• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ ؓ عیسائی تھیں ؟ (تیسری اور آخری قسط)

کیا ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ ؓ عیسائی تھیں ؟ (تیسری اور آخری قسط)

ایک ام المومنین کے مخصوص دن رسول اللہ تشریف لائے تو ان بی بی نے ایک کام کی وجہ سے اپنے باپ سے ملنے کی اجازت طلب کی ۔آپ نے اجازت مرحمت فرمائی۔اس کے جانے کے بعد آپ نے ماریہ ؓ کو طلب کیا ۔وہ بی بی واپس آئیں تو دروازہ بند تھا دروازے پر بیٹھ گئیں۔ جب رسول اللہ کے ہمراہ ماریہ کو دیکھا تو ناراحت ہوئیں ۔ رسول خدا (ص) نے ان کی رضایت کی خاطر ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر دیا اور اس سے اس واقعے کو پوشیدہ رکھنے کا کہا ۔لیکن انہوں نے اس سارے واقعہ سےحضرت عائشہ ؓ کو آگاہ کیا ۔ اور کہا میں خوشخبری دیتی ہوں کہ رسول اللہ نے اپنی کنیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے ۔
اس موقع پر سوره تحریم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں ان آیات میں رسول اللہ کو یوں خطاب ہوا ہے :
اے نبی! اپنی بیویوں کی خوشنودی کی خاطر خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو ؟اورخدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ خدا نے تم لوگوں کے لئے قسموں کے توڑ ڈالنے کا کفارہ مقرر کردیا ہے اور خدا ہی تمھار کارساز ہے اور وہی واقف کار حکمت والا ہے۔ اور جب پیغمبر نے اپنی بعض بیوی سے چپکے کوئی بات کہی پھر جب اس نے اس بات کی خبر دے دی اور خدا نے اس امر کو رسول پر ظاہر کردیا تو رسول نے بعض بات (قصہ ماریہ) جتا دی اور بعض بات (قصہ شہد) ٹال دی ۔غرض جب رسول نے اس واقعہ کی (حضرت عائشہ) کو خبر دی تو حیرت سے بول اٹھی آپ کو اس بات کی کس نے خبر دی، رسول اللہ  ‍‌ؐ نے کہا مجھے واقف کار خبردار (خدا) نے بتا دیا۔ اگر تم دونوں توبہ کرو تمھارے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں اور اگر تم دونوں رسول کی مخالفت میں ایک دوسرے کی اعانت کرتی رہو گی خدا و جبرائیل اور تمام ایمانداروں میں نیک شخص ان کے مددگار ہیں اور انکے علاوہ کل فرشتے مددگار ہیں۔ ( سورہ التحریم آیات 1 تا 4)
فرمان خدا اس بات کا بیانگر ہے رسول خدا اور ماریہ کے درمیان مہر و محبت موجود تھی جو خدا کے نزدیک ایک پسندیدہ امر تھا ۔بعض معاملات ماریہ ؓکے حاملہ ہونے کے وقت شدت اختیار کر گئے۔اس وجہ سے رسول اللہ نے ماریہ کو مدینہ سے باہر غزوہ بنی نضیر میں  ملنے والے عالیہ نامی نخلستان میں رہائش کیلئے بھیج دیا۔ (جو آج کل مشربہ ام ابراہیم سے معروف ہے) ۔اس کے بعد آپ انہیں دیکھنے وہاں جایا کرتے تھے۔
یہ جگہ آج کل ایک خراب قبرستان کی شکل میں ہے جہاں امام رضا  ؑ کی والدہ نجمہ خاتون،کچھ اہل بیت اور انکے چاہنے والوں کی قبریں موجود ہیں ۔یہاں زائرین کبھی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے لیکن آخری سالوں میں وہاں ایک بلند دیوار بنا دی گئی ہے اور اسے دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
 حضرت ماریہ کو طعنہ دیا گیا کہ آپ تو یہودی یا عیسائی کی بیٹی ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
اے ایماندارو (تم میں سے کسی قوم کا) کوئی مرد (دوسری قوم کے ) مردوں کی ہنسی نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ (خدا کے نزدیک ) اچھے ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں ) کیا عجب ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور تم ایک دوسرے کو طعنے نہ دو ،نہ ایک دوسرے کا برا نام دھرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق نام ہی برا ہے اور جو لوگ باز نہیں آئیں تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں۔ ( سورہ الحجرات آیت 11)
اب بحث کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس سے پہلے چند متفق اور متفرق حوالہ جات پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے ماہنامہ مجلہ “اسوہ حسنہ “میں ایک تحریر کے کچھ حصے آپکے گوش گزارتا ہوں۔
ان کا ذکرِ مبارک اشارے کنایوں ہی میں سہی ’’زبور‘‘میں بھی آیا ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کے حوالے سے جومختلف پیشین گوئیاں بائبل کے مختلف مقامات پر آئی ہیں ان میں سے ایک پیش گوئی یہ بھی ہے:
’’تیری معزز خواتین میں شاہزادیاں ہیں۔ملکہ تیرے داہنے ہاتھ اوفیر کے سونے سے آراستہ کھڑی ہے۔‘‘(زبور۴۵:۹-۱۰)
قاضی سلیمان سلمانؔ منصور پوری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:’’داہنے ہاتھ کے الفاظ پر غور کرنا چاہیے یہ ’’ملکِ یمین کا ترجمہ ہے‘‘ سب مؤرخین ماریہ خاتون (رضی اللہ عنہا)کو ملک یمین بتاتے ہیں پیش گوئی بالا میں پہلے بتایا گیا ہے کہ وہ شہزادی ہونگی اور ان کا آنا ملک یمین کی شان میں ہوگا۔‘‘    رحمۃ اللعالمین e :۲/۹۹(حاشیہ)
زبور کی عبارت سے یہی عیاں ہوتا ہے کہ ایک خاتون جو خانوادئہ شاہی سے تعلّق رکھتی ہونگیں وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کی جائیں گی ۔چنانچہ یہی ہوا شاہِ مقوقس نے نبی کریمﷺ کے نام اپنے نامۂ مبارک میں لکھا:
’’ بعثتُ الیک بجاریتین لھما فی القبط مکان عظیم ۔‘‘
’’میں نے دو لڑکیاں آپ(ﷺ) کے پاس بھیجی ہیں۔ جن کامرتبہ قبطیوں میں عظیم ہے۔‘‘
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے ’’تفہیم القرآن‘‘میں لکھا ہے:
’’حضرت ماریہr سے بربنائے مِلک یمین تمتّع فرمایا، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں کہ آپ ﷺنے ان کو آزاد کرکے ان سے نکاح کیا ہو۔‘‘ ]تفہیم القرآن :۴/۱۱۴[
لیکن کیا نبی کریم ﷺ کی بقیہ ازواج سے کیے گئے نکاح کی بھی کوئی تفصیل ملتی ہے؟کیا تقاریبِ ولیمہ اوردیگر پیام و قبول کی جزئیات سے بھی آگاہی ہوتی ہے؟
ہمارے نزدیک نبی کریمﷺ کا سیّدہ ماریہ قبطیہ کو اپنے حرم میں شامل کر لینا اور ان کے ساتھ بعینہٖ وہی سلوک رَوا رکھنا جو دوسری ازواج کے ساتھ تھا ،انہیں ازواج مطہرات کی صف میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے۔
پھر مولانا مودودی کا یہ دعویٰ بھی ہرلحاظ سے کامل نہیں ہے ۔چنانچہ امام حاکم نے اپنی ’’مستدرک‘‘میں مصعب بن عبداللہ الزبیری سے روایت کیا ہے :
’’ ثم تزوج رسول اللّٰہ ماریۃ بنت شمعون و ھی التی اھداھا الیٰ رسول اللّٰہ المقوقس صاحب الاسکندریۃ ۔‘‘
’’پھر شادی کی رسول اللہ ﷺنے ماریہ بنت شمعون سے اور یہ وہی ہیں جن کو ’’رخصت‘‘ کیا تھا مقوقس والیِ اسکندریہ نے رسول اللہﷺ کی طرف ۔‘‘ ] المستدر ک للحاکم:۴/۴۱ [
گو یہ روایت اسناداً موقوف ہے مگر اسے پیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ دعویٰ کہ سیدہ ماریہ ؓ سے نکاح کا کوئی ذکر کہیں نہیں ملتا، درست نہیں۔
اس بات سے تو یقیناً  کسی کو انکار نہ ہوگا کہ سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم e نے پردے میں رکھا ۔اُس معاشرے میں پردہ شرف و بزرگی کی کیسی علامت تھی ؟ اس سلسلے میں بخاری کی ایک اہم روایت ،جس کا تعلّق گو کہ سیدہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا سے ہے ،کا اہم ترین حصہ پیش کیا جاتا ہے ۔
’’ فقال المسلمون : احدیٰ امّھات المؤمنین ، أو ممّا ملکت یمینہٗ ؟ فقالوا : ان حجبھا فھی من امّھات المؤمنین ، و ان لم یحجبھا فھی ممّا ملکت یمینہٗ ، فلمّا ارتحل وطّالھا خلفہٗ و مدّ الحجاب بینھا و بین النّاس ۔‘‘]صحیح بخاری ، کتاب النکاح ، باب: اتخاذ السّراری و من اعتق جاریتہٗ ثمّ تزوّجھا [
’’بعض مسلمانوں نے پوچھا کہ حضرت صفیہ امہات المومنین میں سے ہیں ( یعنی آپ ﷺ نے ان سے نکاح کیا ہے ) یا لونڈی کی حیثیت سے ہیں۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر آنحضرت ﷺ ان کے لیے پردہ کا انتظام فرمائیں تو وہ امہات المومنین میں سے ہیں اگر ان کے لیے پردہ کا اہتمام نہ فرمائیں تو وہ لونڈی کی حیثیت سے ہیں۔ پھر جب کوچ کا وقت ہوا تو آنحضرت ﷺ نے ان کے لیے اپنی سواری میں بیٹھنے کی جگہ بنائی اور ان پر پردہ ڈالا تاکہ لوگوں کو نظر نہ آئیں۔‘‘
امام ابنِ کثیرکی یہ روایت بھی اہمیت کی حامل ہے
خلاصہ ء کلام ’’ جب بی بی ماریہ پر ان کے عمّ زاد برادر مابور کے ساتھ تہمت تراشی کی گئی تو نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی ؑ کو بھیجا ، سیدنا علی نے مابور کو نامرد پایااور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض حال کیا۔ جس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ہم اہلِ بیت سے اس تہمت کو رفع فرمادیا۔‘‘ یہاں سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کا شمار نبی کریمﷺ نے اہلِ بیت میں فرمایا۔
حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق محمد رسول اللہ نے نہ صرف حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہٗ کی آزادی کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ :اگر میرے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہٗ زندہ رہتے تو میں تمام قبطی عیسائیوں کا جزیہ معاف کردیتا ۔‘‘ ]محمد رسول اللّٰہ ﷺ :۲۵۳-۲۵۴[
سیّدہ ماریہؓ کی والدہ رومن تھیں اوریہ امر قطعاً غیر اہم نہیں ہے۔کیونکہ سیاسی اعتبار سے مصر اس وقت روم کے زیرِ نگیں تھا۔کسی برتر قوم کی عورت کا اپنے باجگزار قوم کے مرد سے نکاح یقینا معاشرتی اعتبار سے خاصی اہمیت رکھتا ہے۔شاہِ مقوقس کے خط سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سیّدہ ماریہ کے والدِ گرامی بھی مصر کے بااثر شخص تھے۔
بی بی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ حضرت بی بی خدیجہ ؑ کے بعد اولاد صرف ان کے بطن سے ہوئی عربوں میں یہ قابل فخر سمجھا جاتا تھا اگر کوئی خاتون بیٹا پیدا کرے۔ اس کے علاوہ کیسے ممکن کے تحفہ بھیجتے وقت ایک بادشاہ کسی بیوہ خاتون کا انتخاب کرے جو اس وقت کے رواج کے مطابق کسی لحاظ سے بھی قابل ستائش نہیں تھا۔
کیا وجوہات تھیں کہ ان کا مرتبہ گھٹا کر انہیں باندی اور بیوہ کے نام سے مؤرخین نے پیش کیا؟؟؟  ایک مختصر عرصہ میں  کوشش کی کہ حقائق سے پردہ  ہٹا سکوں ابھی بھی حسرت باقی ہے کہ کاش ایک دو سال کا عرصہ ملتا تو  مزیدتحقیق کرتا اور مزید تفصیلات  سب احباب کی خدمت میں پیش کرتا۔
بالتحقیق بی بی ماریہ ؓ ام المومنین ہیں۔ بی بی باکرہ اور کنواری تھیں اور ان کا تعلق شاہی خاندان سے تھا اور شادی سے پہلے ہی اسلام قبول کیا۔
قربت خداوندی کے قصد سے یہ تحاریر لکھیں ہیں۔ کسی غلطی کی طرف نشاندہی یا تصحیح و رہنمائی کرنا چاہئیں تو بندہ ناچیز ممنون ہو گا۔  شب قدر میں بندہ ناچیز کو اپنی مناجات اور دعاؤں میں ضرور یاد رکھیے گا۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply