹن اور فرسٹریشن  اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ معاشرہ پریشر ککر بن چکا ہے جو گاہے گاہے پھٹتا رہتا ہے-بطور ایک سایکالوجسٹ میں درجنوں ایسے افراد کا معائنہ کر چکی ہوں جو جنسی گھٹن کی وجہ سے اپنا معاشرتی کردار  تعمیری انداز میں نبھانے سے اس لئے قاصر تھے کہ انہیں تمام ہم جنس مخالف سے بات کرنے کا موقع  نہ مل سکا۔ روایتی مدارس کے طلباء میں پایا جانے والا  تصور برائے عورت اور عدم برداشت کا رویہ ایک ہی نالے سے پھوٹتے دو دھارے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ناکام عاشقوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک بڑی وجہ مردو عورت کے مابین قائم کی گئی  نام نہاد خلیج بھی ہے۔

ایک طرف شادی کی عمر 25 سے 30 کو پار کرچکی ہے جبکہ بلوغت کی عمر 18 سے 12 سال پر آگئی اور آج کا نوجوان 12، 13 سال کا ہوتے ہی ایک ہی رٹ لگاتا نظر آتا ہے میں نے شادی کرنی ہے —-شادی کرنی ہے ۔۔۔۔ مخالف جنس کو لے کر اس کی فنیٹسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس کو شادی کے علاوہ مخالف جنس سے  جنسی تعلق قائم کرنا،میل جول ، بات چیت ، رابطہ رکھنے کا کوئی اور طریقہ سمجھ میں نہیں آتا  اور یوں جنس مخالف  فینٹسی بن کر ایک نوجوان کے ہوش و حواس پر اس طرح غالب آتی ہے کہ اس فینٹسی کے بوجھ تلے اس کی ساری حسیات ، عقل و شعور اور تخلیقی صلاحیتیں  دفن ہوکر رہ جاتی ہیں  ۔تصویر کادوسرا رخ دیکھیں۔  اگر پاکستانیوں کو آزادانہ مخلوط میل جول اور جنسی تعلق قائم کرنے کی چھوٹ دے دی جائے تو پاکستان میں ہر تیسرا بچہ حرامی  پیداہوگا ، موجودہ نوجوان نسل جنس مخالف کے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں ذہنی طور پر اتنے نابالغ ہیں کہ ہرجگہ گند پھیلائیں گے ۔

کیا وجہ ہے کہ یورپ میں کھلے گریبانوں والی قمیض  اور نیم برہنہ جانگیہ پہن کر بھی عورت خود کو محفوظ تصور کرتی ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں سات پردوں میں چھپی عورت بازار میں ،سڑک پہ چلتے ہوئے ، دفتر میں ، پبلک ٹرانسپورٹ میں ، حتٰی کہ مشترکہ خاندانی نظام میں آٹا گوندھتے ہوئے بھی  محفوظ نہیں۔

مغرب  میں موجودہ نظام جنبشِ یک ابرو میں ترتیب نہیں پایا۔ ہزاروں سال وہاں بھی نرگس کو بے نوری پہ ماتم کرنا پڑا،کلیساؤں میں بیٹھے تہذیب فروشوں کو رد کرنا پڑا، مروج اپاہج  رواجوں کی بیساکھیاں توڑنا پڑیں۔۔۔۔ تب جا کے چمن میں دیدہ ور پیدا ہوئے۔یہ منٹوں میں لیا جانے والا فیصلہ ہرگز نہیں۔ یہ تدریجی، ارتقائی نوعیت کا مسئلہ ہے۔مخلوط میل جول میں توازن پیدا کرنے کے لئے موجودہ نوجوان نسل اور بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے نو عمرطالب علموں کو سیکس ایجوکیشن ( جنسی تعلیم)، نہ صرف سیکس ایجوکیشن بلکہ نفسیاتی زاویوں کے بارے  درجاتی لحاظ سے  سکول ، کالج  اور یونیورسٹی کی سطح پر آگاہی و تعلیم  دینی شروع کی جائے۔۔۔مگر متعلمین سے پہلے اس علم کی اشد ضرورت معلمین کو بھی ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معلم و متعلم  کو یہ بتایا جائے کہ مرد وعورت کا باہمی تعلق کیا ہوتا ہے ،یہ کیوں ضروری ہے ، مردو عورت ایک دوسرے کے لیے کیوں ضروری ہیں ۔بجائے جنسِ مخالف کے ساتھ تعلق کو جنسیاتی بنیادوں پہ جانچنے کے ہمیں اپنے بچوں کو یہ بتانا ہو گا کہ مردو عورت کا عمرانی معاہدہ کیا ہے ۔کب تک ہم اس سے بھاگیں گے ؟؟ جب دنیا ارتقاء و معراجِ انسانی کی جانب گامزن ہے، ہم اپنی تعلیم گاہوں کو الگ الگ کرنے کا سوچ کر کیوں عمرانی بنیادوں پر خود کوشکست خوردہ ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ کیوں کہ  آخر میں جب آپ نے  ایک مرد اور عورت کی شادی کرنی  ہی ہے تو ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس تعلق کی بنیاد   ذہنی ہم آہنگی ، باہمی رضامندی  اور آپسی مطابقت ہونی چاہیے نہ کہ فینٹسی کے زیر اثر صرف لمحاتی جنسی تسکین۔تاکہ آپ کا بچہ جب عملی زندگی میں قدم رکھے تو وہ اپنے حیوانی جذبوں اور انسانی تقاضوں میں تفریق کر سکے اور بطور ایک فرد انسان ہی ہو نہ کہ جنس خور گدھ۔

Facebook Comments

عظمٰی عارف
ادب کی ایک طالبہ جو زمانے کو دیکھنے اور پرکھنے کے تمام مروج آئینوں سے بے زار ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply