ریمنڈ ڈیوس معاملہ

ریمنڈ ڈیوس معاملہ
عمیر فاروق
ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ بظاہر بہت الجھا ہوا معاملہ لگتا ہے۔ پہلے تو سول ملٹری تنازعہ کے ماتمی حضرات بیٹھ جائیں کیونکہ یہاں ایسا کوئی سول ملٹری تنازعہ موجود ہی نہ تھا۔ مباحثہ ضرور ہوا ہوگا جو جمہوریت کی روح ہے لیکن تنازعہ شئے دیگر است۔ کچھ اس دور کے مجموعی حالات پہ بھی نظر ڈال لیں۔ زرداری پہ یہ تنقید جاری تھی کہ اس نے بہت زیادہ امریکی جاسوسوں کو کھلم کھلا ویزے دے دئے( مزے کی بات ہے کہ یہ آواز جن حلقوں کی طرف سے اٹھ رہی تھی وہی آج ہمیں جمہوریت کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں) ۔بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اس دور میں واقعی امریکی ایجنسی کے آپریٹوز کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ بھی تھا اور ان کو کسی رنگے سیار نما سفارتی تحفظ بھی حاصل تھا۔ اس معاملہ میں وزارت خارجہ بھی تعریف کی مستحق ہے کہ امریکی سفارت خانے سے آنے والے ہر استثنا کے لیٹر پہ اجازت نہ دی گئی تھی بلکہ اسے منجمد کردیا گیا تھا حالات کے تقاضا کے پیش نظر۔

ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ کیا تھا؟ کیا وجوہات تھیں؟ وہ آیا کیوں اور گیا کیوں؟ کیا اس کا براہ راست تعلق اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے ہے؟ جو قرین قیاس ہے پاکستانی تو شائد نہیں لیکن یورپی عوام اکثر یہ قیاس کرتے ہیں۔ بہرحال ہم ان الجھے ہوئے سوالوں کو چھوڑ کے پیش آمدہ واقعات کی کڑیاں ملانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر وجوہات و محرکات کیا تھے۔ اس ضمن میں خبریں تو سبھی کی نظر سے گزریں ہیں ان کو دہرانا فضول ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک چلتی ہوئی شاہراہ پہ دو عام جرائم پیشہ نوجوانوں کو ایک گورے پہ پستول تاننے کی وجہ؟ اس گورے کا اس کو اتنا شدید لینے کی وجہ؟ وہ گاڑی بھگا بھی سکتا تھا، ہوائی فائرنگ بھی کرسکتا تھا یا اسی ٹریفک وارڈن سے شکایت بھی کرسکتا تھا جس نے بقول اسے گرفتار کرکے تھانہ پہنچایا۔ اس نے یہ سب نہیں کیا بلکہ گولیاں ماریں۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟

محرک اور نتیجہ، دو ہی چیزیں الجھے معاملات میں کچھ راہ دکھا سکتی ہیں۔ محرکات تو نامعلوم ہیں اس پہ اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن نتائج پہ غور کرلیں۔ اس کے بعد ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنا نہ ملا۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ باقی ایسے امریکی ایجنٹس کو بھی اشارہ مل گیا اور بہت جلدی پیک کرکے چلے گئے۔ مزید کوئی شک تھا تو پاکستان کی طرف سے یہ بات کہ عوامی جذبات بہت بھڑکے ہوئے ہیں لہٰذا امریکی ایجنٹس کی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ فاٹا کے ایک رہائشی کا ستم ظریفانہ سول کیس کہ اسلام آباد امریکی سفارتخانہ کے فلاں رہائشی جو دراصل سی آئی اے کا سٹیشن ہیڈ ہے کی غلط اطلاع پہ میرے گھر پہ ڈرون حملہ ہوا۔ لیکن چونکہ یہ حملہ امریکی ریاست کے فرائض کی انجام دہی میں ہوا تھا ،لہٰذا اس پہ فرد جرم تو نہیں عائد کی جاسکتی البتہ ہرجانہ کا کیس بنتا ہے۔ لہٰذا گورا صاحب سے ہرجانہ دلوایا جائے۔ اس اطلاع پہ سی آئی اے کے چیف فوراً پاکستان سے روانہ ہوگئے کیونکہ انکی موجودگی کا راز افشا ہو گیا تھا۔ عملاً یہ ہوا کہ سی آئی اے کا پاکستان میں سارے کا سارا عملہ ہی تبدیل ہوگیا۔ ہاں ڈاکٹر شکیل آفریدی یہیں رہا اور بعد میں گرفتار ہوا البتہ اس نے اسامہ کی موجودگی کی جگہ کی مخبری نہیں کی یہ اس پہ محض الزام ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کے کچھ بعد ریمنڈ ڈیوس کو بھی رہا کردیا گیا۔ کیوں اور کیسے؟ اب اس سوال کی ایک تہہ تو یہ ہے کہ اگر چھوڑنا ہی تھا تو سفارتی استثنا کا سہارا لے کر کیوں نہ چھوڑا؟ اور مجید اچکزئی کی طرح دیت کا سہارا کیوں لیا؟ دوسری یہ کہ کیا یہ بھی سول ملٹری تنازعہ تھا؟ تو اس کا جواب ریمنڈ ڈیوس خود دیتا ہے کہ سبھی شامل تھے۔ اس طرح سول ملٹری موازنہ کے احمق خود اپنی سوچ پہ غور کرلیں۔ اس سوال کی ایک تیسری جہت بھی ہے اور وہ ریاست کے مفاد کی ہے۔ جیسا کہ عالمی پریس نے بھی یہ کہا کہ یہ امریکہ کی سفارتی ناکامی ہے۔ یعنی ریمنڈ ڈیوس کے کیس نے ثابت کیا کہ اخلاقی طور پہ امریکی ریاست غلط تھی جو جاسوسوں اور قاتلوں کو سفارت کاروں کے پردہ میں بھیج رہی تھی۔ ایک کمزور ریاست یہی کرسکتی ہے۔ جو ہمارے دوست یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں امریکہ سے کوئی کھلی جنگ مول لینا چاہیے تھی وہ بھی دوسرے طالبان ہی ہیں۔ طالبان کا بھی یہی مطالبہ تھا۔ اگر وہ دوست یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی سول ملٹری تنازعہ تھا تو انکو مبارک ہو کہ سول ملٹری دونوں ہی اس فیصلہ میں شریک تھے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply