آٹزم (خود محویت)۔۔خطیب احمد

ڈس ابیلیٹی کے سوشل ماڈل کی ڈیفی نیشن میں
آٹزم پر ریسرچ کے دوران میرے اوپر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ میں نے خود کو آٹسٹک پرسن سمجھنا شروع کر دیا۔ میں ایک بات شروع میں واضح کر دوں یہ کوئی معذوری نہیں ہے۔ بلکہ ایک نیورو ڈیویلپمنٹل ڈائیورسٹی (تنوع) ہے۔ جسکے آگے مختلف درجے ہیں۔ اور اسکے ساتھ کچھ مزید چیزیں جڑی ہو سکتی ہیں۔ ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی اسکی وجوہات اور علاج ممکن نہیں ہے۔
مگر کریں کیا؟

آٹزم یا آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر کی بات کریں۔ تو اسکی علامات دو تین سال کی عمر سے لیکر عمر کے کسی بھی حصے میں نمایاں ہو سکتی ہیں۔ یہ علامات مائلڈ اور شدید دونوں طرح کی ہو سکتی ہیں۔
ماہرین نفسیات و ورکنگ سپیشل ایجوکیشنسٹس کے مطابق آٹزم کی بعض علامات یہ ہیں
سماجی تعلقات سے کترانا۔
طبیعت میں جارحانہ پن۔
نام سے پکارے جانے پر جواب نہ دینا۔
ہر وقت کی بے چینی اور خوف۔
بہت ہی ظالم یا بہت ہی نرم دل۔
توجہ دینے میں دشواری ۔
تنہائی پسند اور گوشہ نشین۔
بات کرتے وقت آنکھیں چرانا۔
الفاظ اور جملوں کو بار بار دہرانا۔
ذرا سی بات پر پریشان ہو جانا۔
اپنا مطلب سمجھانے یا بات کا اظہار کرنے میں دشواری ہونا
ہاتھوں کو چڑیا کے پروں کی طرح پھڑپھڑانا (Hand Flapping)
ایک ہی کام کو بار بار کرنا
ایک جگہ پر سکون سے نہ بیٹھنا، بیٹھے ہوئے اچھلنا کودنا
بات کرتے ہوئے آئی کانٹیکٹ نہ دینا
بات سن لینا مگر کوئی رسپانس نہ دینا
بہت زیادہ ضد کرنا، شور مچانا، چیزیں توڑنا، نقصان کرنا، اگریشن
عام بچوں سے زیادہ شرمیلا ہونا
بات کو سمجھنے اور اپنی بات کا اظہار کرنے میں دشواری ہونا
اپنی مرضی کے موضوع پر ہی بات کرنا۔

ایم فل ڈیویلپمنٹل ڈس ابیلیٹیز کرنے کے ساتھ دس سال کے فیلڈ ایکسپیرئنس اور گزشتہ بارہ دنوں میں 120 گھنٹوں کی متواتر گہری (deep) و جدید (latest) ریسرچز کو پڑھنے، دنیا بھر کے آٹسٹک افراد کے انٹرویوز سننے کے بعد میں آٹزم کو ایک مختلف نظر سے دیکھنے کے قابل ہوا ہوں۔ مجھے لگتا ہے مضمون تھوڑا لمبا ہوجائے گا مگر مجھے آج وہ سب کچھ کہنا ہےجو بہت کم کہا سنا اور لکھا گیا۔

حالیہ برسوں میں آٹزم کی ریشو بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ ایک راؤنڈ نمبر میں ہر سو میں سے ایک بچہ آٹزم کے ساتھ ہے۔ اسی تناسب سے دنیا کی 7.9 ارب آبادی کا ایک فیصد یعنی 8 کروڑ آٹزم کے ساتھ ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو 22 کروڑ میں سے 22 لاکھ افراد آٹزم کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان آٹزم سوسائٹی کی آٹزم کے عالمی دن 2 اپریل 2021 کو جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پاکستان میں اس وقت 4 لاکھ بچے آٹزم کے ساتھ ہیں۔ ہمارے ہاں شناخت کے عمل سے وہی آٹسٹک گزرتا ہے۔ جس میں آٹزم کی اوپر بیان کرنا انتہائی علامات پائی جاتی ہیں۔ اور بے شمار لوگ اپنے آٹسٹک بچوں کی وسائل و شعور کی کمی کے باعث باقاعدہ اسسمنٹ ہی نہیں کروا پاتے۔

آٹسٹک کی اسسمنٹ کرتا کون ہے؟ عموماً ڈاکٹرز یا ماہر نفسیات؟ یہ دونوں فریق اور تیسرا فریق والدین آٹزم کو زیادہ تر ڈس ابیلیٹی کے میڈیکل ماڈل میں دیکھتے ہیں۔ میڈیکل ماڈل میں آٹزم کو ایک ذہنی بیماری، نیورو لاجیکل یا جنیٹک ڈس آرڈر، کوئی میڈیکل کنڈیشن یا ٹریجڈی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ نیورو لاجیکل ڈیویلپمنٹل ٹھیک نہیں ہوئی۔ تو یہ بچہ نارمل نہیں ہے۔ جسے نارمل کرنے پر کام شروع ہو جاتا۔ اسکا علاج ہونا چاہیے۔ پہلی یہی ازمشپن والدین ڈاکٹرز اور کچھ ماہر نفسیات اپناتے ہیں۔ اور بچے کا علاج کے چکروں میں ابتدائی سالوں میں ہی بیڑہ غرق کرکے رکھ دیتے۔
میں بحیثیت سپیشل ایجوکیشنسٹ اس میڈیکل ماڈل کو آٹزم کے تناظر میں کلی طور پر رد کرتا ہوں۔ ڈاکٹرز کیا کرتے ہیں؟ ٹیسٹ وغیرہ؟ اور سائیکالوجسٹ اسسمنٹ کرتے یا ان میں سے کچھ انکے ساتھ سیشن بھی لیتے؟ اور سپیشل ایجوکیشنسٹ کیا کرتے؟ اسسمنٹ کے ساتھ دنیا بھر میں ان بچوں کے ساتھ والدین کے بعد زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ایک آٹسٹک بچہ جیسے خود کو ڈس ایبلڈ نہیں سمجھتا۔ اور نہ وہ حقیقت میں ہوتا ہے۔۔ڈس ایبلٹی کے سوشل ماڈل میں ہم سپیشل ایجوکیشنسٹ آٹزم کو کوئی بیماری یا معذوری نہیں سمجھتے۔ کہ جسکا علاج کیا جائے۔ اسے ٹھیک کیا جا سکے یا اسکی روک تھام ہو سکے۔

دنیا بھر میں ہر سال کروڑوں اربوں ڈالر آٹزم کی ریسرچ پر لگائے جا رہے ہیں۔ میں نے جب آٹزم کی فنڈنگ پر ریسرچ کی تو میرے سامنے بات کچھ یوں آئی۔
40 فیصد فنڈز اس فیلڈ میں خرچ ہو رہے ہیں کہ اسکی جنیٹک اور بائیولوجیکل یا دیگر وجوہات کیا ہیں؟ اسکی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ ایک سو سال کی ریسرچ کے بعد بھی یہ سوال جوں کا توں ہے۔
20 فیصد فنڈز اس بات پر کی جانے والی ریسرچ پر لگ رہے کہ اسکا علاج کیا ہے؟ ہم آٹزم کو کیسے نارمل کر سکتے ہیں؟

20 فیصد فنڈز آٹزم کے مسائل اور رویوں کی تلاش میں کی جانے والی سالوں پر محیط تحقیقات میں کھپ رہے ہیں۔
صرف 7 فیصد فنڈز آٹسٹک لوگوں کی ویلفیئر اور انکی مدد کرنے میں لگ رہے۔
آٹسٹک لوگوں میں خود کشی کا رجحان عام لوگوں سے 9 گنا زیادہ ہے۔
آٹزم کی ایوریج لائف دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی 54 سال ہے جبکہ نارمل لائف سپین 68 سال تک ہے۔ اور کچھ ممالک میں 80 سال تک بھی ہے۔
دنیا کی ترجیحات ہی آٹزم کو لیکر غلط ہیں۔ کینیڈا انگلینڈ امریکہ فرانس جرمنی دوبئی میں مقیم پاکستانی والدین سے میری بات ہوئی تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہاں بھی ان بچوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہم خود ہی کرتے ہیں جو بھی کریں۔ میڈیکل ماڈل پر ہی کام ہوتا ہے۔ شدید ذہنی اضطراب میں نیند کی گولیاں دے دی جاتی ہیں۔ یا ہمیں نہیں معلوم ہمارے بچے کے ساتھ ری ہیبلی ٹیشن سنٹر میں کیا کرتے ہی ۔
آٹزم خواتین کی نسبت مردوں میں بہت زیادہ ہے۔ دس آٹسٹک بچوں میں سے ایک لڑکی اور نو لڑکے ہو سکتے ہیں۔ یا سولہ میں سے ایک لڑکی ہو سکتی ہے۔

آٹزم سوشل ماڈل کے تحت ہے کیا؟
آٹزم کوئی ڈس ایبلٹی نہیں ہے۔ یہ ایک نیورولوجیکل ڈیویلپمنٹ کا مختلف پیٹرن ہے۔ ان بچوں کی سوچنے سمجھنے رسپانس کرنے برتاؤ کرنے گفتگو کرنے میل جول رکھنے کی عادات اکثریت سے مختلف ہوتی ہیں۔ اور آٹزم کے ساتھ لوگوں کی آپس میں بھی ان ایریاز میں ترجیحات اور علامات ایک دوسرے مختلف ہیں۔
کچھ لوگ نارمل لوگوں کی ڈیفی نیشن میں بھی انٹرو ورٹ Introvert اور ایکسٹرو ورٹ Extrovert ہوتے ہیں۔ MBTI کا ٹول استعمال کرکے آپ اپنی پرسنیلٹی ٹائپ معلوم کر سکتے ہیں۔ میں ENFP ہوں۔ یہ میرا ایک پرسنیلٹی کوڈ ہے۔ میں ایکسٹرو ورٹ ہوں۔ اس کوڈ کو میں نے ایک لائف کوچ سے فیس دے کر اپنی پرسنیلٹی اسسمنٹ کروا کر معلوم کیا ہے۔ آپ کا بھی کوئی پرسنیلٹی کوڈ ہوگا؟ جو ہمارے سیکھنے اور زندگی گزارنے کے مخصوص طریقے بتاتا ہے۔ جب کوڈ معلوم ہوجائے تو ہمارے لیے یہ آسان ہوجاتا ہے۔ ہم کس فیلڈ کے لیے بنے ہیں؟ کس کام میں تھوڑا کام کرکے زیادہ اور جلدی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ کونسا کام کرتے ہوئے ہم تھکیں گے نہیں۔
اکثریت ساری عمر اپنی ناپسند کے کام میں ہی لگی رہتی۔ اور لوگ زندگی میں کچھ بھی بڑا نہیں کر پاتے۔
آپ بھی اپنا پرسنیلٹی کوڈ معلوم کیجئے۔ اور پھر اس کام میں جت جائیے۔ بس دس سال سر نہیں اوپر اٹھانا۔ ٹکا کر محنت کرنی ہے۔ اور انشاء اللہ اگلا سو سال آپکا نام اس فیلڈ میں زندہ رہے گا۔ جتنی محنت زیادہ مقصد بڑا ہوگا اتنا نام معتبر ہوگا۔

آٹزم کی اسسمنٹ تو کروا لی۔ والدین اب کیا کریں؟
اس بچے کو اپنے دیگر بچوں سے مختلف بچہ قبول کریں۔ یہ مشکل ہے خصوصاً ایک ماں کے لیے۔ مگر میری بہن آپ اس بات کو لیکر کسی دکھ یا صدمے میں پلیز ہر گز نہ جائیں۔ نہ ہی اس بچے کو ٹھیک کرنے کے غلط راستے پر چل پڑیں۔ یہ بچہ ساری عمر دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہو سکے گا۔ یہ اپنے انداز میں ایک شاندار زندگی گزار سکتا ہے۔ اگر آپ اسے جو ہے جیسے ہے کی بنیاد پر قبول کر لیں۔۔اور اسکی بہتری پر کام شروع کر دیں۔
اس بات کو چھپائیں بھی نہیں۔ سب کو بتائیں فخر سے کہ آپکا بچہ آٹسٹک ہے۔ اسکی پسند ناپسند عادات و اطوار تھوڑی یا زیادہ مختلف ہیں۔ فیملی و خاندان والوں کو ایجوکیٹ کریں۔ کہ اسکے ساتھ برتاؤ کیسے کرنا ہے۔
کچھ بچے وربل اور اکثریت نان وربل کی ہوتی ہے۔ کچھ بچے ساری عمر ایک لفظ بھی نہیں بول پاتے۔ اشاروں کی زبان سیکھ جاتے ہیں۔ یا کوئی مخصوص الفاظ بولتے ہیں۔ جیسے انڈہ امی ابو آم کوئی ایک ایک لفظ وہ بھی جب انکی مرضی ہو۔
تفصیلی اسسمنٹ جو ایک فرد واحد نہیں بلکہ پروفیشنلز کی ایک پوری ٹیم کرے۔ اور کئی دن پر وہ اسسمنٹ محیط ہو۔ وہ طے کرے گی کہ آٹزم کے ساتھ کونسی کنڈیشنز جڑی ہوئی ہیں؟ جنکی وجہ سے اسے سپیکٹرم کہا جاتا۔ اور
اسکا علاج نہیں کرانا (جو دنیا بھر میں ہے بھی کوئی نہیں) بلکہ مینجمنٹ اور ایجوکیشن کا پلان کیسے بنانا ہے۔
آٹزم کے ساتھ سب سے شدید کنڈیشن جو جڑتی وہ نابینا پن (Blindness) ہے۔ دنیا کی سب مشکل کنڈیشن ہے یہ اگر آٹزم شدید ہو۔
اسکے علاوہ لرننگ ڈس ایبلٹیز،
Expressive language disorder
Receptive language disorder
Sensory processing issues
Obsessive-compulsive disorder
ADHD
Hydrocephalus
Epilepsy
Schizophrenia
Bipolar Disorder
Depression
Anxiety
Disrupted sleep
Gastrointestinal (GI) problems
Feeding issues

یہ بچے عام بچوں سے مختلف انداز میں سیکھتے ہیں۔ انکو سب سے پہلے بنیادی باتوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اپنے ذاتی کام کیسے خود کرنے ہیں۔ ممکنہ توجہ اور بول چال پر ماہرین سالوں سال کام کرتے ہیں۔ تو جا کر کوئی معمولی سا آوٹ پٹ ملتا ہے۔ ان بچوں کی ون ٹو ون ٹیچنگ ہے۔ دو بچے بھی ایک وقت میں ایک جگہ نہیں پڑھ سکتے۔ پنجاب سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ان بچوں کو اس وجہ سے نہیں لیتا۔ کہ وہاں ہر کیٹگری میں بچوں کی ریشو استادوں کی تعداد سے پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔

ہمارے بے شمار سکولوں میں دانشورانہ پسماندگی کے ساتھ بچوں والے پورشن میں ایک ٹیچر کے پاس دس بیس بچوں کے ساتھ ہی ایک کونے میں یہ بچہ بھی چپ چاپ سہما ہوا بیٹھا رہتا ہے۔ دس بیس سال بھی وہاں بیٹھا رہے۔ کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ اسے انفرادی توجہ اور ون ٹو ون ٹیچنگ کی ضرورت ہے۔ جہاں ان بچوں کو پڑھایا جاتا وہاں کوئی ڈسٹریکشن نہیں ہوتی۔ کوئی آواز کسی فرد کا گزر نہیں ہونے دیا جاتا۔ کہ یہ بچے انسٹرکشن پر فوکس کر سکیں۔

ان بچوں کے علاج اور بحالی پر دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی ہزاروں نیم حکیم، عطائی، پیر، ڈاکٹر، ماہر نفسیات، سپیچ تھراپسٹ، سپیشل ایجوکیشنسٹ، آکو پیشنل تھراپسٹ اور کئی بغیر کسی ڈگری کے ہی صرف ماہرین کے ساتھ کام کرکے سیکھے ہوئے افراد، والدین و بچے کا وقت برباد کرنے کے ساتھ انکا پیسہ بھی برباد کر رہے ہیں۔ والدین کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ والدین کو کچھ پتا ہی نہیں۔ نیٹ سے معلومات لے کر کوئی نتیجہ نکالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس فیلڈ کے ماہرین ہی کوئی حتمی رائے قائم کر سکتے ہیں۔۔ایک عام آدمی سب کچھ نیٹ سے نہیں سیکھ سکتا۔ ناں ہی سب کچھ جان سکتا ہے۔ جان بھی لے تو بہت زیادہ وقت لے گا۔

اس سارے سین کے بعد خوشی کی بات کیا ہے؟
ان بچوں میں اگر کچھ خرابیاں ہیں تو خدا کی ذات نے کچھ خوبیاں بھی رکھیں ہونگی؟ عقل مانتی ہے ناں اس بات کو؟ مثبت ایریاز کو تلاش کرکے ان پر کام کرکے ان بچوں سے غیر معمولی کام لیے جا سکتے ہیں۔
تو یہ لیں ان بچوں کے کچھ مثبت ایریاز:
مثبت سوچ
انتہائی پاورفل و شاندار یاداشت
حد سے زیادہ مخلص
فوکس کرنے کی اعلی ترین خوبی
باریک بینی سے مشاہدہ کرنے کی صلاحیت
لوگوں کو گلے لگانا چومنا پیار کرنا
پڑھنا بہت چھوٹی عمر میں شروع کر دینا Hyperlexia
تصویری اشیا سے سیکھنے کی صلاحیت
لاجیکل تھنکنگ
سائنس ریاضی طب انجینرنگ کے مضامین بلا کی ذہانت و فطانت
ٹیکنکل اور لاجیکل مضامین میں مہارت
تخلیقی صلاحیتوں کے سمندر ان بچوں میں قید ہوتے
انتہائی ذمہ دار ہوتے یہ بچے

ایسا تب ہو سکتا ہے۔ اگر ان بچوں کے علاج کو چھوڑ پر انکی تعلیم و تربیت پر فوکس کیا جائے۔ گو قابل ماہرین بہت کم ہیں مگر موجود ہیں۔ آپکو ان بچوں کے لیے کچھ پیسے زیادہ کمانے ہونگے۔ ایک ماہر ٹیچر آپ ہائیر کریں گے جو آکے گھر پڑھائے گا۔ وہ ایک ماہ روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ ٹائم دینے کا بیس ہزار سے کم کسی صورت نہیں لے گا۔ اور یہ سلسلہ چار پانچ سال سے لیکر دس سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں دو سے تین لوگ بشمول ماہر نفسیات و آکو پیشنل تھراپسٹ بھی ضرورت کے تحت سیشن لیتے ہیں۔

پاکستان کی ہر ڈویژن اور پنجاب کے ہر ضلع تحصیل ٹاؤن سپیشل ایجوکیشن سنٹر سے کسی ٹیچر کا پتا کر لیں جو سکول کے بعد ٹائم دے سکے۔ آپ بچے کی ماں ہیں یا والد خود بھی ساتھ ٹریننگ لیں۔ دنیا بھر میں کامیاب آٹسٹک بچوں کے ٹیچر اکثریت میں انکے والدین ہی تھے۔ یہ بچے ٹیچر کو منہ پر تھپڑ مارتے ہیں۔ تھوک دیتے ہیں۔ چکیاں کاٹتے ہیں۔ اوپر پانی گرا دیتے دھکا وغیرہ دے دیتے ہیں۔ ٹیچر یہ سب کیوں برداشت کرتا ہے؟ کہ اسے اسکا معاوضہ ملے گا۔ پانچ دس ہزار میں کوئی قابل ٹیچر یہ سب سہنے کے لیے نہیں ملے گا۔ آپکو تو پیسوں سے غرض نہیں؟ آپ ٹیچر سے کہیے آپکو بھی ٹرین کرے۔ اگر نہیں کر سکتے تو پیسے زیادہ کمائیے اور بچے کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کیجیے۔ ورنہ بچہ گلیوں میں لوگوں کے ٹھٹھہ مذاق کا سورس ہوگا۔۔یا گھر کے کسی کونے میں پڑا زندگی کے دن پورے کرتا رہے گا۔ یا آپکی ساری زندگی اسکی اور آپکی ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے مشکل میں گزرے گی۔

یہ بچے ارلی انٹروینشن کے بعد تعلیمی نظام کا حصہ بن کر پی ایچ ڈی تک کر سکتے ہیں۔ کئی آٹسٹک پی ایچ ڈی ہیں۔ انکے لیے بہترین ملازمت کے چند پیشے یہ ہیں۔ جن میں یہ اپنی سپر پاورز دکھا سکتے ہیں۔ اور یقیناً آپکی سہی ہوئی تکلیفیں اور خرچا ہوا سرمایہ سب کچھ یہ واپس لوٹا دیں گے۔ اگر آپ نے انہیں کسی قابل بنا دیا۔
انیمل سائنسز جیسے زووالوجی یا جانوروں کو کسی کام کے لیے ٹرین کرنا (دنیا بھر میں ہر نسل کتوں کو سدھارنے اور مختلف کام سکھانے والے ماہرین آٹسٹک لوگ ہیں)
ریسرچر کوئی بھی ان جیسا نہیں بن سکتا
آرٹ اینڈ ڈیزائن (گرافک ڈیزائننگ)

پینٹنگ (کہا جاتا ہے صادقین، اسمائیل گل جی اور جمیل نقش صاحب ملک کے تینوں عالمی شہرت یافتہ پینٹر بھی آٹسٹک تھے) ان لوگوں کی پینٹنگز آج کروڑوں میں بکتی ہیں۔ جمیل نقش صاحب کی بیٹی بتا رہی تھی کہ اسکے ابو اپنی ساری زندگی میں بس چند ایک دفعہ ہی گھر سے باہر نکلے۔ ایک بار جب انکی شادی ہوئی پھر جب انکی مسز فوت ہوئی جنازہ کے لیے۔ تیسری دفعہ جب پاسپورٹ بنوانا تھا اور چوتھی دفعہ جب انہوں نے لندن جانا تھا۔ سنہ 2019 میں جمیل نقش صاحب لندن میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آج انکے کام کو دنیا جانتی ہے۔ وہ کسی سے بھی نہیں ملتے تھے بس اپنے کام میں کھوئے رہتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مینو فیکچرنگ (کسی بھی چیز کی)
انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے سافٹ ویئر اور موبائل ایپس بنایا۔ سافٹ ویئر کی خرابی چیک کرنا (امریکہ میں ایک آئی ٹی کمپنی ہے جو فرمز کے بڑے بڑے خراب سافٹ ویئر ٹھیک کرتی ہے۔ ان کے سارے ملازمین اسپرجر سنڈروم کے ساتھ ہیں۔ یہ آٹزم کی ہی مائلڈ شکل ہے)
کسی بھی قسم کی انجینئرنگ ملازمت
یہ بچے سائنسدان بن سکتے ہیں (کیونکہ سائنسدان بھی کسی سے بات نہیں کرتے بس اپنے تجربات میں کھوئے رہتے ہیں۔ تین بڑے سائنسدان آئزک نیوٹن، البرٹ آئنسٹائن اور ہینری کیویندش (ہائیڈروجن کا موجود) بھی آٹسٹک تھے۔
جرنلزم میں یہ لوگ کمال کے کالم نگار ہوتے ہیں کہ لکھنا ریسرچ کرکے ہوتا ہے۔۔ریسرچ کرنا ان پر ختم ہے
کسی بھی مشین کے مکینک یہ بہترین ہو سکتے ہیں۔ جان ڈئیر مشینیں بنانے والی مشہور زمانہ امریکن کمپنی میں ٹاپ مکینک آٹسٹک لوگ ہیں۔
دنیا کے ٹاپ وکلاء کے پیرالیگل سٹاف میں آٹسٹک لوگ ہو سکتے جو کسی کیس کی اسٹڈی میں رسرچ کرتے ہیں۔
سپیس سائنسز کاسمالوجی میں ان سے بہتر کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ ناسا میں کئی آٹسٹک لوگ ہیں۔
ان تمام شعبوں کے بائی ڈیفالٹ و بائی برتھ بادشاہ آٹسٹک لوگ ہیں۔ یہ سب شعبے انتہائی ذہانت اور لاجیکل تھنکنگ مانگتے ہیں۔ حد سے زیادہ فوکس اور لگن مانگتے ہیں۔ اینٹی سوشل لوگ ہی ہمیشہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ اور انکی تو گھٹی میں پڑی ہوئی یہ خوبی کہ کسی سے بات ہی نہیں کرنی جاؤ جو ہوتا ہے کر لو۔ بس اپنی دنیا میں ہی مگن رہنا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈس ایںبلٹی کے میڈیکل ماڈل کی بجائے سوشل ماڈل کو اپناتے ہوئے ان بچوں کو قبول کیا جائے۔ اور انکی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کیا جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply