گریٹ پیپل ٹو فلائے ود۔۔۔۔ثنا اللہ خان احسن

 اس مضمون کے ساتھ منسلک پہلی تصویر میں امریکہ کی سابقہ خاتون اول جیکولین کینیڈی پی آئی  اے کے پائلٹ جناب ایم ایم صالح جی کو والہانہ گلے لگا رہی ہیں۔ وہ ایسا کرنے پر اس وقت مجبور ہوئیں جب انہوں نے 1962 میں لندن تک پی آئی  اے کے جہاز پر سفر کیا اور پی آئی  اے کے دوران پرواز پیش کیے  گئے کھانوں، فضائی  میزبانوں کی مہارت ،اخلاق اور چابکدستی و دیگر فضائی  عملے کے بہترین پروفیشنلزم سے متاثر ہو کر فلائٹ سے اترتے ہی پائلٹ کو گلے سے لگایا اور ساتھ ہی پی آئی  اے کا مشہور و مقبول عام سلوگن ” گریٹ پیپل ٹو فلائے ود” Great People To Fly With کو دہرا کر اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس سلوگن کے خالق جناب عمر قریشی مرحوم تھے جو کسی زمانے میں کرکٹ کمنٹیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ پی آئی  اے کو یہ سلوگن عمر قریشی صاحب نے دیا تھا۔ پی آئی  اے کی بنیاد اکتوبر 1946 میں بھارت کے شہر کلکتہ میں اورئینٹ ائر ویز کے نام سے ڈالی گئی ۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد یہ پاکستان منتقل ہوگئی ۔ 1955 میں اس کو نیشنلائز کر کے نیا نام پاکستان انٹرنیشنل ائر کارپوریشن کا  دیا گیا۔ 1955 میں ہی پی آئی  اے نے اپنی انٹرنیشنل سروسز کا آغاز کیا۔ اس کی پہلی انٹرنیشنل پرواز کراچی سے لندن براستہ قاہرہ اور روم تھی۔ پی آئی  اے چین جانے والی دنیا کی پہلی نان کمیونسٹ فلائٹ تھی ورنہ اس سے پہلے چین میں کسی نان کمیونسٹ ملک کی فلائٹس کی اجازت نہ تھی۔ پی آئی اے  کے عروج اور شاندار ماضی کا سہرا ائر کموڈور ملک نور خان کو جاتا ہے جو 1959 سے 1965 تک اس کے مینجنگ ڈائریکٹر رہے تھے۔ ان کے باصلاحیت اور جرات مندانہ فیصلوں نے پی آئی  اے کو ایشیا کی بہترین اور دنیا کی  پانچ بہترین ایئر لائنز کی فہرست میں لا کھڑا کیا تھا۔ ان کی ٹیم میں اپنے وقت کے بہترین ہوابازی کے ماہرین جیسے کہ انور جمال، جمی مرزا،انور حسین، حرمت بیگ، ایم ایم سالم اور کرکٹ کمنٹیٹر عمر قریشی شامل تھے۔

ائیر مارشل نور خان نے پین امریکن ائیر ویز کے تعاون سے پاکستان بھر میں ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل کی چین کی بنیاد رکھی۔ یہ بہترین فائیواسٹار ہوٹلز کراچی،  راولپنڈی، ڈھاکہ، پشاور اور لاہور میں تعمیر کئے گئے۔ ملک نور خان کے بعد ائیر مارشل اصغر خان پی آئی  اے کے صدر بنے اور 1965 سے 1968 تک اس عہدے پر خدمات انجام دیں۔

اصغر خان نے پی آئی  اے کی ائیر ہوسٹسز کے لئے نئے یونیفارم کا ٹاسک عمر قریشی کے سپرد کیا۔ اس مقصد کے لئے عمر قریشی نے فرانس کے مشہور ڈیزائنر پیری کارڈن Pierre Cardin کی خدمات حاصل کیں۔ کارڈن نے فلائٹ اٹینڈنٹس اور ائیر ہوسٹسز کے لئے ایسا انوکھا اور خوبصورت فان کلر کا موسم گرما اور موس گرین کلر کا موسم سرما کا یونیفارم ڈیزائن کیا جس کے ساتھ دوپٹے کے ڈیزائن اور اوڑھنے کے انداز نےپوری دنیا میں فلائٹ اٹینڈنٹس کے یونیفارم میں ایک انقلاب برپا کردیا۔

1969 میں شاکر اللہ درانی کو پی آئی  اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ یہ پیشے کے لحاظ سے بینکر تھے۔ انہوں نے پی آئی  اے فلیٹ میں مزید بوئنگ 707 کا اضافہ کیا۔ تہمینہ درانی ان کی صاحبزادی ہیں۔ جن کی پہلی شادی انیس احمد خان کے ساتھ ہوئی  تھی۔ انیس احمد خان سے تہمینہ کی ایک بیٹی ہے۔ 1976 میں تہمینہ کی انیس خان سے علیحدگی ہوگئی ۔ اس کے بعد تہمینہ نے اس وقت کے گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر سے شادی کی جو پہلے ہی چار شادیاں کرچکے تھے۔ ان سے تہمینہ کے چار بچے ہوئے۔ کھر صاحب کے جاہلانہ اور تحقیر آمیز رویے سے تنگ آ کر شادی کے تیرہ سال بعد تہمینہ کی کھر سے علیحدگی ہوگئی۔ 

1991 میں تہمینہ نے اپنی معراکة الارا کتاب مائے فیوڈل لارڈ My Feudal Lord لکھی جس میں انہوں نے کھر اور کھر جیسے دوسرے جاگیرداروں کی پست ذہنیت کو بے نقاب کیا ہے۔ جو اسلام کے مسخ شدہ اور خود ساختہ قوانین کے سہارے اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی خواتین پر منہ بند رکھنے کے لئے انتہائی  ظلم و ستم روا رکھے جاتے ہیں۔ اس کتاب نے پوری دنیا میں بھرپور مقبولیت حاصل کی اور غلام مصطفی کھر کافی عرصہ تک کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ 2003 میں تہمینہ نے تیسری شادی شہباز شریف سے کی اور اب رائیونڈ پیلس میں رہتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بات ہو رہی تھی شاکر اللہ درانی کی جو 1969 میں پی آئی  اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر بنے۔ شاکراللہ نے ہیومن ریسورسز پر بہت زیادہ کام کیا۔ مارکیٹنگ کے لئے دنیا کی  بہترین ائر لائنز کے ایل ایم KLM اور لفتھانسا LUFTHANSA سے انتہائی  تجربہ کار مارکیٹنگ افراد کو پی آئی  اے میں لائے۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک دنیا میں پی آئی  اے کا ڈنکا بجتا رہا۔ اس کے زوال کی داستان پھر کبھی سہی! یہ وہ عظیم اور مخلص لوگ تھے جنہوں نے اپنی لگن، محبت اور محنت سے ایک نوزائیدہ غریب ملک کی ائر لائن کو چند ہی برسوں میں نہ صرف ترقی یافتہ دنیا کے شانہ بشانہ بلکہ ایک رول ماڈل بنادیا۔ ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply