کچھ باتیں پروفیسر پرویز ہود بهائی کی

مختلف احباب کو پروفیسر ہود بهائی کے بارے میں آراء قائم کرتے پایا تو مجهے بهی تجسّس ہوا کہ آخر معاملہ کیا ہے،معلوم پڑا کہ 13 مئی کو پروفیسر صاحب نے مشعال خان قتل کیس کے تناظر میں یہ کہا کہ”لعنت ہو ایسی قوم پر جو اپنے بچوں کو اس طرح لاٹهیوں سے ننگا کر کے مارتی ہے” ان کی اس بات سے مذہبی طبقہ کافی سیخ پا ہوا اور لبرلز خوشی سے جهومنے لگے- مذہبیوں نے ہود بھائی پر لعن طعن کی اور لبرل ان کے دفاع میں تحاریر گهڑ تے رہے- مذہبیوں کا کہنا یہ ہے کہ ایک سائنسدان کو کیا لگے کہ وہ مذہبی معاملات میں ٹانگ اڑائے اور اس پر اپنی رائے قائم کرے جبکہ دوسری طرف لبرل طبقہ یہ ماننے پر مصر ہے کہ کیا ایک سائنس دان ملکی تعلیمی حالات کے پیشِ نظر سوشل ایکٹیوسٹ کے طور پر بات نہیں کر سکتا؟ بالکل کر سکتا ہے- ہر انسان جو بهی اس کرہ ارض کا حصہ ہے اسے دلائل کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرنے کا پورا حق حاصل ہے- لیکن اگر ہم ہود بھائی کو مذہبی علم، اسلامک فلسفے اور مغربی فلسفے کے تناظر میں دیکهیں تو ان کا علم نہایت ضعیف معلوم پڑتا ہے کیونکہ ہود بهائی نیوکلیئر فزکس کے سائنسدان ہیں ، امریکہ کی اعلی یونیورسٹی ایم-آئی-ٹی سے فارغ ا لتحصیل ہیں-کئی ایوارڈ بهی حاصل کر چکے ہیں، ان کے بیسیوں ریسرچ پیپرز شائع ہو چکے ہیں- کئی یونیورسٹیوں میں بطور سائنسی استاد و محقق پڑها چکے ہیں جن میں ملکی ہو غیر ملکی ادارے شامل ہیں- سائنس و مذہب پر بهی کافی بحث و مباحثے کر چکے ہیں گو کہ مذہب کے بارے میں علم خاصا نہیں ہے- وہ کتاب”اسلام اور سائنس، مذہبی تقلیدی پسندی اور عقلیت پسندی کی جنگ” کے مصنف ہیں جس کا پانچ بڑی زبانوں میں ترجمہ بهی ہو چکا ہے-
اس کے علاوہ وہ پاکستان کے سماجی معاملات پر بهی بات کرتے نظر آتے ہیں، میڈیا کے مختلف ٹاک شوز میں بهی نمودار ہو چکے ہیں- ڈان نیوز، ایکسپریس ٹریبیون اور نیو یارک ٹائمز کے لیے بهی لکهتے رہے ہیں- یو ٹیوب پر ان کے بیان اٹها کر دیکهیں تو سائنسی علم کے لحاظ سے وہ خاصے راسخ ہیں لیکن وہ اکثر اوقات یہ بات کرتے نظر آئے ہیں کہ اسلام اور سائنس یا مذہب و سائنس کا باہم کوئی بندهن نہیں- سائنس کی اپنی الگ سمت ہے اور مذہب تقلیدی روایات پر قائم ہے جو کہ مخالف سمت میں جا رہا ہے- شائد دنیا کے اور مذاہب تقلیدی بنیادوں پر قائم ہوں لیکن اسلام اپنے اندر تقلیدی پہلوؤ بهی رکهتا ہے اور عقلیت پسندی کا بهی قائل ہے جس کے پیشِ نظر اسلامی فلسفے کو پذیرائی ملی جس کی بنیاد پر اسلام ایک منطقی مذہب کے طور پر ابهرا- قرآن کے بارے میں ان کے عقائد ہیں کہ قرآن مجید صرف اخلاقی اقدار کی بات کرتا ہے، یہ وراثتی معاملات پر بات کرتا ہے، یہ ہمیں بتاتا ہے کہ عبادات کیسے کی جائیں- جب وہ سیاسی نظام کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بد قسمتی سے اسلام کے پاس ایسا کوئی ریاستی سیاسی نظام نہیں جو جدید دنیا کے سیاسی نظاموں کے شانہ بشانہ چل سکے جبکہ “اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے” کے تناظر میں دیکها تو ڈاکٹر اسرار احمد اسلام کے سیاسی، معاشرتی و معاشی نظام پر سحر انگیز بیانات و تقاریر کرتے ہیں جو کسی زاویے سے بهی مسترد کرنے کے قابل نہیں-
پروفیسر ہود بهائی خود نظریہ سیکولرازم کے معتقد ہیں اور جب ان سے پاکستان کے لیے بہتر ریاستی نظام کا پوچها گیا تو انہوں نے سیکولرازم کو ہی بہتر نظام ریاست قرار دیا- وہ زمیں پر زلزلے آنے، بارشوں کےنہ ہونے اور اسی طرح قدرتی آفات کے رونما ہونے کو ماحولیاتی تغیرات کا باعث سمجهتے ہیں جسے وہ سائنسی نقطہ نگاہ سے ہی دیکهتے ہیں- وہ یہ سمجهتے ہیں کہ زلزلے اللہ کی ناراضگی کے سبب نہیں آتے اور نہ ہی بارشوں کا رک جانا اللہ کی ناراضگی کے باعث ہوتا ہے- حالانکہ ایسی کئی دعائیں اور احادیث مبارکہ موجود ہیں جو بارش کے ہونے یا بارش کے زیادہ برسنے پر اسلامی کتب کا حصہ ہیں- زلزلے آنے پر بهی کئی احادیث مبارکہ ہیں جن میں زلزلے آنے کی وجوہات بتائی گئی ہیں، شائد ہود بهائی نے سائنس کو ہی سب کچھ مان لیا جو بارش کے لئے نماز استسقاء، زلزلوں کے لیے انسانی قبیح افعال کو پس پشت ڈالتے ہوئے قدرتی آفات کو زمینی تہوں میں تبدیلیوں کا باعث ہی ٹهہراتے ہیں- اگر آپ لمز یونیورسٹی میں پروفیسر ہود بهائی اور حمزہ انڈریس ٹزارٹزس کے مابین” اسلام اور عقلیت پسندی”کے موضوع پر ہونے والے مباحثے کا جائزہ لیں تو آپ کو پروفیسر ہود بهائی فزکس یا سائنسی دلائل سے ہٹ کر بات کرتے نظر نہیں آئیں گے- دوسری طرف حمزہ انڈریس کی گفتگو اور ان کے حوالہ جات سن کر لگتا ہے کہ واقعی کوئی علمی لحاظ سے قوی انسان ہے-
ہود بهائی نے نیوکلیئر فزکس کے میدان میں بہتیرے کارنامے سرانجام دیے ہیں جن کا کسی کو انکار نہیں لیکن اسلام کے بارے میں ان کو احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ ان کے پاس اسلام کا علم نا مکمل ہے اور کسی بهی مذہب کے بارے میں کم علم رکھتے ہوئے مباحثہ یا مکالمہ قطعاً نہیں کیا جا سکتا-اسلام اور دیگر مذاہب کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب جیسے بدھ مت، ہندو مذہب، یہودیت اور عیسائیت کی طرح اعتقادات کاایک ایسا مجموعہ ہے جو حقائق کے نئے ترجمے یا انداز سے دوسرے مذاہب پر اپنی برتری جتاتا ہے- اس کے علاوہ وہ انتہا پسندی کو پاکستان میں سائنسی رحجانات کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجهتے ہیں اور مدارس دیوبند کو طالبان کی نرسریاں سمجهتے ہیں- ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ میں اسلام مخالف نہیں لیکن دوسری طرف وہ عبدالستار ایدھی صاحب کو محسن انسانیت ٹهہراتے ہیں – پروفیسر ہود بهائی کی گفتگو ہی ا ن کی سوچ کی عکاس ہے اسی لیے سائنس اور مذہب پر گفتگو کرتے ہوئے وہ ہمیشہ سائنس کو فوقیت دے جاتے ہیں-

Facebook Comments

سعد رزاق
میں ازل سے طالب علم تها اور ابد تک رہوں گا-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply