سویلین بالا دستی کا سوال ؟…. ناصر منصور

 انتخابات کا کسی بھی حیلے بہانے التوا یا پھر عوام کی منشا کے برخلاف انتخابات کے من پسند نتائج ایک بڑے سیاسی بحران کو جنم دینے کا باعث بن سکتے ہیں ۔جس کے معاشی اور معاشرتی اثرات بھیانک ہوں گے ۔ موجودہ بڑھتا ہوا سیاسی بحران ریاست کی اندرونی ساخت میں پڑنے والی دراڑوں میں سے ایک یعنی سویلین سیاسی قیادت اور مقتدرہ قوتوں کے درمیان موجود شدید نظری خلیج کا اظہار ہے ۔ اور اس کے اثرات ہمیں نہ صرف سیاسی بساط پر پڑتے نظر آ رہے ہیں بلکہ بین الاقوامی تعلقات اور معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور پورے ملک کو بے یقینی اور ہیجانی کیفیت نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔

بظاہر مربوط اور ہموار جمہوری عمل کو غیر جمہوری انداز میں تارو پیڈ کر کے سماجی ارتعاش پیدا کیاگیاہے ۔ غیر منتخب ادارے کے ذریعے جمہوری اداروں پر غلبے کا نقارہ بجایا گیا اور اب یہ تاثر پیدا کرنے کی منصوبہ بند کوشش کی جا رہی ہے کہ آنے والے حکومت وہی بنائیں گے جنھیں ان کی آشیر باد حاصل ہو گی ۔عوام الناس کو ذہنی طور پر تیار کیا جارہا ہے کہ وہ اس خود ساختہ مصنوعی جمہوری انتظام و انصرام کو ابھی سے تسلیم کر کے ووٹ کے جمہوری حق سے دست بردار ہو جائیں ۔نواز شریف کی برطرفی سے لے کر ن لیگ سے منحرف ہونے والے اراکین اسمبلی کی پی ٹی آئی میں تھوک کے حساب سے شمولیت ، سرائیکی صوبے کے نام سے گروہ کی تشکیل پھر اسے یک لخت پی ٹی آئی میں ضم کرنے کے احکامات جیسے معاملات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بٹھانے کی ترکیب لڑائی جا رہی ہے ۔

اس پر افتاد یہ کہ عدلیہ اور نیب کی حد درجہ بڑھتی ہوئی جانب داری ، بلوچستان میں پوری سیاسی جماعت کا راتوں رات’’ہائی جیک‘‘ ہو جانا ، سینٹ کے الیکشن میں مصنوعی چہروں کا وفاق کی علامت ’’ ادارے‘‘ پر براجمان ہوجانا الیکشن اور الیکشن کے بعد کی صورت گری کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہر ممکن طریقے سے ان سیاسی قوتوں کو آئندہ کے حکومتی سیٹ اپ سے باہر رکھنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے جو ریاستی امور میں منتخب سویلین بالا دستی پر اب بھی مصر ہیں ۔کیا ایسا ہونا موجودہ حالات میں ممکن ہے ؟۔

یہ وہ سوال ہے جو ہر شہری کے ذہن میں گردش کر رہا ہے اور اسی سوال کی بنیاد پر ایک بڑی سیاسی صف بندی ہو رہی ہے۔ اس سوال کی جڑیں ہماری سیاسی تاریخ کے اس ناخوشگوار پہلو سے سے جڑی ہوئی ہیں جہاں ریاست کی مقتدرہ قوت کے نمائندوں نے اپنی کوتاہ اندیش پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر ریاست میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کو ہر بار بھیانک صورتحال سے دوچار کیا ۔اس کارِ خیر میں انھیں ان نام نہاد سیاسی گروہوں کی حمایت بھی رہی جنھیں خود انھوں نے ہی معاشرے میں پنپنے دیا ۔لیکن یہ بھی ہماری تاریخ کا ہی حصہ ہے کہ جن دور اندیش افراد/سیاسی قوتوں نے طاقت کے شتر بے مہار کو للکارا وہ نشانِ عبرت بنا دیے گئے۔لیکن جوں ہی منظر نامہ تبدیل ہوا ،تاریخ پر پڑی بددیانتی کی دھول ہٹی وہ راندہ ء درگاہ اور غدارانِ وطن معتبر اور تعظیم کے قابل ٹھہرے اور ان پر تبرّاپڑھنے اور ملامت کرنے والے تاریخ کی کچرہ کنڈی میں پھینک دیے گئے ۔

آج کی بچھی سیاسی بساط پراسی تاریخی تناظر میں نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جس کے سارے تانے بانے ماضی میں پیوست ہیں۔ ریاست کو درپیش اندرونی سیاسی بحران کا براہِ راست تعلق بیرونی صورتحال سے بھی ہے ۔اور تجزیہ کرتے وقت اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ریاست کے مذہبی، لشکری اور کشور کشائی کے جذبہ ء جنون نے ہمیں نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں تنہا اور بے سہارا کر دیا ہے اورامریکی سہارے چھننے پر اب چین سے اسی قسم کے سہارے کی امید لگا بیٹھے ہیں ۔ماضی میں امریکا سے راہ ورسم پر تنقید کرنا جرم تھا تو آج ایسی ہی صورتحال چین سے متعلق درپیش ہے ۔ہندوستان اور افغانستان کو تو چھوڑیں ایران کا رویہ بھی دوستانہ نہیں رہا۔ ہمارے یہ پڑوسی اپنی ناراضگی کاجو جواز پیش کر رہے ہیں اسے اقوامِ عالم نے عمومی طور پر تسلیم کیا ہے جب کہ ہمارے ریاستی بیانیے کی چین سمیت کوئی بھی کھل کر حق پر مبنی قرار دینے کو تیارنہیں۔

اسی قسم کے تحفظات جب ملک کے اندر اٹھائے جاتے ہیں تو غداری کے زمرے میں گردانے جاتے ہیں جو کہ اندرونی خلفشار کو مزید بڑھانے کا باعث بن رہا ہے ۔ اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور مسائل کو بحث وتمحیص سے حل کرنے کی بجائے غیروں کی سازش اور بیرونی ہاتھ ملوث کرنا محبوب مشغلہ بن گیا ۔یہ اسی صورتحال کا شاخسانہ ہے مذہبی انتہا پسند گروہوں کی فتنہ انگیزیاں بڑھنے کے قوی امکانات موجود ہیں،بلوچستان میں مسلسل بے چینی میں کمی امکانات نظر نہیں آ رہے جبکہ ’’متروک فاٹا‘‘ میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف ابھرنے والی نوجوانوں کی تحریک نے ایک نئی ’’ فالٹ لائن‘‘ ( دراڑ) کو ظاہر کیا ہے جس کے اثرات وانا سے لے کر کراچی تک محسوس ہو رہے ہیں ۔اور اب سندھ میں بھی نوجوان غیر قانونی وجبری گمشدگیوں پر ریاست اور مقتدرہ حلقوں سے چبھتے ہوئے سوالات کر رہے ہیں جن کے جوابات نہ ملنے پر اس چنگاری کے بھڑک اٹھنے کے امکانات موجود ہیں۔

اسی طرح منتخب وزیر اعظم کی بے توقیری نے ملک خصوصاََ پنجاب میں بالکل نئی سیاسی صورتحال کو جنم دیا ہے ۔ وہ سوال جو کہ ایک وقت میں بنگالی ، بلوچ ،پٹھان اور سندھی ریاست کی مقتدرہ قوت کے نمائندوں کی غیر جمہوری روش پر اٹھا کر غدار ٹھہرے آج پنجاب کے گلی کوچے میں عام وخاص کی زبان پر ہے اور نظری صف بندیوں کو جنم دے رہا ہے ۔سچ یہ ہے کہ نواز شریف نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے بلکہ گزشتہ سے پیوستہ جمہوری اقدار کے سوال ہی کو نئے پیرائے میں پیش کیا ہے ،اور اب یہ سوال صرف سندھ، بلوچستان یا پختونخوا کا ہی نہیں بلکہ پنجاب کا بھی ہے کہ ریاست میں مقتدرہ قوت عوام اور عوام کے منتخب نمائندے ہوں گے یا کہ وہ پچھلے ستر برس سے ریاستی امور کے بلاشرکت غیرے نگران بنے بیٹھے ہیں ۔ ہر بار نئی شدت کے ساتھ اٹھنے والا یہ سوال ہنور جواب طلب ہے اور آنے والا الیکشن اسی سوال کے گرد ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔اگر جواب دینے کی بجائے ماضی کی طرح دبانے کی کوشش یا سازشی پیش بندی کی گئی تو اس بار نتائج زیادہ خطرناک شکل اختیار کر سکتے ہیں ۔اگر طاقتور حلقے سمجھتے ہیں کہ عدلیہ ،نیپ ،پی ٹی آئی ،لبیک تحریک ،ملی مسلم لیگ ،باپ اور اس قبیل کی دیگر سیاسی، مذہبی گروہوں کو جوڑ کر سویلین بالا دستی کے سوال کووقتی طور پر ٹالا تو جا سکتا ہے لیکن معاشرے اس سے جنم لینے والے بحرن کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سوال کو ٹالنے کے لیے جو مصنوعی مورچہ بندی کی گئی ہے اس سے کچھ وقتی کامیابی ضرور حاصل کی جا سکتی ہے لیکن مستقلاََ اسے عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق ہی حل کرنا پڑے گا ۔اسی طرح سے معاشرہ اپنے نامیاتی ارتقا کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں بظاہر لگتا ہے پاکستان کے محنت کش عوام کے حقیقی اور بنیادی مسائل کہیں اس کشمکش میں دب کر رہ گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی جانب انقلابی پیشرفت کے لیے ملک میں جمہوری چلن ضروری ہے تاکہ حکمران طبقات کو بے نقاب کیا جا سکے ۔ منتخب نمائندے اگر امور ریاست چلانے میں آزاد ہوں گے تو پھر عوام بھی آزادنہ طور پر ان کا کڑااحتساب کر سکتے ہیں ۔ جمہوری عمل کا تسلسل ہی بالا دست طبقات کے طبقاتی کردار اور عوام کے بنیادی معاشی سماجی پر ان کے عوام دشمن رویے کو بے نقاب کرتا ہے اور ان کے مقابل نئی عوام دوستسیاسی صنف بندی کے امکانات کو روشن کرتا ہے ۔یہ جمہوری چلن ایسی گرہ ہے جس کے کھلنے سے ہی ایک طاقتور انقلابی متبادل تیزی سے تعمیر کیا جا سکتا ہے ایسا متبادل عوامی سیای اکٹھ جو جمہور کو حقیقی معاشی ،سیاسی آزادی سے ہمکنار کر سکتا ہے ۔

Facebook Comments

ناصر منصور
محنت کی نجات کے کوشاں ناصر منصور طالبعلمی کے زمانے سے بائیں بازو کی تحریک میں متحرک ایک آدرش وادی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply