برطانوی پارلیمانی نظام اور حکومت۔۔۔واجد منہاس

پاکستان نے پارلیمانی جمہوریت کا ماڈل برطانیہ سے لیا۔ اگر ہم برطانیہ کی جمہوری تاریخ کے اوپر ایک سرسری نظر دوڑائیں تو شاید ہمیں کسی حد تک اس پارلیمانی جمہوری نظام کی مسافت اور خدوخال کا پتہ چل سکے اور ہم یہ سمجھ سکیں کہ کیسے یہ نظام کئی صدیوں پر محیط ایک ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے سوسائٹی سے وسیع تر مفادات میں کام کرنا شروع کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی چیز جو انسانوں یا پھر مجموعی انسانی معاشرے کی تشکیل کردہ ہو وہ غلطیوں سے پاک نہیں ہو سکتی۔

لہٰذا اس نظام کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں پہلے سے اور وسیع القلبی کے ساتھ اس کی ممکنہ خامیوں کو ذہن میں رکھنا ہو گا اور قبول کرنا ہو گا ورنہ شاید ہم یہ تجزیہ کرتے ہوئے ناانصافی اور تعصب کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے۔ ظاہر ہے کوئی بھی اصلاح پسند معاشرہ اپنی غلطیوں سے ہی سیکھے گا اور آگے بڑھے گا۔ برطانیہ کی موجودہ پارلیمنٹ ملک میں قانون سازی کا سب سے بڑا اور معتبر ادارہ ہے۔ یہ ادارہ دو ایوانوں یعنی ہاؤس آف لارڈز اور ہاؤس آف کامنزپر مشتمل ہے جن کے موجودہ ممبران کی تعداد 1450ہے۔

آج کے ترقی یافتہ برطانیہ کے اس معزز ادارے کی دلچسپ تاریخ تقریباً چودہ سو سال  پرانی ہے۔ جس کا آغاز آٹھویں صدی میں اس وقت ہوتا ہے جب ANGLO- SAXON حکومت کا قیام وٹن (WiTON) کونسل کی صورت میں عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس کونسل کی حیثیت بادشاہ کے من پسند لوگوں کی ایک بیٹھک سے زیادہ کچھ نہ تھی جس میں اکثریت جاگیرداروں، وڈیروں اور امیر لوگوں کی تھی۔ اس وقت کی اشرافیہ کے یہی لوگوں پھر بادشاہ کے مشیروں کی حیثیت سے حکومت چلانے بارے مشورے بھی دیتے تھے۔ اسی طرح کے نام نہاد حکومتی ماڈلز کا سلسلہ تقریباً تیرہویں صدی کے آغاز تک جاری رہا جب تک کہ سال 1215ء میں MEGNA CARTA چارٹر کا وجود عمل میں نہیں آیا۔ اس تاریخی چارٹر نے نہ صرف بادشاہ کو کسی حد تک جوابدہ بنایا بلکہ برطانوی پارلیمانی تاریخ کو بھی آگے بڑھایا۔ 1265ء میں DE MONTFORT پارلیمنٹ کا قیام برطانوی پارلیمانی تاریخ میں ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوا جس نے کسی حد تک حکومتی معاملات میں عام یعنی مڈل کلاس لوگوں کی SAY کو شامل کیا۔ انگلینڈ کے بادشاہ RiCHARD II کے دور میں پارلیمنٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جو آج تک برقرار ہے۔

بہرحال ان دونوں ایوانوں کی صورت حال اس وقت بہت مختلف تھی۔ پندرھویں صدی میں بادشاہ HENRY IV کے د ور میں پارلیمنٹ کے اختیارات کچھ مزید وسیع ہوئے۔ سال 1430ء میں کچھ ایسے لوگوں کو ووٹ کا حق دیا گیا جو ایک خاص حد تک سالانہ آمدن رکھتے تھے۔  یہ کسی حد تک عام بندے کا پارلیمانی نظام کا حصہ بننے کا بطور ووٹر ابتدائی دور تھا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 3 فیصد لوگ ہی اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکتے تھے کیونکہ ظاہرہے کہ ووٹ ڈالنے کا حق آپ کی سالانہ آمدن سے مشروط تھا اور ہر کوئی اس شرط پر پورا نہیں اترتا تھا۔ لہٰذا یہ اقدام ایک طرح سے اقتدار میں معاشرے کے کچھ مزید چیدہ چیدہ لوگوں یا طبقات کو شامل کرنے کی ایک سعی ہی تھی اور عام بندہ ابھی بھی حکومتی امور اور پارلیمان سے بہت دور تھا۔ لیکن پارلیمنٹ کو طاقتور ادارہ بنانے کا سفر کسی نہ کسی صورت بہرحال جاری و ساری تھا۔ اسی دوران بادشاہ HENRY IV کے بیٹے اور اس وقت کے بادشاہ HENRY V نے پارلیمنٹ کو قانون سازی بارے ایک فریق تسلیم کر لیا تھا اور اعلان کیا کہ آئندہ کوئی بھی نیا قانون پارلیمنٹ کی مشاورت اور منظوری سے ہی قابل عمل ہو گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 1523ء تک انگلینڈ میں آزادی اظہار رائے کا کوئی تصور نہیں تھا اور معاشرہ ایک زبردست گھٹن کا شکار تھا۔ یہ تو پھر اس وقت کے دانشور اور رکن پارلیمنٹ THOMAS MORE کی کاوش تھی کہ جنہوں نے یہ معاملہ پہلی بار پارلیمنٹ میں اٹھایا۔ بہرحال ان کی بات بھی سنی ان سنی کر دی گئی اور اس جانب کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی حتیٰ کہ بعد میں ملکہ ELiZABETH I کے دور میں جب کہا اور ممبر پارلیمنٹ نے اس معاملے کو دوبارہ اٹھانے کی کوشش کی تو انہیں بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ آزادی اظہار رائے کے ساتھ ساتھ اسی زمانے میں فرقہ پرستی میں گھرے برطانیہ میں مذہبی آزادی کیلئے بھی آوازیں اٹھائی جانے لگیں۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اس طرح کے بنیادی انسانی حقوق کی بات پارلیمانی سفر کے کئی سو سال گزر جانے کے بعد بھی ایک عجوبہ سے کم نہ تھی۔  کسی حد تک عام لوگوں کے حقوق کی باتیں ایوان میں گونجنا شروع ہو گئی تھیں لیکن ابھی ایک لمبا اور طویل سفر اس بابت باقی تھا۔ اب سترھویں صدی کی طرف آتے ہیں جو برطانیہ میں رونماہونے والے بے شمار غیر معمولی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس میں بادشاہت اور پارلیمنٹ کے درمیان اختلافات ہونا، سول وار، مذہبی پرستی کا معاشرے کی بنیادوں کو ہلا دینا، بادشاہ کا سر قلم کرنا اور پھر بادشاہت کے خاتمے کا اعلان کیا جانا وغیرہ شامل ہیں۔

اٹھارویں صدی سے اب تک کے دور کو برطانوی پارلیمانی تاریخ کا جدید دور تصور کیا جاتا ہے۔ اٹھارویں صدی کے آغاز سے ہی برطانوی پارلیمنٹ نے نہ صرف اپنے پاؤں پرکھڑا ہونا سیکھا بلکہ آہستہ آہستہ مزید مضبوط ہوتی چلی گئی۔ سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ بھی اسی زمانے میں برطانیہ کا حصہ بنے۔ یوں ریاست ہائے متحدہ برطانیہ کی مشترکہ پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس سال 1801ء میں ہوا۔ پھر سال 1832ء میں ریفارمز ایکٹ متعارف کروایا گیا جس نے بہت سارے محکوم طبقات اور علاقوں کو نمائندگی دی اور ووٹ جیسے بنیادی حق سے روشناس کروایا۔ اس دوران سلطنت برطانیہ کا دنیا بھر میں وسعت اختیار کرنا بھی اہم واقعہ ہے۔ بہرحال پارلیمانی سفر آگے چلتا رہا حتیٰ کہ 1871ء میں ٹریڈ یونین ایکٹ نافذ ہوا یوں برطانیہ میں پہلی بار مزدوروں کو اپنے حقوق کا تحفظ حاصل ہوا۔

1911کا مشہور زمانہ پارلیمنٹ ایکٹ اس حوالے سے اہم تصور کیا جاتا ہے اس نے ہاؤس آف کامنز کو حقیقی معنوں میں بااختیار بنایا۔ 1928ء میں عورتوں کو ووٹ کا حق ملنا، 1949ء میں دوسرا اہم پارلیمنٹ ایکٹ آنا اس سفر کے اگلے مرحلے تھے۔ اس کے بعد پارلیمنٹ ایک باوقار، بااختیار اور بہترین قانون ساز ادارہ بنتا چلا گیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ برطانوی پارلیمانی نظام کا یہ ارتقائی سفر آج بھی کسی نہ کسی صورت جاری و ساری ہے جس کی ایک مثال حال ہی میں ایک پاکستانی نصرت غنی کا پہلی مسلم خاتون وزیر بننا ہے۔ لندن کے دریائے تھیمز کے کنارے ویسٹ منسٹر بریج (WESTMINISTER BRIDGE) سے ملحقہ پارلیمنٹ کی خوبصورت بلڈنگ اپنے ساتھ کئی صدیوں کی تاریخ لئے پوری آب و تاب سے نہ صرف کھڑی ہے بلکہ برطانوی معاشرے کو ترقی کی بلندیوں کی طرف لے جانے میں دن رات سرگرم ہے۔ اور BIG BEN کا گھڑیال اس پارلیمنٹ کو نہ صرف گزرے ہوئے تلخ لمحات یاد کرواتا ہے بلکہ آنے والے وقت کی اہمیت کا احساس بھی دلاتا رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاید یہ ایک ارتقائی عمل کا ہی فیض ہے کہ آج ہر برطانوی شہری بلاتفریق نسل، رنگ اور مذہب تہہ دل سے نہ صرف اس ادارے کا احترام کرتا ہے بلکہ اس پر بے حد فخر بھی کرتا ہے۔ پاکستانیوں نے اگر برطانیہ سے لئے گئے پارلیمانی ماڈل کو برطانیہ ہی کی طرز پر آگے لے کر جانا ہے تو اس کے لئے انہیں نہ صرف تاریخ کو سمجھنا ہو گا بلکہ اس سے سیکھنا بھی ہو گا۔ کہتے ہیں کہ آپ کی آخری غلطی آپ کا بہترین استاد ہوا کرتی ہے۔ اس اصول کے پیش نظر پارلیمنٹ کی غلطیوں پر لعنت بھیجنے سے کہیں بہتر ہے کہ ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جائے۔ اس ادارے کی تہذیم و تکریم کو یقینی بنایا جائے تاکہ آئندہ نسلوں کو ایک ناقابل تسخیر پاکستان کا تحفہ دیا جا سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply