تراویح سنانے پر اجرت کا حکم

 

ہمارے ہاں کچھ موسمیاتی مسائل  ایسے ہیں جن کا موسم  آنے پر وہ  کافی شدت اور اہمیت اختیار کر لیتے ہیں ۔  رمضان المبارک اور عید کے  چاند کی طرح رمضان المبارک  میں تراویح پر اجرت کا معاملہ بھی کافی زور و شور سے زیر بحث رہتاہے ۔ تراویح پر اجرت کا مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جو مفتیان کرام کی گرفت سے آزاد ہو کرسماج اور عوام  کی صوابدید پر موقوف ہو کر رہ گیا ہے، ۔ کسی مسجد والوں کا دل کر ے تو حافظ قرآن کی خدمت کرتے ہیں اور بعض تو بہت زیادہ بھی کرتے ہیں اور اس کو اپنے لیے اعزاز کی بات سمجھتے ہیں جبکہ کچھ مسجدوں والےاپنی چاہت میں  فقہ و فتاویٰ  کے  پابند واقع ہوئے ہیں اور وہ نہ صرف حافظ قرآن کی خدمت نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کو  گناہ سمجھتے ہیں ۔بلاشبہ مفتیان کرام کا کام یہی ہے  کہ وہ مسائل پر آزادانہ غوروفکر کریں اور ان کو بیان کریں لیکن بالاخر یہ مسائل بیان تو لوگوں میں ہی کرنے ہوتے ہیں اور ان کو آنا تو معاشرے میں ہی ہوتاہے ۔ اگر لوگ مفتی صاحبان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہ لے رہے ہوں یا سن کر ایک جانب رکھ دیتے ہوں اور اپنی مانی کررہے ہوں  تو مفتیان کرام کو بھی ازسر نوغور کرنا چاہیے ۔ ہمیں معاشرے کے بہاؤ اور جھکاؤ کے مطابق مسائل میں تبدیلی نہیں لانی ہے بلکہ پہلے سے اس طرح غوروفکر کرنا چاہیے کہ شریعت کا دامن بھی نہ چھٹنے پائے اور معاشرتی تعلق بھی برقرار رہے ۔ تراویح  پر اجرت کے مسئلے میں چند ایک مفتیان کرام کو چھوڑ کر اکثر کی رائے  یہی ہے کہ  اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے ۔لیکن عجب صورت یہ ہے کہ ہمارے ہاں تراویح پر اجرت کہیں بھی نہیں لی ، دی جاتی ہے ۔ گویا مفتیان کرام اس مسئلے کو بیان کر رہے ہیں جومعاشرے میں کہیں بھی رائج نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو شاذو نادر ہی  دیکھنے میں آتا ہے ۔ اجرت وہ ہوتی ہے جس کو پہلے سے طے کیا جائے اور پھر اجیر اس پوری اجرت کا استحقاق رکھتاہو ،اس  طے شدہ اجرت سے کم اس کو دینا درست نہ ہو الا یہ کہ وہ راضی خوشی خودہی کم کر دے  ۔ ہمارے ہاں تو ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا ، تراویح میں قرآن سنانے کی اجرت کوئی بھی حافظ طے نہیں کرتاہے اور پھر قرآن شریف  سنانے کے بعد مسجدوالے یانمازی حضرات جوکچھ اور جتنا بھی  دے دیں وہ حافظ لے لیتا ہےاور اگر نہ بھی دیں تو  حافظ اس پر کوئی بحث و تکرار نہیں کرتاہے اور اپنے کسی حق  کا دعویٰ نہیں کرتاہے ۔ مفتیان کرام اپنے فتاویٰ میں ان سب صورتوں کا  ذکر کر کے ان پر ایک ہی حکم صادر کردیتے ہیں  ، اجرت طے کرنے اور لوگوں کے خوش دلی سے خدمت کرنے میں کوئی فرق نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کو بھی اجرت کی ہی شکل بتاتے ہیں  حالانکہ ان سب صورتوں کا حکم  کسی طرح بھی ایک نہیں ہو سکتاہے ۔ جہاں اجرت طے نہ ہو وہاں انتظامیہ یا لوگوں کے حافظ کو ہدیہ یا اس کی خدمت کرنے کو کسی طور بھی ناجائز نہیں کہا جاسکتاہے ۔  وہ صورت  جس میں اجرت طے کی جائے تو  بلاشبہ قرآن کریم  کے طالب کی شان یہ نہیں ہونی چاہیے کہ اس کی نظر اجرت پر ہو ، لیکن جہاں تک بات فقہی اور قانونی حکم کی ہے  تو اجرت طے کرنے میں کوئی قباحت ہے یا نہیں اس حوالے سے جواز اور عدم جواز دونوں قسم کے نقطہ نظر ہمارے سامنے آتے ہیں  ۔اس مسئلہ کو طاعات یعنی نیکی کے کاموں میں اجرت کے ضمن میں ذکر کیا جاتاہے ، طاعات  خاص طور پر قرآن کریم پڑھنے پڑھانے  میں اجرت کے جواز کا مسئلہ علماء کے ہاں  دور اول سے ہی   خاصہ متنازعہ رہا ہے ۔شوافع ، مالکیہ اور حنابلہ اول دور سے ہی طاعات میں اجرت کے قائل رہے ہیں  ، اس لیے ان کے ہاں تو اجرت کے جواز میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ البتہ احناف نے اول دور میں کسی بھی نیکی کے کام پر اجرت کو سختی سے ناجائز قرار دیا تھا چاہے وہ تعلیم قرآن ہو ، اذان ہو یا کوئی اور مسئلہ ، بعد  میں دور کی تبدیلی کے ساتھ احناف کے موقف میں تبدیلی آئی اور ضرورت کے درجے میں اجرت کو جائز قرار دیا گیا  ۔ تراویح کے معاملے میں  جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے احناف میں سے اکثریت کا موقف یہی ہے کہ اجرت جائز نہیں ہے تاہم بعض علماء اس کو جائز بھی کہتے ہیں ۔ احناف میں سے جو لوگ تراویح کی اجرت کو جائز قرار دیتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ تراویح میں قرآن کریم کو ختم کرنا سنت ہے ، اس لیے اس سنت کو  باقی رکھنے کے لیے اس کی اجرت طے کرنا جائز ہے جس طرح  اذان ، جماعت کی نماز اور دیگر سنتوں کے قیام کے لیے اجرت جائز ہے ۔ جو علماء عدم جواز کے قائل ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ طاعات میں اجرت صرف  ان صورتوں میں جائز ہے  جن میں ضرورت ہو  ،  جن کے بغیر گزارہ نہ ہوتا ہو اور جن کے  نہ کرنے کی صورت میں شریعت کے کسی رکن کے مٹنے کا اندیشہ ہو ۔ تراویح  کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اس میں قرآن کریم کو ختم کرنا چونکہ سنت ہے اور تراویح ختم قرآن کے بغیر بھی اداء کی جاسکتی ہیں اس لیے  اس کی اجرت طے کرنا درست نہیں ہے ۔ ایک بات یہاں واضح کرتاچلوں کہ اجرت  کے جواز اور عدم جواز کی تمام بحث اس صورت میں ہے اگر قرآن کریم سنانے کی اجرت طے کی جائے ،  تراویح پڑھانے پر اگر کوئی بندہ اجرت لیتا ہے تو یہ سبھی علماء کے نزدیک جائز ہے کیونکہ یہ نماز کو قائم کرنے لیے ہے تو دیگر نمازوں کی  اجرت کی مانند اس کی امامت کی اجرت بھی جائز ہے  ۔ گویا اختلاف صرف اس صورت میں ہے جب کوئی حافظ قرآن کریم سنانے اور ختم کرنے پر اجرت طے کرے ۔ میرے خیال میں تنازع کو ختم کرنے کی آسان صورت یہی ہے کہ حافظ صاحبان اگر کہیں اجرت طے کریں بھی تو تراویح سنانے کی طے کرلیں قرآن کریم سنانے کی نہ طے کریں ۔ لیکن قرآن کریم سنانے پر اجرت  طے کرنے کے ناجائز ہونے پر علماء کرام جو دلائل دیتے ہیں وہ  بھی کوئی مضبوط نہیں ہیں ۔ اس جگہ اکثر علماء کرام  آیت ” وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ”  کا حوالہ دے کراس کو نص قطعی کہتے ہوئے اجرت علی القرآن کو ناجائز کہتےہیں ۔  یہ اور اس طرح کی دیگر آیات اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئیں اور ان سے مقصود یہ ہے کہ میری آیات  ، کتاب اور احکام میں پیسوں کے بدلے میں تبدیلی مت کر و ، جیسا کہ اہل کتاب کیا کرتے تھے ۔ اس کا مطلب کچھ بھی ہو لیکن اس مسئلہ پر استدلال سمجھ میں نہیں آتاہے ۔ اگر دیگر بہت سی صورتوں میں تاویل کی جا سکتی ہے تو اس مسئلہ میں  بھی بہت سی تاویلیں کی جا سکتی ہیں ۔ اسی طرح کچھ احادیث کا بھی حوالہ دیا جاتاہے لیکن اکثر احادیث جن سے اجرت کی ممانعت ہے وہ ضعیف ہیں یا خاص حالات اور خاص شخصیات کے لیے تھیں ۔ جواز کے قائلین علماء کا کہنا  ہے کہ جواز پر ایک واضح اور صریح روایت موجود ہے  ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت ایک جگہ پر گئی وہاں ان میں سے ایک صحابی نے  قوم کے سردار کو قرآن کریم کے ذریعے دم کر کے اجرت لی ، دیگر ساتھیوں نے کہا کہ قرآن کریم پر اجرت لیتے ہو۔ یہ لوگ مدینہ شریف میں آئے اور اللہ کے نبیﷺ کو بتایا کہ اس آدمی نے قرآن کریم پر اجرت لی تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا «إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ»سب سے زیادہ حقدار چیز جس پر تم اجرت لو وہ کتاب اللہ ہے ۔ صحیح بخاری ، کتاب الطب ، حديث رقم 5429 ۔ اس حدیث کے الفاظ واضح طور پر اس بات کی دلیل ہیں کہ کتاب اللہ پر اجرت لی جاسکتی ہے چاہے اس کو سکھا یا جارہا ہو  ، سنایا جا رہا ہو یا اس  کے ذریعے دم کیا جارہا ہو ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال جواز  کی حدیث کے موجود ہونے کے باوجود نہ لینا اولیٰ ہے ۔ اس سلسلے میں” وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ”  سے بھی اصولی رہنمائی لی جاسکتی ہے کہ مالدار حضرات نہ لیں اور ضرورت مند حضرات لے لیں ۔ البتہ یہاں ایک امر قابل مذمت ہے کہ تراویح میں قرآن سنانے کو اس طور پیشہ بنانا کہ جہاں سب سے زیادہ اجرت ملے وہیں تراویح پڑھائیں ۔ اجرت طے کرنے تک تو معاملہ ٹھیک ہے مگر اس طرح حرص مال کی پیشہ وری قیام اللیل جیسی عظیم نفلی عبادت میں خشوع وخضوع پر منفی اثر ڈالنے والی ہے ۔ اس لئے خدارا اجرت کے معاملہ میں تقوی اختیار کریں ۔

 

Facebook Comments

عبدالغنی
پی ایچ ڈی اسکالر پنجاب یونیورسٹی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply