وتایو فقیر۔۔وسیم احمد خانزادہ

وتایو فقیر نے بارہویں صدی ہجری میں ایک ہندو خاندان میں جنم لیا۔ ان کی ولادت ٹنڈوالٰہ یار کے قریب واقع نصرپور کے گاؤں تاج پور میں ہوئی۔ ان کے آباؤ اجداد عمرکوٹ کے رہنے والے تھے جو بعد میں نصرپور آباد ہو گئے۔ وتایو کا نام وتومل تھا، ان کے والد میلھورام اپنی بیوی بچوں سمیت مسلمان ہو گئے تھے۔ میلھو رام نے اپنا نام شیخ غلام محمد اور وتایو کا شیخ طاہر رکھا لیکن جوں جوں وتومل کی شہرت پھیلتی گئی ان کا نام وتو سے بگڑ کر وتایو فقیر ہو گیا۔ دوسری روایت ہے کہ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد والدہ کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ وتایو فقیر پیشے کے لحاظ سے رنگ ساز تھے۔

وتایو فقیر سندھ کی عام زندگی میں اسی طرز کا ایک کردار ہے جس طرح ترکی کا ملا نصیر الدین اپنے گدھے پر سفر کرتے کرتے لطیف پیرائے سے حکمت اور رمز کے موتی لٹاتا تھا۔ اسی طرح سندھ کا وتایو فقیر بھی گاؤں گاؤں گدھے پر گھومنے والا ایک جیتا جاگتا کردار تھا۔ ایسا کردار جو خدا سے لاڈ بھی کرتا ہے اور جھگڑتا بھی ہے۔

اس کی مثال اس کی باتیں، حرکات و سکنات، حکایتیں اور قصہ کہانیاں آج تک زبان زد خاص و عام ہیں۔ وتایو فقیر کے قصے کہانیوں نے نصیحت کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں خوف خدا، تزکیہ نفس اور انصاف کی جو تعلیمات دی ہیں وہ صدیوں زندہ رہیں گی۔ وتایو فقیر مذاق مذاق میں بہت گہری بات کہ جاتے تھے، جس کے پیچھے سچائی اور دیانت داری کا فلسفہ پوشیدہ ہوتا تھا۔ وتایو بھی اپنے وقت کے دانشور تھے۔ وہ اپنے ٹوٹکوں اور حکایتوں سے سماجی برائیوں کی نشان دہی کرتے تھے۔ وتایو فقیر صوفی، درویش تھے، نفس کو نیچا دکھانے کے لئے وہ طرح طرح کی تدابیر اپناتے تھے۔ ان کی کہانیوں کے کچھ مناظر دیکھیے۔

دسترخواں پر مختلف اقسام کے طعام سجائے گئے ہیں، مشروب ہیں، مٹھائیاں ہیں، پھل ہیں۔ وتایو فقیر نفس سے مخاطب ہوئے ہیں، بتا نفس تجھے کیا کھانا ہے؟ تجھے کیا پینا ہے؟ دیکھ لینا دنیا بھر کے طعام تیرے آگے سجے ہوئے ہیں، مشروب ہیں، پھل اور مٹھائیاں ہیں، بتا تجھے کیا چاہئے؟ پھر وتایو فقیر جیب سے سوکھی روٹی کا ٹکڑا نکالتے ہیں، پانی میں بھگو کر نوالہ منہ میں ڈالتے اور کہتے ”کھا میرے نفس کھا، اس سے لذیذ کھانا تونے آج تک نہیں کھایا ہوگا، کھا سوکھی روٹی کھا“۔

ایک روز نفس نے وتایو فقیر سے کہا، ”عید آنے والی ہے تو مجھے قیمتی کپڑے پہنا“۔ وتایو فقیر قیمتی ملبوسات لے آیا اور ویرانوں کی طرف نکل پڑا۔ راستے میں اسے چرواہا ملا۔ وتایو فقیر نے ایک لباس چرواہے کو دے دیا۔ نفس چیخ پڑا ”یہ کیا کررہے ہو وتایا“۔ وتایو نے اسے جواب نہیں دیا۔ ویرانوں کی طرف جاتے ہوئے اسے جو بھی خستہ حال ملا اسے ایک جوڑی لباس دیتا گیا۔ حتیٰ کہ وتایو فقیر کے پاس کپڑوں کی صرف ایک جوڑی رہ گئی جو اس نے پہن لی۔ نفس نے ہنس کر کہا ”میں سمجھ رہا تھا تم کپڑوں کی آخری جوڑی بھی کسی غریب غربے کو دے دو گے، چلو تم نے میری ایک خواہش تو پوری کی“۔ نفس کی بات سن کر وتایو فقیر رک گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ اسے پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک مجذوب دکھائی دیا۔ وتایو نے اپنے تن سے قیمتی لباس اتارا اور مجذوب کو پہنا دیا اور مجذوب کے پھٹے پرانے کپڑے خود پہن لئے۔

اسی طرح سے اس درویش کے واقعات میں ملتا ہے کہ ایک دفعہ وتایو فقیر ایک محفل میں داخل ہوا جہاں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ جب کھانا تقسیم کرنے کی باری آئی تو محفل میں موجود سب لوگوں نے اصرار کیا کہ وتایو فقیر کھانا تم تقسیم کرو۔ وتایو نے برجستہ پوچھا، کھانا تو میں تقسیم کر دوں گا مگر پہلے یہ تو پتہ چلے کہ خدا کی طرز پہ تقسیم کروں یا انسانوں کی؟ کیونکہ سب کو خدا کی تقسیم پہ ایمان تھا تو یک زبان بولے، “خدا کی طرز پہ تقسیم کرو”۔ بس پھر کیا تھا، وتایو نے کسی کے آگے ڈھیر کھانا رکھ دیا، کسی کے آگے ایک روٹی، کسی کے آگے پوری روٹی اور کسی کو ایک لقمہ دیا اور بعضوں کو یہ کہہ دیا کہ ابھی گھر چلے جاؤ پھر کسی دن آ جانا تو کھانا مل جائے گا۔ وتایو فقیر کے اس طرز عمل پہ وہ لوگ تو بہت خوش ہوئے جن کو پیٹ بھر کھانے کو ملا جبکہ باقی اس کو لعن طعن کرتے گھر کو چل دیے۔ وتایو نے دل میں سوچا کہ اے آسمان والے تیری تقسیم اور انسان کی تقسیم میں ایسا کیا فرق رہا کہ سب اہل محفل خوش نہ ہوۓ؟؟؟؟

اسی طرح ایک بار وتایو فقیر خربوزوں کی دکان پہ پہنچا اور ایک پیسہ دے کر ایک خربوزہ خریدا۔ کچھ دیر بعد اس نے سوچا کہ یہ ایک خربوزہ ناکافی ہے تو اس نے دوکاندار سے کہا کہ یار میرے پاس پیسے نہیں خدا کے نام پہ ایک خربوزہ دے دو۔ دوکاندار نے اس کو گھور کر دیکھا اور پھر خربوزوں میں سے ایک نہایت گندہ خربوزہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وتایو فقیر نے آسماں کی طرف نگاہ کی اور کہا، “اے خدا میرے ہاتھوں میں پکڑے دونوں خربوزے دیکھو، جو خربوزہ پیسہ دے کر لیا بہت اچھا ہے اور جو تیرے نام پہ لیا وہ نہایت خراب۔ اب تو ہی بتا پیسہ بڑا ہے یا تو”؟؟؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

ان کے جنم دن کے حوالے سے شہر ٹنڈوالہیار میں پہلی بار عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح ان کے قصوں اور سوانحی واقعات کے حوالے سے پہلی بار ادبی میلے کا انعقاد بھی شاہ لطیف پارک ٹنڈوالہیار میں کیا گیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply