قاتل رویے۔۔۔۔مریم مجید ڈار

قارئین! گزرے دنوں میں میں نے ایک تحریر”سیاہ تتلی” کے عنوان سے لکھی تھی جو بنیادی طور پر ایک آرٹیکل یا مضمون تھا جسے تھوڑا سا ادبی رنگ اس لئیے دیا گیا کہ ادب اپنی فطرت اور گہرائی و چاشنی کے اعتبار سے انسانی نفسیات پر سیدھے سپاٹ اعداد و شمار کی نسبت زیادہ اثر رکھتا ہے۔
اس پر کچھ قارئین کو اعتراض ہوا کہ یہ محض ایک کہانی ہے اور مسلہ جو بیان کیا گیا ہے وہ ادھورا ہے اور ماں باپ کے اس رویئے کے محرکات کا پہلو تشنہ ہے۔ میں نے اسے دوبارہ پڑھا اور قارئین کی رائے کی روشنی میں مجھے واقعی احساس ہوا کہ اس معاملے کو تھوڑا سا زیادہ اور مختلف پہلووں سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
بنیادی طور پر اس آرٹیکل میں جس روئیے کی نشاندہی کی گئی تھی وہ والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کی جانب سے اولاد سے جذباتی لاتعلقی(emotional detachment) اور ان کے خود پسند رویوں کی وجہ سے بچے کی نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ اور ذہنی گرہوں اور الجھنوں کا پیدا ہونا ہے جو بچے کی شخصیت کو بری طرح مسخ کرتے ہیں اور وہ معاشرہ کے کارآمد فرد کی حیثیت سے ناکام رہتا ہے۔ اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ پچھلے مضمون میں جو پہلو تشنہ رہ گئے تھے، ان  کا بہتر طور پر احاطہ کیا جا سکے۔
صاحبان! دنیا بھر کے ماہرین جو بچوں کی نفسیات کے معاملات دیکھتے ہیں اور مختف و مسلسل تجربات کی مدد سے نتائج اخذ کرتے ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی شخصیت سازی میں اس کی زندگی کے ابتدائی پانچ برس بہت اہم ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دس برس کی عمر کو پہنچتے ہوئے بچے نے جو بننا ہوتا ہے وہ بن چکتا ہے اور بعد کے سب برس اس شخصیت کو پروان چڑھانے کے کام آتے ہیں۔ یعنی آپ کا بچہ معاشرے کا کیسا فرد ثابت ہو گا، اس کی عادات،رویہ،فطرت،رحجانات سب ڈیویلپ ہو جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں پختگی پیدا ہوتی ہے یعنی بطور والدین آپ کا رویہ،سلوک اور گھر کا ماحول بچے کی شخصیت سازی کے لئیے پیمانہ مقرر کرتا ہے۔

ایک آئیڈل ماحول یا گھرانہ وہ ہوتا ہے جہاں بچے اور اس کے والدین کے درمیان جذباتی خلیج نہ ہو اور بچے اپنے والدین کے ساتھ ذہنی و جذباتی طور پر ہم آہنگ ہوں۔ اس بات سے قطع نظر کہ آپ ملازمت پیشہ والدین ہیں، بچوں کی تعداد زیادہ ہے، وقت کی قلت کا شکار ہیں، آپ کی سب سے اولین اور مقدم زمہ داری آپ کی اولاد اور اس کی مثبت شخصیت سازی ہے اور حیلہ جوئی سے جرم کی شدت و نوعیت کو کم نہیں کیا جا سکتا کہ بچوں  کا جذباتی استحصال ان کے نرم و نازک ذہنوں پر بے حد بھدے اور تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے جو ایک فرد اور پھرمعاشرہ میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔
قانون فطرت ہے کہ بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی ایک دو برس میں سب سے زیادہ اپنی ماں کے قریب ہوتا ہے کیونکہ اس وقت وہی ہستی اس کی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے کے لئیے ذمہ دار ہوتی ہے۔ جوں جوں وہ بڑا ہوتا جاتا ہے تعلق گہرا ہوتا جاتا ہے،وہ ماں سے سیکھتا ہے،اس کے انداز اپنانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی توجہ چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی بات سنی جائے اور اسے اہمیت دی جائے۔ یہ وہ بہترین وقت ہوتا ہے جب ایک ماں اپنے بچے کی ذہنی تربیت اور اسے مثبت شخصیت بنانے کے راستے پہ عملی قدم رکھ سکتی ہے لیکن جذباتی طور پر بے حس اور لاپرواہ ماں اس راہ پر تباہی اور بگاڑ سے لتھڑے قدم رکھتی ہے۔ کیسے؟؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک تین چار سال کا بچہ  اپنی ماں سے چاہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ فٹ بال کھیلے۔ وہ ماں سے فرمائش کرتا ہے، ضد کرتا ہے اور بات نہ منوا سکنے کی صورت میں روتا چلاتا اور وہ سب حربے آزماتا ہے جو اس کا مقصد پورا کرنے میں معاون ہوں۔ اب ماں جو کہ بچے سے جذباتی طور پر لاتعلق ہوتی ہے وہ پہلے تو اسے درشتی سے منع کرتی ہے اورجب بات کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا تو اسے ایک آدھ تھپڑ لگا دیتی ہے۔ اب ہوتا کیا ہے؟ بچہ تو بچہ ہے۔ وہ کچھ دیر میں اپنی ضد بھول کر کسی اور طرف متوجہ ہو جائے گا لیکن ماں کی درشتی،تلخی اور لاتعلقی اس کے لاشعور میں ایک گرہ باندھ دے گی،اور یاد رکھئیے کہ یہ پہلی گرہ ہے، کھل سکتی ہے اگر آپ اپنے رویئے کی تلافی کر دیں۔ بچے کو گلے لگائیں،اسے چومیں اور پیار سے بات سمجھانے کی کوشش کریں۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ماہرین نفسیات اطفال “لمس” کو تعلقات اور جذبات کی گہری وابستگی کے لئیے سب سے ضروری عنصر قرار دیتے ہیں۔ وہ بچے جو والدین کے محبت بھرے لمس سے محروم رہتے ہیں وہ تاعمر ان کے ساتھ خاص جذباتی وابستگی پیدا نہیں کر پاتے۔
خیر! تو ایک جذباتی لاتعلق ماں جو اولاد کو محض گھر کے دوسرے کاموں کی طرح نمٹا رہی ہوتی ہے، وہ اپنے روئیے کی تلافی کے بارے میں سوچتی تک نہیں اور پھر یہ روش اس قدر مستعمل ہو جاتی ہے کہ نتیجتا بچہ اپنی ماں سے پہلے نفسیاتی اور ذہنی طور پر دور ہوتا ہے پھر اس روئیے کے ردعمل کے طور پر وہ ماں سے متنفر ہونے لگتا ہے اور تیسرے مرحلے میں وہ اعلان جنگ کرتا ہے جسے عموما والدین ڈھیٹ پن، بغاوت،نافرمانی اور بدتمیزی کا نام دیتے ہیں۔ اس مرحلے پر بجائے محرکات جاننے اور ان کا سدباب کرنے کے، بچے کے “بگاڑ” کو سختی، ڈانٹ ڈپٹ،لعنت ملامت اور بعض صورتوں میں جسمانی سزاوں اور آسائشات معطل کرنے(کھلونے نہ دلانا یا کھیلنے نہ دینا) کے طریقہ کار آزمائے جاتے ہیں جو پہلے سے جذباتی تنہائی سہتے بچے کے لئیے مزید ہلاہل ثابت ہوتے ہیں اور ردعمل کے طور پر وہ سزاوں سے سدھرنے کے بجائے مزید سرکشی اختیار کرتے ہوئے وہ کام بار بار دہراتا ہے جن سے والدین کو تحریک ملے یا وہ اس کا “نوٹس” لیں۔ اس سلسلے کا دوسرا قاتل رویہ جو بچے کی مزید جذباتی تباہی کا سبب بنتا ہے وہ والدین کا بچے کو اس کے دوسرے بہن بھائیوں یا ملنے جلنے والوں کے بچوں کے ساتھ تقابل کرنا اور بچے کو ان سے کمتر ثابت کرنا ہے مثلا” اپنے دوسرے بہن بھائیوں کو دیکھو،ان سے سیکھو،وہ کتنے سعادت مند ہیں”وغیرہ وغیرہ۔ یعنی آپ بچے کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ وہ ایک کمتر اور بیکار انسان ہے اور دنیا میں دیگر سب اس سے کجا بہتر ہیں۔ یہ تقابل ایک بچے کو دوسروں سے دور کرتا ہے، نفرت حسد اور کینہ پرستی کے جذبات کو ابھارتا ہے ۔ وہ اپنے بہن بھائیوں سے دوستوں سے، دیگر ہم جماعتوں سے  کترانے لگتا ہے اور جذباتی طور پر مزید تنہا ہوتا چلا جاتا ہے۔
صاحبان! ذرا اس بچے کی ذہنی حالت کا تصور تو کیجئے جسے اپنی بات سنانے کے لئیے کوئی نہ ملتا ہو؟ وہ تنہا سے تنہا  ترین ہوتا چلا جائے۔ لاپرواہ والدین، حریف لگتے بہن بھائی اور کوئی دوست بھی نہ ہو تو کہیے! اس بچے کی شخصیت پہ یہ اذیت کس قدر برے اثرات مرتب کرے گی اور شومئی قسمت اگر بچہ حساس طبعیت کا ہو تو ذہنی اور جذباتی درماندگی دوچند ہو جاتی ہے۔
والدین اس بچے کو “راہ راست” پر نہ لا سکنے میں ناکام ہو کر اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیتے ہیں اور بچہ دن رات اس جذباتی لاتعلقی کے جہنم میں اپنی ذات کی نفی سہتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی مبہم اور الجھاو سے بھرپور شخصیت میں ڈھلنے لگتا ہے۔
اب یہ وہ مقام ہے جہاں سے دو راستے نکلتے ہیں۔ ایک وہ راستہ جہاں بچہ اپنی ذات کی مکمل نفی کے بعد سب کے بدلے خود سے لینے پر تل جاتا ہے اور جسمانی ضرر پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، بری عادات اپنا لیتا ہے،جرائم میں دلچسپی لینے لگتا ہے اور خود اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہے۔ ایسے بچوں میں عام طور پر چھوٹی موٹی چوری چکاری، ہم عمر بچوں سے الجھنا اور کم عمر بچوں پر تشدد کے منفی رحجان پائے جاتے ہیں اور بچہ ایک مکمل تباہ کن اور منفی شخصیت کے سب رنگ ڈھنگ اپنا لیتا ہے اس کی فطرت پر غصہ،بے رحمی تشدد، نفرت اور کینہ قابض ہو جاتے ہیں اور نتیجہ؟معاشرے کا ایک ناکارہ اور منفی فرد پروان چڑھنے لگتا ہے۔
دوسرا راستہ وہ ہے جو بظاہر دیکھنے میں کم نقصان دہ لگتا ہے تاہم اپنے مضمرات میں وہ بھی پہلے راستے سے کچھ کم نہیں ہے۔
اس راہ کو منتخب کرنے والا بچہ اپنے سکول یا اساتذہ میں دلچسپی ڈھونڈ لیتا ہے اور جس صیلاحیت یا کارکردگی کے طفیل اسے توجہ یا اہمیت ملتی ہے اسے مزید نکھارنے لگتا ہے۔ چاہے وہ تعلیمی سرگرمیاں ہوں یا غیر نصابی عوامل وہ اہمیت پانے کے لئیے اس پر جنونی انداز میں محنت کرتا ہے ۔ تعریفی کلمات اور حوصلہ افزائی سے خوش ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنے غیر اہم ہونے کے احساس کو شکست دینے کے لئیے دوہری شخصیت بننے لگتا ہے۔ جو گھر سے باہر خوش مزاج، بذلہ سنج اور دوست مزاج بچہ ہوتا ہے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی خاموش سرد مہر اور لاتعلق روح بن کر اپنے آپ تک محدود ہو جاتا ہے۔گھر سے بیزار اور رشتوں سے متنفر!
گزرتے وقت کے ساتھ شخصیت کا یہ دورخا پن اسے ماں باپ بہن بھائیوں سے جذباتی طور پر اس قدر دور کر دیتا ہے کہ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہوتا ہے۔ وہ جذباتی تنہائی سے سمجھوتا کرتا ہے، اسے سہنا سیکھتا ہے اور اس معاملے میں خودانحصاری اسے ایک ایسی شخصیت بنا دیتی ہے جو مستقبل میں رشتے بنانے اور انہیں سنبھالنے کی اہمیت سے بالکل واقف نہیں ہوتی۔
چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر والدین کی توجہ نہ پا سکنے والابچہ پھر بڑی سے بڑی کامیابی پر بھی والدین کو مطلع کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔خود انحصاری اسے مکمل طور پر سیلف سینٹرڈ انسان کا روپ دے دیتی ہے اور دوسروں کے لطیف احساسات و جذبات کو سمجھنے اور جذباتی طور پر وابستہ ہونے کی صیلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
ایسے بچے جب نوجوان بنتے ہیں، عملی زندگی میں قدم دھرتے ہیں تو گھر والدین اور رشتے ان کے نزدیک بالکل بے وقعت موضوعات ہوتے ہیں۔ وہ اگر لڑکے ہیں تو پڑھائی اور ملازمت کے لئیے ایسی جگہوں کا انتخاب کریں گے جہاں انہیں کسی دوسری جگہ اقامت اختیار کرنی پڑے اور وہ گھر سے حتی الامکان دور رہ سکیں۔
لڑکیاں زیادہ تر اس وقت تک برداشت کر لیتی ہیں جب تک وہ اپنے گھر کی نہ ہو جائیں اس کے بعد وہ والدین سے ملنے آنا تک پسند نہیں کرتیں اور تعلقات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔  اور والدین پھر اس اولاد کی ناہنجاری کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں جسے انہوں نے مال و دولت خرچ کر کے اور آسائشات فراہم کر کے پروان چڑھایا ہوتا ہے۔ وہ اس سلسلے میں کی گئی اپنی مجرمانہ کوتاہیوں اور غفلتوں سے باآسانی نظریں چرا لیتے ہیں اور اولاد کو مورد الزام ٹھہرا کر انہیں نفسیاتی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ یہ تو کچھ کم “مضر” اثرات کا بیان ہے۔ صورتحال مزید پیچیدہ اور گھمبیر تب ہوتی ہے جب ایسے نوجوانوں کی زندگی میں کسی کو شامل کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔ جذباتی بے حسی کے پہاڑ تلے دب کر زندگی گزارنے والوں کی اکثریت اپنے جیون ساتھی سے جذباتی لگاو نہیں رکھتی اور شوہر و بیوی کے رشتے کو ایک ایگریمنٹ کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ اگر تو حالات موافق رہیں تو گزارہ چلتا رہتا ہے اور جونہی اس رشتے میں کوئی ایسا مقام آئے جہاں سمجھوتے، درگزر اور برداشت سے کام لینا پڑے تو اکثریت معاملات علیحدگی پر ختم ہوتے ہیں کہ قلبی بے حسی انہیں بے حد آرام سے الگ کر دیتی ہے۔ ایسی صورت میں فریقین پر تو جو گزرتی ہے وہ الگ داستان ہے مگر صورتحال کا بدترین شکار وہ بچے ہوتے ہیں جو ساری عمر بروکن فیملی کے عفریت سے نجات نہیں پا سکتے اور مزید سے مزید ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کے گورکھ دھندے میں بری طرح سے جکڑے جاتے ہیں اور ظاہر ہے اتنی ابنارمل زندگی گزارنے والا بچہ کل کو نارمل طور پر کیسے سوچ سکتا ہے؟ کیسے نارمل برتاو کر سکتا ہے؟یعنی ایک اور نفسیاتی نسل پروان چڑھی۔
اب ذرا فلیش بیک میں دیکھئیے! معاملہ کہاں سے شروع ہوا تھا؟؟ جی ہاں! “جذباتی بے حسی اور استحصال سے”! وہ زہریلا بیج جس نے پہلے پہل ایک بچے کی نفسیات کو زہر آلود کیا، وہ کتنے لوگوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنا؟اور مستقبل میں کن کن افراد کو کس کس طرح متاثر کرے گا،کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
اس معاملے کو دوسرے رخ سے دیکھیں تو جذباتی استحصال کا شکار ہونے والے افراد کی اکثریت اپنے بچوں سے لاشعوری طور پر بدلہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔اور وہ والدین کے اس عمل کو شدید ناپسند کرنے کے باوجود لاشعوری طور پر انہی کے طرز عمل کو دہرا رہے ہوتے ہیں۔ صرف اپنی ذات کو اہمیت دینے کی عادت،خود پسند رویوں کا زہر مزید سے مزید نسلوں کے بگاڑ کا سبب بننے لگتا ہے۔
صاحبان خرد و دانش! کہیے کیا یہ سلوک جو ایک بچے سے شروع ہوا،وہ نسلوں کی تباہی کا موجب نہ بنا؟ وہ قاتل رویہ جسے اگر بروقت درست کر لیا جاتا تو متاثرین معاشرے کے بہترین افراد کے طور پر سامنے آ سکتے تھے؟
ذرا سوچئیے کہ ایک قاتل رویہ کس قدر دوررس اثرات رکھتا ہے۔
خدارا! اولاد جیسی نازک اور اہم زمہ داری کو ان قاتل رویوں کی بھینٹ چڑھنے سے بچائیے! اپنے بچوں کے ساتھ ذہنی اور قلبی وابستگی کو بڑھائیں! ان کی بات سنیں،ان سے بات کریں! انہیں اتنا اعتماد دیں کہ وہ آپ کی ڈانٹ ڈپٹ کے خوف کے بغیر اپنے معاملات میں آپ کو شریک کر سکے۔ اس کے ذہنی شعور کو اتنی جلا دیجئے کہ آپ کا بچہ آپ کی نصیحت اور سرزنش کو اپنے بھلے کا کلیہ جانے نہ کہ اپنی توہین!!
بچے بھی احترام کے متقاضی ہیں۔! اپنی زبان سلوک اور طرز عمل سے ان کی توہین نہ کیجیے! بےرحمی کی حد تک لاتعلق نہ ہو جائیے! اگر وہ چمکتی آنکھوں میں ستارے لئیے آپ سے اینول رزلٹ فنکشن پہ آنے کی فرمائش کرے تو اسے ایک زمہ داری جانتے ہوئے یہ فرض ادا کریں تا کہ کل کو وہ یونیورسٹی کی ڈگری وصول کرتے ہوئے یا ملازمت کا خط قبول کرتے ہوئے اپنے شانے پر آپ کی تھپکی کا منتظر رہے۔
بچوں کو صرف اپنا پیسہ ہی نہیں اپنا آپ،اپنا لمس بھی دیجیئے!! انہیں سینے سے لگائیے،انکی پیشانیوں پر بوسہ دیجیئے! انہیں بتائیے کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے،آپ کا فرض ہے! محبت کو بتانا پڑتا ہے،ثابت کرنا پڑتا ہے  ۔ زبان سے،عمل سے،سلوک سے،طرز عمل سے! بچوں کو معاشرے کا ایک کارآمد پرزہ ایک مثبت انسان بنائیے کہ یہ زمہ داری آپ کی ہے اور روز آخرت آپ اللہ کریم کو اپنے اہل و عیال کے لئیے جواب دہ ہوں گے۔
ورنہ کئی گھروں میں پلنگوں تلے کارٹن امیدوں،تعلقات، جذباتی وابستگیوں، ٹرافیوں،اسناد، ٹوٹے ہوئے کھلونوں اور رشتوں کی ان لاشوں سے بھرتے رہیں گے جنہیں دفنایا نہیں جاتا اور وہ تاحیات تعفن زدہ تابوت بنے رہتے ہیں۔
خدارا! بچوں کا نفسیاتی اور جذباتی استحصال نہ کیجئے کہ خدا کی جنت کے ان پھولوں کو کانٹے دار جھاڑیوں میں بدلنے کے نتائج نہایت بھیانک ہوتے ہیں۔! آئیے! سوچ بدلنے کی جانب پہلا قدم بڑھائیں کہ پہلا قدم ہی کامیابی کے سفر کی شرط ہوتا ہے۔
رہے نام اللہ کا!

 

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply