کمرشل لبرلز اور دیسی بدو۔۔ نور درویش

بھائی میں نے سنی ہوں نہ شیعہ، میں صرف مسلمان ہوں۔”

دیکھو بھائی، یہ مہاجر، وہاجر، پنجابی پٹھان مجھے نہیں معلوم، میں بس پاکستانی ہوں۔ (آپشنل)— یار یہ فرقہ پرستی میں نہیں کرتا، سب کو دیکھا ہوا ہے۔ سب ایویں ہی ہیں۔

“ہم اِسی فرقہ پرستی میں اُلجھے رہینگے اور دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔

اور اِسی سے ملتے جلتے جملے آپ کو اور بھی بہت سننے کو ملتے رہینگے جو نہ صرف حقیقت سے دور ہیں بلکہ اِنکا زمینی حقائق سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ البتہ گارنٹی میں آپ کو یہ دے رہا ہوں کہ آپ ایسے جملے بولنے والوں سے بس تھوڑی دیر بحث کریں، جاتے ہوئے یہ آپکو اپنی قومیت بھی بتا کر جاینگے، فرقہ بھی بتا کر جاینگے اور یہی نہیں آپ کو یہ بھی بتا کر جاینگے کہ آپ دراصل کتنے گمراہ ہے۔

اِس کیفیت کو ریاض ملک کی اصطلاح کے مطابق کمرشل لبرلزم کہا جاتا ہے۔ یہ لبرلزم کا سلفی مکتب فکر ہے۔ زندگی نے موقع دیا تو ریاض ملک سے کہوں گا کہ اپنی حجاجی زنبیل میں سے اِس کمرشل لبرلزم کے چیدہ چیدہ خواص فرنگی زبان میں شئیر کریں، تاکہ بندہ حقیر اُنہیں اُردو میں ترجمہ کرکے دس دس کاپیاں فیسبک پر تقسیم کردے۔فی الحال اپنا مشاہدہ پیش کردیتا ہوں۔

کمرشل لبرلز اور دیسی بدووں میں چند باتیں مشترک نظر آینگی جن سے آپ یہ نتیجہ نکال پائنگے کہ یہ دونوں دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ ایک لبرلز کے لبادے میں ثقافتی روایات اور انکے مذہبی و عقائدی پس منظر پر حملہ کرے گا اور ایک سیدھا سیدھا فائیر کرے گا۔ کمرشل لبرل آپ کو ترقی پسندی کے خواب دکھا کر پہلے یہ باور کروائے گا کہ آپ دراصل عظیم جہالت کا ارتکاب کررہے ہیں کیونکہ آپ اپنی فکری شناخت اور وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے اُس آزادی اظہار پر عمل کر رہے ہیں جو دراصل ترقی پسندی اور لبرزم کی اساس ہے۔ البتہ کمرشل لبرلزم ایسا نہیں سوچتا۔ ۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ بات ایک کمرشل لبرل کسی ڈاکٹر، انجینئیر یا دانشور کو کہتا نظر آئے۔ اُس کا مقصد مالٹے اور سیب کا موازنہ کرنا ہوگا اور وہ یہ کرکے رہے گا۔

کمرشل لبرلز ہوں یا دیسی بدو، یہ دونوں عموما آپ کو امن پسند صوفی روایات، میلاد یا رسمِ عزاداری پراعتراض کرتے نظر آینگے۔ طریقہ واردات الگ ہوگا لیکن بیانیہ ایک۔ آپ کو یہ دونوں کبھی کبھی آپس میں بھی بحث کرتے نظر آجاینگے جسکی حیثیت نورا کشتی سے زیادہ نہیں ہوگی کیونکہ ایک کا اصرار ہوگا کہ میلاد کرنا بدعت ہے اور دوسرے کا اصرار ہوگا کہ بدعت ودعت مجھے معلوم نہیں یہ سب فرقہ پرستی ہے، میرے نزدیک تو یہ مسلمانوں کی ترقی میں حائل رکاوٹ ہے۔ آخر ہم کب تک ۱۴۰۰ سال پرانے واقعات کو یاد کرتے رہینگے؟ کچھ ایسی ہی باتیں یہ کمرشل لبرلز محرم سے قبل بتانا شروع کردیتے ہیں۔ مخاطب چاہے آئی بی اے کا گریجویٹ یا کنگ ایڈورڈ کا ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہو۔

کمرشل لبرلز اور دیسی بدوِ ان دونوں کا بنیادی مسئلہ عدل کے مفہوم سے دوری ہے۔ خدانخواستہ یہ وہ عدل نہیں ہے جسے چوہدری کورٹ یا ڈوگر کورٹ کہا جاتا ہے، یہ وہ مفہوم ہے جو آپ کو کسی بھی چیز کو اُسکے درست مقام پر رکھنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اِس کا اُلٹ ظلم ہے، یعنی آپ عدل نہیں کرینگے تو آپ ظلم کرینگے۔ اور یہی ظلم آپ اُس وقت کرتے ہیں جب آپ غیر متوازن موازنے اور غیر حقیقی نجیجے اخذ کرتے ہیں۔ دیسی بدووں اور کمرشل لبرلز کا یہی المیہ ہے کہ یہ مخصوس Syndromes کی وجہ سے توازن قائم نہیں رکھ پاتے۔ کمرشل لبرلز بیلنسنگ کے چکرمیں مارے جاتے ہیں اور دیسی بدو یک طرفہ موقف کی وجہ سے۔ کمرشل لبرلز مخصوص مکاتب کی مذہبی اقدار پر تنقید کرکے اُنہیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور دیسی بدو صرف اپنے مذیبی اقدار درست قرار دیکر باقیوں کو مسلمانوں کی پستی کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی کسی معروف ترقی پسند نے ایسے نظریات رکھے اور نہ ہی دائیں بازو والوں نے ایسا نتیجہ اخذ کیا۔ یہ دونوں طبقہ فکر کنفیوژن کا شکار ہیں۔

البتہ اِن دونوں میں سے میں کمرشل لبرلز کو زیادہ مہلک سمجھتا ہوں کیونکہ یہ امن پسند روایات، ثقافت، فکری تشخص اور مذہبی آزادی پر لبرل کیمپ میں بیٹھ کر حملہ کرتے ہیں۔ یہ حملے بھی Pick & Choose کے مصداق سیلیکٹو اور وہابی لبرلزم کے عکاس ہوتے ہیں۔ یہ اِن سب اقدار پر تو تنقید کرتے نظر آتے ہیں لیکن حیران کُن طور پر پوری دنیا میں دہشتگردی کا بازار گرم کرنے والی فکر اور انکے ماخذ پر ببانگ دہل تنقید کرنے سے چوک جاتے ہیں، اگر کرتے بھی ہیں تو حسبِ معمول بیلنسگ پر عمل کرتے ہوئے۔ اِسکی مثال یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ یہ آپ کو بے ضرر الیاس قادری پر تو لطیفے کستے نظر آینگے لیکن طارق جمیل پر ہتھ ہولا رکھیں گے، یہ آپ کو عزاداری پر کسی نہ کسی انداز میں تنقید کرتے دکھائی دینگے لیکن ساتھ میں یہ بھی بتا دینگے کہ میرا فرقوں سے کوئی تعلق نہیں۔ کمرشل لبرلزم ایک ہیجانی کیفیت ہے، اِس سے متاثرہ شخص پر نظر رکھیں، ہیجانی کیفیت میں کہیں وہ اکیلا نہ رہ جائے۔ کچھ بات سمجھے آپ؟

آخر میں ایسے تمام کمرشل لبرلز اور دیسی بدووں کو، جو غیر متوازن اور غیر حقیقی موازنے کرتے ہیں، میری اور حبیب جالب کی طرف سے بس یہی پیغام ہے کہ:

یسے دستور کو صبحِ بے نور کو

میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا

دیپ جس کا محلات میں ہی جلے

چند لوگوں کی خوشیو کو لے کر چلے

وە جو ساۓ میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو

Advertisements
julia rana solicitors

میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply