خاتون جنت بطور نمونہ عمل۔۔۔نذر حافی/حصہ اول

خلاصہ:
کمال کا حصول ہر انسان کا فطری حق ہے،جب انسان فطرت کے تقاضوں کے مطابق کمال کے حصول کی جستجو کرتا ہے تو پورا نظامِ فطرت یعنی نظام کائنات اس کی مدد کرتا ہے۔ اس دنیا میں ہر مادی انسان  کے لئے ضروری ہے کہ کو ئی الٰہی ہادی  اس کو کمال کی طرف لے جائے۔ انسان کسی پتھر کی طرح نہیں ہے کہ کوئی دوسرا اسے اٹھا کر بلندی، معراج یا کمال کے مقام پر رکھ دے،  بلکہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ اپنے نمونہ عمل یعنی اپنے ہادی کو پہچانے، اس کی معرفت کے ساتھ اس کی اتباع کرے اور جب انسان صحیح اور کامل ہادی کی اتباع کرتا جائے گا تو وہ خود بخود کمال کی منازل کو طے کرتا جائے  گا۔ خداوند عالم نے جن شخصیات کو بنی نوع انسان کے لئے نمونہ عمل اور رول ماڈل بنا کر خلق کیا ہے، ان میں سے ایک ہستی حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کی بھی ہے۔ آج کے اس پر آشوب دور میں ضروری ہے کہ اس شخصیت کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی جائے، تاکہ اولادِ آدم آپ کی سیرت کو بطریقِ احسن سمجھ کر اس پر عمل کر کے مادی و معنوی کمالات کو حاصل کرسکے۔ بصورت دیگر کوئی شخصیت کتنی ہی جامع کیوں نہ ہو اگر اس کی سیرت پر عمل نہ کیا جائے تو معاشرے کو اس سے  جو فائدہ پہنچنا چاہیئے وہ نہیں پہنچ پاتا۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو انسانیت کی بلندیوں اور ملکوت کے اعلٰی درجات پر دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ آج بھی ممکن ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم  خود بھی حضرت فاطمۃ لزہرا ؑ کی عملی شخصیت اور حقیقی فضائل  سے آگاہ ہوں اور اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اس معظمہ بی بی ؑ کی سیرت و کردار سے متعارف کروائیں۔

مقدمہ
انسان فطری طور پر کمال کو پسند کرتا ہے، صرف پسند ہی نہیں کرتا بلکہ کمالات کو اپنانا چاہتا ہے، کسی بھی کمال کو اپنانے کے لئے اس کمال کی مطلوبہ تمارین اور مشقیں کرنی پڑتی ہیں۔ یعنی کسی بھی قسم کے کمال کے حصول کے لئے تین چیزیں بنیادی طور پر ضروری ہیں:
۱۔ انسان میں کمال کے حصول کا شوق ہو۔
۲۔ انسان میں اس کمال کے حصول کی صلاحیت ہو۔
۳۔ انسان اس کمال کے حصول کے لئے محنت کرے۔
انسان میں کسی کمال کے حصول کا صرف شوق ہو اور صلاحیت نہ ہو اور یا پھر اس کے حصول کے لئے  ضروری و مطلوبہ محنت و مشق نہ کرے تو وہ اس کمال کو حاصل نہیں کر سکتا۔ کمالات کے حصول کے لئے انسان کو ہمیشہ ایک اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل کی ضرورت رہتی ہے۔ انسان ایک ایسا وجود ہے جو قدم قدم پر ہدایت اور رہنمائی کا محتاج ہے۔ چنانچہ ہر الٰہی انسان اپنی زندگی میں ہر روز کم از کم  پانچ مرتبہ خداوند عالم سے یہ دعا کرتا ہے کہ “اھدنا الصراط المستقیم“۔ (پرودردگار تو مجھے سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا رہ)۔(1)

یہ دعا ہر صحیح و سالم انسان کی تمنّا اور آرزو ہے، اس کے بعد عمل کی باری آتی ہے، عمل کے لئے ضروری ہے کہ انسان مقام کمال کو پانے کے لئے ٹھیک طرح سے اعمال انجام دے اور یہی خداوند عالم بھی انسان سے چاہتا ہے، چنانچہ ارشاد پروردگار ہوتا ہے، “الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَياةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا”۔(2) “جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو، تاکہ آزمائے تم کو کونسا تم میں سے اچھا ہے عمل میں” اب عمل کی اچھائی کے لئے انسان کو ایک میزان اور کسوٹی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی کسوٹی جس پر انسان اپنے اعمال کی اچھائی و برائی کو جانچ سکے، چنانچہ خدا نے یہ کہہ کر اس کسوٹی اور میزان کا بھی اعلان کر دیا: “لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ” “تمہارے لئے رسول کی زندگی نمونہ عمل ہے۔”(3) یعنی صرف رسول ﷺ کی زبان سے کہی ہوئی حدیث ہی نمونہ عمل نہیں بلکہ رسولﷺ کی عملی زندگی بھی رول ماڈل ہے۔ پس ہر کمال کے متلاشی اور سالک الی اللہ کو چاہیئے کہ وہ اپنے اعمال کو رسول کے اعمال کی میزان پر پرکھے۔ اب رسول کے اسوہ حسنہ پر عمل کے لئے رسولﷺ کی صحیح شناخت ضروری ہے، چنانچہ قرآن مجید نے رسول ﷺ کا مختصر اور جامع تعارف کروانے کے لئے کچھ یوں ارشاد فرمایا ہے: “وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ”۔ “محمد فقط رسول ہیں۔”(4)

اب نبی اکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقط رسول ہونے کے ناطے سب سے پہلے ایسے گھرانے کو تشکیل دیا جس سے دنیا کی ہر نجاست دور رہی(5) اور یہ گھرانہ بھی پورے عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل قرار پایا۔ رسول ﷺ کے گھرانے کا کوئی بھی فرد محض  اس لئے نمونہ عمل نہیں ہے کہ  وہ رسول کا قریبی رشتے دار ہے بلکہ وہ اس لئے نمونہ عمل ہے کہ اس کے اپنے اعمال رسول ﷺ کے اعمال کے مطابق ہر رجس اور نجاست سے دور ہیں۔ سورہ احزاب کی تینتیسویں آیت: “إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا” کا ترجمہ مولانا شبر احمد عثمانی نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ “بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔” اور وہی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: “اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ نبی کے گھر والوں کو ان احکام پر عمل کرا کر خوب پاک و صاف کر دے اور ان کے رتبہ کے موافق ایسی قلبی صفائی اور اخلاقی ستھرائی عطا فرمائے جو دوسروں سے ممتاز و فائق ہو۔” (جس کی طرف (یُطَھِّرَکُمْ) کے بعد (تَطْھِیْرًا) بڑھا کر اشارہ فرمایا ہے) یہ تطہیر و اذہاب رجس اس قسم کی نہیں جو آیت وضوء میں “وَّ لٰکِنۡ یُّرِیۡدُ لِیُطَہِّرَکُمۡ وَ لِیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ”(مائدہ۔۶) سے یا “بدر” کے قصہ میں “لِیُطَھِّرَکُمْ وَیُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَا لشَّیْطَانِ”(انفال رکوع۲) سے مراد ہے، بلکہ یہاں تطہیر سے مراد تہذیب نفس، تصفیہ قلب اور تزکیہ باطن کا وہ اعلٰی مرتبہ ہے جو اکمل اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے۔(6)

ظاہر ہے جب  کوئی ہستی اہل بیت رسولﷺ میں سے طہارت کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ قرآن اس کی طہارت کی گواہی دے تو ایسی ہستی رسولِ اعظم کے اسوہِ حسنہ پر عمل کرنے کی وجہ سے محبوبِ خدا کہلائے گی۔ ارشاد پروردگار ہے کہ “قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّـٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّـٰهُ”، “حبیب کہہ دیجئے اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، تاکہ تم سے اللہ محبت کرے۔” پس اہلِ بیت وہ ہستیاں ہیں جو ظاہری و باطنی طہارت اور محبوبِ خدا ہونے کی وجہ سے  رسولِ خداﷺ کے بعد ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں۔ اُن ہستیوں میں سے ہر ہستی اپنے فضائل و اعمال کے اعتبار سے خصوصی عروج کی حامل ہے۔ اس وقت ان ہستیوں میں سے ہم فقط حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا کی ذات گرامی کے اسوہِ حسنہ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں گے۔ قارئین کو یاد رہے کہ ہمارا مقصد سیّدہ دو عالمﷺ کے فضائل و مناقب پر روشنی ڈالنے کے بجائے اُن کے اسوہ حسنہ کو اجاگر کرنا ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا کی شخصیت پر بطور نمونہ عمل نگاہ ڈالنے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ خود رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے، سب سے پہلے جنت میں حضرت فاطمہؑ داخل ہونگی۔(7) ظاہر ہے کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں جنت میں داخلے کی تمنّا، آرزو اور خواہش ہے وہ اس عظیم بی بی کے نقش قدم پر چلنے کی ہر ممکن سعی و کوشش کرے گا۔ ہم اس معظمہ خاتونؑ کی زندگی کا بطور اسوہِ حسنہ مطالعہ کرنے کے لئے ان کی زندگی کے ادوار کو چند مرحلوں میں تقسیم کر لیتے ہیں: الف: بحیثیت بیٹی ب: بحیثیت بیوی ج: بحیثیت ماںد: بحیثیت عابدہ و زاہدہ ر: بحیثیت مدافع اسلام  س:بحیثیت جامعِ اوصاف۔

خاتونِ جنت، بحیثیت بیٹی:
سب سے پہلے ہم رسولﷺ کی دخترِ گرامی ؑ کی شخصیت کا بطور بیٹی جائزہ لیتے ہیں۔ آپ کی تاریخ ولادت میں اگرچہ اختلاف پایا جاتا ہے تاہم اکثر مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ بعثت کے پانچویں سال بیس جمادی  الثانی کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بطن اطہر سے اس دنیا میں تشریف لائیں۔ یوں کائنات کے سب سے عظیم انسان کے گھر میں کائنات کی سب سے عظیم خاتون کی ولادت ہوئی، یہ ولادت پھولوں کے حصار میں نہیں بلکہ کانٹوں کے محاصرے میں ہوئی، کفّار مکہ پیغمرِ خدا کو ابتر یعنی بے نام و نشان اور بے نسل ہونے کے طعنے دیا کرتے تھے کہ ایسے میں خدا نے اس بیٹی کو عطا کر کے ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا:
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
اِنَّـآ اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ(1)
بے شک ہم نے آپ کو کوثر دی۔
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ(2)
پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَـرُ(3)
بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔
اس سورہ میں خداوند عالم نے اپنے حبیبﷺ کو تسلی دی ہے کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے اور آپ کا دشمن ابتر ہے۔ لفظ کوثر کی مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں، یہاں تک کہ فخر رازی نے اس بارے میں پندرہ اقوال نقل کئے ہیں۔ تفسیر المیزان سمیت متعدد علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ کوثر یعنی خیر کثیر کے متعدد مصادیق میں سے ایک روشن ترین مصداق حضرت فاطمہؑ کا وجود مبارک ہے۔ اس سورہ کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بی بی، رسولِ دو عالم کے لئے ؑ اپنی ولادت سے ہی خیر کثیر ہے۔ یعنی یہ فقط ایک بیٹی نہیں ہے بلکہ یہ بیٹی کے قالب میں  اللہ کی طرف سے رسولﷺ کو  خیر کثیر عطا کیا گیا ہے اور اس خیر کثیر کے ذریعے رسولﷺ کو طعنے دینے والوں کا منہ بند کیا گیا ہے۔

جب اس بی بی کی عمرِ مبارک فقط دو سال ہوئی تو شعبِ ابی طالب میں مسلمانوں  کا محاصرہ کیا گیا۔ نبیﷺ کی یہ اکلوتی بیٹی ان بھوک، افلاس اور مشکلات کے دنوں میں، دو سال کی عمر میں  شعبِ ابیطالب میں دیگر مسلمانوں کے ہمراہ  محصور رہی۔ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں تین سال تک آپ نے شعب ابیطالب کی قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔(8) شعبِ ابیطالب کا محاصرہ دراصل مسلمانوں کی تربیت کے لئے ایک بنیادی مرحلہ تھا، جس طرح ایک بیج کو زمین کے اندر دفنایا جاتا ہے اور وہ زمین کے نیچے سخت دباو کو برداشت کرنے کے بعد زمین کی سخت جلد کو ننھی سی کونپل سے چیر کر باہر نکل آتا ہے اور تند و طوفان ہواوں اور شدید موسم کے مقابلے میں کھڑا ہوجاتا ہے، اسی طرح شعب ابیطالب کے دوران مسلمانوں کی روحانی و جسمانی تربیت کی گئی تاکہ وہ بدترین مشکلات اور خوفناک حالات کا مقابلہ کر سکیں، اس تربیتی مرحلے میں حضرت خاتون جنتؑ بھی ان مسلمانوں کے درمیان موجود تھیں۔ اس سخت اور کٹھن دور میں بی بیؑ کے خیر کثیر وجود کو دیکھ کر پیغمبر اسلام ﷺ کو کتنا حوصلہ ملتا ہوگا اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔

بعثت کے دسویں سال جب رسولِ گرامیﷺ کی دختر نیک اخترؑ کی عمر فقط پانچ یا چھ سال تھی، تو  پیغمرِ اسلام پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے، اس سال حضرت ابو طالبؑ اور حضرت خدیجہ ؑ کا انتقال ہو گیا۔ ان دو بزرگوار شخصیتوں کے انتقال سے گویا پیغمبرِ اسلام کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور پیغمبرؐ نے اس سال کا نام عامُ الحزن یعنی غم کا سال رکھا۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی زندگی میں آنے والے اس خلا کو سیّدہ زہراؑ نے کم سنی کے باوجود اس محبت اور خدمت سے پُر کیا کہ آپ اُمّ ابیھا کی کنیت  سے مشہور ہوئیں۔ اُمُّ ابیھا یعنی اپنے باپ کی ماں۔ یہ اس منفرد بی بی کا منفرد مقام  ہے جو کائنات کی کسی اور خاتون کے حصّے میں نہیں آیا۔ یعنی آپ اس مشکل ترین دور میں فقط نبی اکرمﷺ کی ایک بیٹی نہیں تھیں بلکہ بیٹی ہونے اور نمونہ عمل ہونے کے اعتبار سے اُمِّ ابیھا تھیں۔(9) آپ کمال معنویت و بشریت کے اس درجے پر فائز تھیں کہ  پیغمبرِ اسلام ﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا: “أن اللّہ لیغضب لغضب فاطمۃ، و یرضی لرضاھا” “بے شک اللہ فاطمہؑ کے غضب کی وجہ سے غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی رضا سے راضی ہوتا ہے۔”(10) کتنا باعظمت ہوگا وہ باپ، جس کی بیٹی کی عظمت یہ ہے کہ اس کی ناراضی سے اللہ ناراض اور اس کی خوشی سے اللہ خوش ہوتا ہے، بلکہ رسولِ خدا ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: “فاطمۃ بضعۃ منی؛ من آذاھا فقد آذانی، و من أحبھا فقد أحبنی” “فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جس نے اس سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی ہے۔”(11)

Advertisements
julia rana solicitors

یہ فقط  کسی عام باپ اور بیٹی کی محبت نہیں ہے بلکہ یہ رسولِ دوعالم ﷺ کی محبت ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ  یہ شخصیت بیٹی ہونے کے اعتبار سے بھی بے مثل اور نمونہ عمل ہے۔ انسان ہر کسی سے اپنے ظرف کے مطابق محبت کرتا ہے ، پیغمبر اسلام کی حضرت فاطمہ الزہرا ؑسے محبت عام انسانوں یا عام باپ بیٹی سے قطعاً مختلف ہے، چونکہ خود پیغمبرِ اسلام بھی ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور ان کی بیٹی بھی ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں۔ دنیا جہاں میں جتنی بھی بیٹیاں ہیں اگر وہ سعادت مند بننا چاہتی ہیں تو رسولِ اسلام کی بیٹی کے اسوہ حسنہ کا مطالعہ کریں اور ان کی سیرت پر عمل کریں۔ خود پیغمبرِ اسلام نے ارشاد فرمایا ہے  کہ فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔(12)یہاں پر یہ بات ذہن میں رہے کہ خود پیغمبرِ اسلام عالمین کے لئے نبی اور رحمت ہیں۔(13) اور آپ نے عالمین کی عورتوں کی سردار اس بی بی ؑ کو قرار دیا ہے۔ پس سردار وہ ہوتا ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے اور جس کے نقشِ قدم پر عمل کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی آدمی اپنے سردار کے دائرہ اطاعت سے نکل جائے تو اس کی سرزنش کی جاتی ہے اور اسے سزا دی جاتی ہے۔ بلاشبہ اسلامی معاشرے میں مسلمان خواتین کے پاس حضرت فاطمۃ الزہراؑ  کی اطاعت کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نجات ہی نہیں ہے۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع و ماخذ:
(1) الفاتحہ ۵
(2) سورہ ملک آیہ ۲
(3) احزاب ۲۱
(4) آل عمران ۱۴۴
(5) إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا، احزاب ۳۳
(6) تفسیر عثمانی در زیل آیہ تطہیر
(7) قال رسول الله صلی الله علیه [و آله] وسلم: أول شخص یدخل الجنة فاطمة ، میزان الاعتدال، الذهبی، ج ٢، ص ٦١٨ ؛ لسان المیزان، ابن حجر، ج ٤، ص ١
(8)سیره ابن هشام، ج 1، ص 375، ابن سعد، طبقات، ج 1، ص 208 و طبرسی، اعلام الوری، ص 50 ـ 49، بیهقی، دلایل النبوة، ج 2، ص 311 و 312
(9) اسد الغابه، جلد 5، صفحه 520
(10) کنز العمال :ج ۱۲، ص ۱۱۱، مستدرک صحیحین :ج ۳، ص ۱۵۴ ، میزان الاعتدال :ج ۱،ص۵۳۵۔
[11] صواعق المحرقۃ : ۲۸۹، الامامۃ والسیاسۃ :ص ۳۱ ،کنز العمال : ج۱۲ ، ص۱۱۱، خصائص النسائی: ۳۵ ، صحیح مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ۔
(12)المستدرک صحیحین : ج۳ ،ص۱۷۰، وابو نعیم فی حلیۃ الاولیاء : ج۲،ص ۳۹،والطحاوی فی مشکل الآثار : ج ۱ ،ص ۴۸ ،وشرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید : ج۹ ،ص ۱۹۳ ، والعوالم :ج۱۱ ،ص ۱۴۱۔ ۱۴۶۔
(13) وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ، انبیا ۱۰۷

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خاتون جنت بطور نمونہ عمل۔۔۔نذر حافی/حصہ اول

Leave a Reply